شہری آزادیوں کی سنگین صورتحال، لسٹ میں پاکستان اور امریکہ بھی
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 مارچ 2025ء) سول سوسائٹی تنظیموں اور کارکنوں کے عالمی اتحاد سیویکس (CIVICUS) کی تازہ ترین مانیٹر واچ لسٹ کے مطابق ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو، اٹلی، پاکستان، سربیا اور امریکہ میں شہری آزادیوں سے متعلق سنگین خدشات پائے جاتے ہیں۔
آئندہ ہفتوں اور مہینوں کے دوران سیویکس مانیٹر ان ممالک میں سے ہر ایک میں ہونے والی پیش رفت کا قریب سے جائزہ لے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان ممالک کی حکومتوں پر زیادہ دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ان معاشروں میں شہری آزادیوں کے استعمال کی صورتحال کو بہتر بنائیں۔
سیویکس کا ان حکومتوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے ہاں جاری کریک ڈاؤن کو فوری طور پر ختم کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کریں اور اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ ان ممالک میں شہری آزادیوں کے استعمال کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مجرموں کا ہر ممکن محاسبہ کیا جائے۔(جاری ہے)
انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث سکیورٹی اہلکار امن مشن پر؟
جمہوریہ کانگو میں شہری آزادیوں کو کچلا جا رہا ہے
ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو یا DRC میں 'سوک اسپیس‘ یا شہری آزادیوں کے دائرے کو تیزی سے تنگ کیا جا رہا ہے۔
اس ملک میں شہری آزادیوں کی صورتحال بہت خراب ہو گئی ہے کیونکہ مسلح گروپ M23، جسے اقوام متحدہ کے ماہرین کے بقول روانڈا کی حمایت حاصل ہے، نے جنوری 2025 ء کے اواخر میں شمالی کیوو صوبے کے دارالحکومت گوما پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی فوجی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے۔ بعد ازاں جنوبی کیوو صوبے کے بوکاوو شہر پر 15 فروری کو قبضہ بھی کر لیا گیا۔اس افریقی ملک میں آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کو بری طرح پامال کیا گیا ہے جبکہ وہاں صحافیوں کو دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیا اور حکام نے تنازعات کی رپورٹنگ سے متعلق سنسرشپ کا لیول بھی بڑھا دیا۔
13جنوری 2025ء کو DRC کے میڈیا ریگولیٹر ''ہائر کونسل فار آڈیو ویژؤل اینڈ کمیونیکیشنز (CASC) نے الجزیرہ ٹی وی کو باغی لیڈر کے انٹرویو نشر کرنے پر 'احتیاطی تدبیر‘ کے طور پر 90 دنوں کے لیے معطل کر دیا تاکہ 'جمہوریہ کے اداروں کو غیر مستحکم کر دیے جانے‘ سے بچایا جا سکے۔ ساتھ ہی M23 مسلح گروپ کے حامیوں کو نشریات کے لیے ایئر ٹائم دینے کے جرم میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو بندش اور پابندیوں کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔مشرقی جمہوریہ کانگو میں بڑھتے ہوئے مسلح بحرانوں کے دوران ہیومینیٹیرین ایڈ ورکرز ہلاک بھی ہوئے۔
اٹلی میں شہری آزادیوں کی درجہ بندی: تنگ
ستمبر 2024 ء میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی منظوری کے بعد اطالوی سینیٹ متنازعہ ''گاندھی مخالف بل‘‘ (بل 1236) پر غور کر رہی ہے، جو ایک وسیع قانونی پیکج ہے جس میں درجنوں نئے فوجداری جرائم اور عوامی تحفظ کے بہانے سخت سزائیں متعارف کرائی گئی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں بشمول ہیومن رائٹس واچ، اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اور کونسل آف یورپ نے تاہم اس تجویز کی مذمت کی ہے۔ بیس سے زیادہ یورپی تنظیموں نے اسے ''حالیہ دہائیوں میں احتجاج کے حق پر سب سے سنگین حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اگر یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو یہ اٹلی میں شہری آزادیوں کو مزید محدود کر دے گا۔ اس ملک میں پہلے ہی صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور کارکنوں، خاص طور پر جو ماحولیاتی تحفظ اور پناہ گزینوں کے حقوق سے وابستہ ہیں، کو بڑھتی ہوئی قانونی ہراسانی، استغاثہ کی کارروائیوں اور حراست تک کا سامنا ہے۔ یہ بل براہ راست غیر متشدد احتجاج اور سول نافرمانی جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے والوں کو سخت سزاؤں کا حقدار ٹھہراتا ہے۔ یہاں تک کہ ٹریفک بلاک کرنے والے مظاہرین کو بھی دو سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔جیلوں اور تارکین وطن کے حراستی مراکز میں، جہاں خراب حالات اور بدسلوکی کی وجہ سے اکثر مظاہرے ہوتے ہیں، قیدیوں کی طرف سے کسی بھی قسم کی غیر فعال مزاحمتوں، بشمول بھوک ہڑتال یا کام سے انکار کا نتیجہ سخت سزا ہے۔ دریں اثنا یہ بل ریاستی نگرانی کو بھی وسعت دیتا ہے اور سکیورٹی سروسز کے اختیارات میں توسیع کرتا ہے۔
