آئی ایم ایف سے مذاکرات اہم مرحلے میں داخل، 605 ارب کا ٹیکس شارٹ فال پورا کرنیکی تفصیل فراہم
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )ایف بی آر حکام نے ٹیکس وصولیوں میں 605 ارب روپے کا شارٹ فال پورا کرنےکی تفصیلات آئی ایم ایف کو فراہم کردیں۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور قرض پروگرام قسط کے فوری اجرا کے لئے مذاکرات اہم مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔ وزارت خزانہ، ایف بی آر اور توانائی حکام نے اپنی کارکردگی رپورٹس گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف کوپیش کیں جس پر آج کے مذاکرات میں آئی ایم ایف اپنا رد عمل دے گا۔
وزارت خزانہ نے کرنٹ اکاﺅنٹ، مالی خسارہ کنٹرول کرنے اوربین الاقومی فنانسنگ پربریفنگ دی جبکہ اصلاحات اور ٹیکس ٹوجی ڈی پی بڑھانے کی تفصیلات بھی فراہم کردی گئی ہیں۔ایف بی آر حکام نے ٹیکس وصولیوں میں 605 ارب روپے کاشارٹ فال پورا کرنےکی تفصیلات بھی آئی ایم ایف ٹیم کو فراہم کردی ہیں جبکہ آئی ایم ایف وفد سے رئیل اسٹیٹ، پراپرٹی، بیوریجز اور تمباکو سیکٹرکے ریلیف کی تجویز زیربحث رہی۔
اس کے علاوہ اگلے بجٹ میں تنخواہ دارطبقے پربھی ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کی تجویز پر بات چیت کی گئی جبکہ ریٹیل سیکٹر سمیت مختلف شعبوں سے 250 ارب روپے ٹیکس وصولی کے پلان پربھی بات چیت ہوئی۔
وزارت پٹرولیم اور توانائی کی جانب سے آئی ایم ایف حکام کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ توانائی شعبے میں گردشی قرض میں کمی کے لئے کمرشل بینکوں سے 1250 ارب روپے 10.
عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کرنے کی ذمہ داری کس کی تھی؟ جسٹس جمال مندوخیل
مزید :ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف ارب روپے
پڑھیں:
سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