پنجاب میں خواتین پہلے سے زیادہ محفوظ‘ خود مختار ہیں: عظمیٰ بخاری
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ پنجاب میں رہنے والی تمام خواتین کو مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ آج وہ پہلے سے زیادہ محفوظ اور خود مختار ہیں۔ پنجاب حکومت خواتین کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے، تاکہ انہیں مساوی مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ ورکنگ خواتین نہ صرف ملازمت پر جاتی ہیں بلکہ چھٹی کے دن بھی کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے میں خواتین کے ساتھ ہونے والی تفریق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے عہدے کا حلف لیتے وقت واضح کیا تھا کہ خواتین پر تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور اس پالیسی پر سختی سے عمل بھی کیا جا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے الحمراء آرٹس کونسل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب نے"پنک بٹن" سروس کا آغاز کیا ہے، جس کی بدولت خواتین اب اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی ظلم پر بلا خوف آواز اٹھا سکتی ہیں۔ تیزاب گردی اور خواتین پر کسی بھی قسم کے تشدد کے واقعات میں حکومت نے 24 گھنٹوں کے اندر کارروائی کو یقینی بنایا ہے۔ پنجاب حکومت نے ملازمت پیشہ خواتین کی مدد کے لیے ورکنگ ہاسٹلز اور ڈے کیئر سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں، تاکہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے فکر مند نہ ہوں۔ پنجاب میں اگر کوئی ریپ کیس سامنے آتا ہے تو ملزموں کو 24 گھنٹوں کے اندر گرفتار کیا جاتا ہے، تاکہ متاثرہ خواتین کو فوری انصاف مل سکے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جس پر ظلم ہوتا ہے، وہ شرمندگی کا شکار ہو جاتی ہے، جبکہ مجرم بے خوف گھومتا رہتا ہے۔ حکومت پنجاب نے اس رویے کو بدلنے کے لیے ٹھوس اقدامات کئے ہیں۔ اسلام نے خواتین کو مکمل حقوق دئیے ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ان حقوق کا احترام کریں۔ عورت مارچ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے مطالبات جائز ہیں، تاہم بعض متنازعہ پوسٹرز پر اعتراضات موجود ہیں۔ جو لوگ خواتین پر تشدد کرتے ہیں، ذہنی مریض ہوتے ہیں اور ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ پنجاب حکومت خواتین کو ہر ممکن سہولت اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ماں کے دورانِ حمل کووڈ کا شکار ہونے پر بچوں میں آٹزم کا خطرہ زیادہ پایا گیا، امریکی تحقیق
امریکی کے معروف میساچوسٹس جنرل اسپتالکے ماہرین نے ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ جن خواتین کو دورانِ حمل کووِڈ-19 کا انفیکشن ہوا، اُن کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں آٹزم اور دیگر دماغی و اعصابی نشوونما کے امراض کا خطرہ نمایاں طور پر زیادہ ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اگر کسی حاملہ خاتون کا کووِڈ-19 ٹیسٹ مثبت آئے تو اس کے بچے میں دماغی یا اعصابی بیماری پیدا ہونے کا امکان تقریباً 29 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ یہ تحقیق جمعرات کے روز شائع ہوئی اور امریکی جریدے دی ہِل نے اس کی تفصیلات جاری کیں۔
یہ بھی پڑھیے: صدر ٹرمپ نے ویکسینز کو بچوں میں آٹزم کا ذمہ دار قرار دیدیا، ماہرین کا سخت ردعمل
تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر اینڈریا ایڈلو نے کہا کہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ کووِڈ-19، دیگر انفیکشنز کی طرح، نہ صرف ماں بلکہ بچے کے دماغی نظام کی نشوونما پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ نتائج اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں کہ دورانِ حمل کووِڈ-19 سے بچاؤ کی کوشش کی جائے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب عوام کا ویکسین پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر ایڈلو میساچوسٹس جنرل اسپتال سے وابستہ مادری و جنینی طب کی ماہر ہیں۔
تحقیق میں مارچ 2020 سے مئی 2021 کے دوران پیدا ہونے والے 18 ہزار سے زائد بچوں کے کیسز کا تجزیہ کیا گیا۔ اس مطالعے میں شامل 861 خواتین دورانِ حمل کووِڈ-19 میں مبتلا تھیں۔ ان میں سے 140 خواتین، یعنی تقریباً 16 فیصد، کے بچوں کو تین سال کی عمر تک آٹزم تشخیص ہوا۔ اس کے برعکس، وہ خواتین جن کا کووِڈ ٹیسٹ منفی آیا، ان کے بچوں میں آٹزم کے کیسز 10 فیصد سے بھی کم پائے گئے۔
یہ بھی پڑھیے: آٹزم پیدا ہونے کی وجہ اور اس کا جینیاتی راز کیا ہے؟
تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ لڑکے بچوں میں آٹزم کا خطرہ لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ خاص طور پر وہ بچے زیادہ متاثر پائے گئے جن کی ماؤں کو حمل کے تیسرے مرحلے میں کووِڈ-19 ہوا۔
رپورٹ کے مطابق، متاثرہ بچوں میں سب سے عام مسائل آٹزم اور بولنے یا حرکت سے متعلق اعصابی مسائل تھے۔ ماہرین نے زور دیا ہے کہ ان نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے حاملہ خواتین کے لیے کووِڈ-19 سے بچاؤ اور ویکسینیشن کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آٹزم انفیکشن کووڈ19 ویکسین