پاکستان میں شہری آزادیوں کی ریٹنگ: پوری طرح دباؤ میں
پاکستان کو تازہ ترین CIVICUS مانیٹر واچ لسٹ میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کیونکہ اس ملک میں انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں کے خلاف مجرمانہ کارروائیاں، انسانی حقوق کی تحریکوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور احتجاج اور ڈیجیٹل پابندیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
عمران خان کو قید میں رکھنا بین الاقوامی قانون کے منافی، اقوام متحدہ
اکتوبر 2024 ء میں حکام نے انسانی حقوق کی ممتاز محافظ اور بلوچ رہنما ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کو نشانہ بنایا، جنہیں علیحدگی پسند گروپوں کی مدد کرنے کے بے بنیاد الزامات کا سامنا ہے۔
یہ کیس اس وقت سامنے آیا جب مہرنگ بلوچ کو ساتھی کارکن سمیع دین بلوچ کے ساتھ بیرون ملک سفر کے لیے ایک مسافر پرواز پر سوار ہونے سے روک دیا گیا۔ اسی ماہ انسانی حقوق کی وکیل ایمان زینب مزاری اور ان کے شوہر پر بھی 'دہشت گردی کی کارروائیوں‘ کے الزامات عائد کیے گئے۔ انسانی حقوق کے محافظ ادریس خٹک نے اپنے کام کے بدلے میں اب پانچ سال حراست میں گزارے ہیں جبکہ حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جو کہ پشتون عوام کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ملک بھر میں فعال تحریک ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے احتجاج کے خلاف بھی شدید نوعیت کا کریک ڈاؤن کیا گیا۔ اکتوبر 2024 ء میں مبہم اور حد سے زیادہ قوانین کے تحت مظاہروں سے قبل سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اور ان پر الزامات عائد کیے گئے۔ نومبر 2024 ء میں حکام نے مظاہرین کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اسلام آباد جانے والی اہم شاہراہوں اور راستوں کو بند کر دیا۔
ملک بھر میں مظاہروں سے قبل ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ کراچی پولیس نے اکتوبر 2024 ء میں کراچی میں ''سندھ روا داری مارچ‘‘ کے گرد کریک ڈاؤن شروع کیا اور جنوری 2025 ء میں صوبہ سندھ میں نسلی بلوچوں کے پرامن مظاہرے سے پہلے۔پاکستان میں الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے ایکٹ (PECA) کے تحت صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جن پر 'ریاستی اداروں کے خلاف غلط بیانیہ‘ پھیلانے کا الزام ہے۔
صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد پولیس نے نومبر 2024 ء میں منشیات رکھنے اور دہشت گردی کے جعلی الزامات میں حراست میں لیا تھا۔ صحافی ہرمیت سنگھ کو دسمبر 2024ء میں ان الزامات پر پوچھ گچھ کے لیے پیش ہونے کے لیے طلب کیا گیا تھا کہ وہ ''ریاستی اداروں کے خلاف منفی بیان بازی‘‘ میں مصروف تھے۔پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر پینٹاگون کی رپورٹ:ملا جُلا رد عمل
جنوری 2025 ء میں حکومت نے قومی اسمبلی میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے سخت قانون (PECA) میں ترامیم کی منظوری کے ذریعے آن لائن تقریر پر اپنا کنٹرول مزید سخت کر دیا۔
نومبر 2024ء کے آخری ہفتے میں پاکستانی اپوزیشن کے منصوبہ بند مظاہروں سے پہلے بنیادی طور پر انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کر دیا گیا جبکہ سوشل میڈیا سائٹ ایکس فروری 2024 ء سے بند ہے۔سربیا کی سوک اسپیس ریٹنگ: رکاوٹ کا شکار
سربیا میں شہری آزادیاں تیزی سے زوال پذیر ہیں کیونکہ حکام عوامی احتجاجی تحریک کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں جو یکم نومبر 2024ء کو ایک نئے تعمیر شدہ ٹرین اسٹیشن کے منہدم ہونے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک اور دو دیگر شدید زخمی ہوئے تھے۔
مظاہرین اس تباہی کا الزام حکومت میں وسیع پیمانے پر بدعنوانی کو قرار دیتے ہیں۔پاکستان کا ایکسپورٹ اسٹیٹس انسانی حقوق سے نتھی ہے، یورپی یونین
22 نومبر 2024 ء کو صورتحال اس وقت مزید بگڑی، جب بلغراد میں فیکلٹی آف ڈرامیٹک آرٹس کے طلبا اور پروفیسروں پر اس وقت حملہ کیا گیا، جب وہ متاثرین کے لیے ایک خاموش لیکن پرامن مظاہرہ کر رہے تھے۔
اس حملے میں زخمی ہونے والے ایک طالب علم کو ہسپتال میں داخل کیا گیا اور ایک صحافی بھی زخمی ہوا۔ اس کے جواب میں تمام سرکاری یونیورسٹیوں کے طلبا نے غیر معینہ مدت تک کے لیے ہڑتال شروع کی، کلاسوں کا بائیکاٹ کیا اور یونیورسٹیوں کی عمارتوں پر اس وقت تک قبضہ رکھا جب تک کہ ان کے مطالبات نہ پورے کیے گئے۔ اس تحریک کو ٹریڈ یونینوں، کسانوں، بار ایسوسی ایشنز، نجی کاروباروں اور خود منظم شہریوں کی بھرپورحمایت حاصل ہے اور تجزیہ کار اسے کئی دہائیوں میں ملک کی سب سے بڑی تحریک قرار دیتے ہیں۔امریکہ میں شہری آزادیوں کی درجہ بندی: تنگ
امریکہ کو بھی اب CIVICUS مانیٹر واچ کی تازہ ترین لسٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ امریکی شہریوں کی آزادیوں کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے دوران بڑھتی ہوئی بے جا پابندیوں کا سامنا ہے۔ انتظامی اختیارات کا بے دریغ استعمال پرامن اجتماع، اظہار رائے اور انجمن کی آزادیوں پر قدغن شدید تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔
20 جنوری 2025 ء کو اپنی حلف برداری کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیے گہرے مضمرات کے ساتھ وفاقی پالیسیوں کو ختم کرتے ہوئے کم از کم 125 ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ آرڈرز نے وفاقی تنوع، مساوات اور شمولیت کے (DEI) پروگراموں کو غلط طور پر امتیازی قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا ہے اور انہوں نے غیر دستاویزی تارکین وطن اور ٹرانس جینڈر افراد اور 'غیر موافق‘ لوگوں کو نشانہ بنانے والے متعدد اقدامات متعارف کرائے ہیں۔
رواں سال جنوری کے وسط سے امریکہ اور بیرونی ممالک دونوں طرف بہت سی سول سوسائٹی تنظیمیں، غیر ملکی امداد کی من مانی معطلی اور وفاقی مالی اعانت کے وسیع پیمانے پر منجمد ہونے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہونے کے سبب ضروری انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کے پروگراموں کو ختم کرنے یا روک دینے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
اس ضمن میں واضح رہنما خطوط کی کمی نے قومی سطح پر قانونی چیلنجوں کو جنم دیا ہے۔سیویکس 175 سے زیادہ ممالک کے 17 ہزار سے زیادہ ممبران کے ساتھ ایک متحرک اتحاد کے طور پر اکثریتی دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ 1993 ء سے یہ پوری دنیا میں سرحدوں کے پار سرگرم کارکنوں اور سول سوسائٹی کے درمیان وسائل اور یکجہتی پیدا کرنے والا نیٹ ورک بنا ہوا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں شہری آزادیوں کی انسانی حقوق کی کریک ڈاؤن سے زیادہ کیا گیا کے خلاف ملک میں گیا ہے کر دیا دیا ہے کو بھی کے لیے اور ان
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کرنا ناممکن ہے، سنگین نتائج ہوں گے، سفارتی ماہرین
مقبوضہ کشمیر میں پہلگام واقعے کے بعد بھارتی کابینہ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں اجلاس کے بعد معاہدہ سندھ طاس معطل کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ تمام پاکستانیوں کے بھارتی ویزے منسوخ کرتے ہوئے انہیں 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑے کا حکم دے دیا ہے۔
بھارتی دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان ہائی کمیشن کو 7 روز میں بھارت چھوڑنا ہوگا اور پاکستان کے ایئرفورس و نیوی کے اتاشیوں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے دیا گیا جبکہ بھارتی دفاعی اتاشی کو بھی پاکستان سے واپس بلانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
پاکستانی سفارتی ماہرین کیا کہتے ہیں؟1) بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ورلڈ بینک کی نگرانی میں تشکیل پانے والا معاہدہ ہے۔
2) اگر بھارت ایسا کرتا ہے تو اس کے ستلج، راوی اور چناب پر بنائے گئے ڈیم غیر قانونی ہو جائیں گے۔
3) بھارت اپنے اندرونی خلفشار سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ سب کر رہا ہے ۔
4) بھارت وزیراعظم اور دیگر سیاستدانوں کے بیانات اس بات کے غماز ہیں کہ یہ سب پہلے سے طے شدہ حکمت عملی کے تحت کیا گیا۔
5) بھارت ہمیشہ عالمی ایونٹس سے قبل اس طرح کے واقعات کے ذریعے سے گراؤنڈ بناتا ہے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے۔
یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے سنگین نتائج ہوں گے، سفارتکار وحید احمدپاکستان کے سابق سفارتکار ایمبیسڈر وحید احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کافی عرصے سے پاکستان مخالف جذبات پر کھیل رہے ہیں اور بھارت تمام اہم مواقع پر اس طرح کے واقعات کروا کر ایک بری صورت حال بناتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی جب نائب امریکی صدر بھارت میں موجود تھے تو یہ واقعہ کروایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل کا اجلاس ہونا ہوتا ہے تو بھارت میں ایسا کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔
وحید احمد کا کہنا ہے کہ جب جنیوا میں انسانی حقوق کنونشن کا اجلاس ہوتا ہے بھارت میں کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ بھارت اپنے اندرونی خراب حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے اس طرح کے واقعات کرواتا ہے اور پھر پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکا کر وہاں مفاد حاصل کیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات درست ہوں۔
’پہلگام میں ہونے والا دہشتگردی کا واقعہ افسوسناک ہے‘وحید احمد نے کہا کہ منگل کو پہلگام میں ہونے والا دہشتگردی کا واقعہ افسوسناک ہے۔
سندھ طاس معاہدہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٹریٹی کو اگر بھارت یکطرفہ طور پر ختم کرتا ہے تو اس کے بہت خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ڈاؤن اسٹریم ملکوں کے حقوق مسلمہ ہیں اور اس طرح سے بھارت نے دریائے راوی، ستلج اور چناب پر جو ڈیم تعمیر کیے ہوئے ہیں وہ سب غیر قانونی ہو جائیں گے۔
کیا بھارت کے ان اقدامات سے جنگ کا خطرہ ٹل جائے گا، اس سوال کے جواب میں سفیر وحید احمد نے کہا کہ جنگ کی طرف تو کبھی بھی نہیں جاتے بس ان کا مقصد صرف عالمی توجہ کے لیے ایک واقعہ کروانا تھا جو انہوں نے کروا دیا۔
واقعہ پہلے سے طے شدہ تھا، سابق سفیر مسعود خالدپاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ دہشتگردی جاری رہے گی تو پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ انہوں نے مزید کہ اکہ یہ بیان بھارتی حکومت کی سوچ کا آئینہ دار تھا۔
مسعود احمد نے کہا کہ جہاں تک سندھ طاس معاہدے کا تعلق ہے یہ معاہدہ ورلڈ بینک کی نگرانی میں طے ہوا تھا اور یکطرفہ طور پر اس کو معطل کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں اس معاہدے پر نظر ثانی کی بات گئی اور اگر نظر ثانی درکار ہو تو اس کا طریقہ کار ہے جس کے تحت واٹر کمشنرز کا اجلاس بلایا جاتا ہے لیکن پاکستان کی درخواست کے باوجود گزشتہ کافی عرصہ سے واٹر کمشنرز کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔
سابق سفیر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں لیکن یہ معاہدہ کبھی معطل نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان ساری باتوں کو اگر بھارتی وزیراعظم کے بیان سے جوڑ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا۔
مسعود خالد نے کہا کہ پہلگام واقعہ ان کی سکیورٹی ایجنسیز کی ناکامی کا غماز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت پہلے بھی اس طرح کے اڑی اور پلوامہ فالس فلیگ آپریشنز کرتا رہا ہے اور پہلگام واقعے کے فوراً بعد بغیر وقت ضائع کیے بھارت کے میڈیا اور سیاستدانوں نے پاکستان پر الزامات لگانا شروع کر دیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے گزشتہ کچھ عرصے کے بیانات کو دیکھا جائے تو وہ کافی جارحانہ نظر آتے ہیں جن میں وہ آزاد جموں و کشمیر لینے کی بات کرتے ہیں، تو یہ ساری چیزیں اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا جس میں ان کی داخلی سیاسی مجبوریاں بھی حائل ہو سکتی ہیں۔
مسعود خالد نے کہا کہ بھارت کو دکھانا تھا کہ وہ پاکستان کے خلاف کیا کچھ کرنے جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہرحال اس ساری صورتحال سے امن کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں کیونکہ دونوں ایٹمی قوتیں ہیں۔
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو طلب کرلیا گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس میں کیا فیصلے ہوتے ہیں۔ کیا یہ صورت یہیں رک جائے گی یا یہ کسی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انڈس واٹر ٹریٹی پاک بھارت آبی معاہدہ پاکستان اور بھارت سندھ طاس معاہدہ