سفری پابندیاں: کیا پاکستانی بچوں پر امریکی تعلیم کے دروازے بند ہونے جا رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مارچ 2025ء) ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے متعدد طلبہ و طالبات نے بتایا کہ ان کے لیے امریکہ سے آنے والی سفری پابندیوں کی اطلاعات کافی پریشان کن ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ امریکی ویزے کے حصول میں مزید سختی ان کے تعلیمی کیرئر کو متاثر کر سکتی ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل اسما نامی ایک طالبہ کا امریکہ کی ایک ممتاز یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا ہے۔
اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ اس داخلے کو کنفرم کرنے کے لیے فیس کی بھاری رقم ادا کردے اور بعد میں اسے ویزہ نہ مل سکے تو اس کے پیسے ضائع ہوجانے کا خدشہ ہے۔انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے کنسٹرکشن مینجمنٹ میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان عبدالحنان کو امریکی ریاست مشی گن کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر سے پی ایچ ڈی کے لیے رضامندی مل گئی تھی اور اس کا اسکالرشپ پر امریکہ جانے کا پراسس جاری تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ اس کے منصوبے کی فنڈنگ کم ہو گئی ہے ابھی کچھ اندازہ نہیں کہ انہیں سکالرشپ مل سکتی ہے یا نہیں۔
(جاری ہے)
ہنرمند افراد کے لیے امریکی شہریت کا وعدہ
عناب نامی ایک طالبہ نے بتایا کہ اس کا اعلٰی تعلیم کے لیے اس سال امریکہ جانے کا ارادہ تھا لیکن کسی بے یقینی سے بچنے کے لیے اُس نے اپنے ایڈوائزر کو دوسرے ملکوں میں اعلٰی تعلیم کے مواقع تلاش کرنے کے لیے کہہ دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں عناب نے بتایا کہ نیویارک میں زیر تعلیم اس کے ایک جاننے والے طالب علم نے اس عید پر اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے پاکستان آ نا تھا لیکن اس کی یونیورسٹی نے ایک ای میل کے ذریعے اس پاکستان جانے سے یہ کہہ کر روک دیا ہے کہ ابھی امریکی حکومت کی پالیسی واضح نہیں ہے۔
اگر وہ پاکستان چلے گئے تو ہو سکتا ہے کہ ان کو دوبارہ واپس آنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور اس کا تعلیمی ہرج ہو جائے۔ امریکہ میں موجود فاطمہ نامی ایک پاکستانی طالبہ نے بتایا کہ کئی پاکستانی طالب علم عید کے بعد شادیوں یا دیگر فیلمی فنکشنز میں شرکت کے لیے پاکستان آنا چاہتے تھے لیکن اس صورتحال میں انہوں نے اپنے ٹکٹ کینسل کروا دیے ہیں۔عرفان نامی ایک پاکستانی فلوریڈا میں مقیم ہے اس کا خیال ہے کہ اب اس کے عزیزوں کے لیے امریکہ آنا آسان نہیں ہوگا۔ یاد رہے چند روز پہلے 'رائٹرز‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جن کے شہریوں کو امریکا میں داخلے سے روکا جائے گا۔ اس کے بعد 'نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستانیوں کے سفر پر مکمل پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، لیکن ویزوں کے لیے درخواست دیتے وقت انہیں 'مزید جانچ پڑتال‘ سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکہ میں پاکستانی سفارت خانہ اس سلسلے میں معلومات کے حصول کے لیے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے رابطے میں ہے۔امریکی ویزہ پروگرام مزید مشکل، بھارتی کمپنیاں متاثر ہوں گی
پاکستان کے دفتر خارجہ میں امریکی ڈیسک پر کام کرنے والے ایک سینئر افسر نے اپنا نام، ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اس ضمن میں حتمی طور پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
کیونکہ ابھی تک پاکستان کو امریکہ کی طرف سے باضابطہ طور پر اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ ان کے بقول یہ بات درست ہے کہ امریکہ کچھ ملکوں کے لیے سفری پابندیاں سخت کرنے کے لیے اپنی پالیسی کا جائزہ لے رہا ہے۔دفتر خارجہ کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد پولیس کا محکمہ اور امن و امان کا بنیادی شعبہ صوبوں کے پاس چلا گیا ہے۔
اس لیے ویزے کے اجرا سے پہلے جب سفارت خانے پولیس سرٹیفکیٹ منگواتے ہیں تو ایک صوبے کی رپورٹ آ جاتی ہے کہ اس آدمی کا کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں ہے لیکن اس بات کا امکان بھی تو ہو سکتا ہے کہ ویزے کے متمنی شخص نے کسی دوسرے صوبے میں کوئی جرم کیا ہو۔ ان کے بقول امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پولیس ریکارڈ سنٹرلائزڈ ہو جہاں سے کسی بھی شخص کی مناسب ویریفیکیشن ہو سکے۔خطے میں امن کے لیے امریکہ کے ساتھ شراکت داری جاری رہے گی، شہباز شریفبچوں کو اعلٰی تعلیم کے لیے مختلف ملکوں میں جانے کے لیے رہنمائی فراہم کرنے کا وسیع تجربہ رکھنے والے ایک سینئر کنسلٹنٹ حافظ حیدر علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکہ میں پاکستانیوں کے داخلے پر عائد کی جانے والی قدغنوں کی وجہ سے صورت حال کافی غیر یقینی ہو چکی ہے۔
ان کے مطابق امریکی یونیورسٹیاں پاکستان کے ہائی اچیورز کو سکالرشپ دیتی ہے۔ جس پر پاکستانی بچے امریکہ پڑھنے جاتے ہیں۔ اب حال ہی میں یہ ہو گیا ہے کہ اب کئی بچے اسکالرشپ ملنے کے باوجود بھی امریکہ جانے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔حافظ حیدر علی نے بتایا کہ وقتی طور پر اس صورتحال میں پاکستانی بچوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا لیکن اس صورتحال کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اب ہمارے بچے جاپان اور چین سمیت نئی جگہوں پر اعلٰی تعلیم کے مواقع تلاش کر سکیں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس صورت حال میں پاکستان سے ہونے والا برین ڈرین رک جائے گا ، حافظ حیدر علی کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ ذہین بچے پاکستان میں رک کر ملک کی ترقی میں حصہ لیں کیونکہ یہاں کا نظام پڑھے لکھے محنتی بچوں کو سپورٹ نہیں کرتا۔یو ایس ایڈ بند ہونے سے پاکستان میں لاکھوں متاثر ہوں گے
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی چند دن پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف تعاون کرنے پر پاکستان کی تعریف کی ہے لیکن اگر امریکہ پاکستانیوں کا امریکہ میں داخلہ یک طرفہ طور پر بند کر دے گا تو اس سے بہت غلط سگنل جائے گا۔
ان کے بقول پاکستان سے امریکہ جانے والے لوگوں کی تعداد پہلے ہی کم ہے اور یہاں سے جانے والوں کو کڑی جانچ پڑتال سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستانیوں کے لیے سخت ترین پابندیوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اعل ی تعلیم کے میں پاکستانی امریکہ جانے میں پاکستان نے بتایا کہ کہ پاکستان امریکہ میں نامی ایک ہے کہ اب کے لیے ا لیکن اس سکتا ہے کہ میں گیا ہے تھا کہ
پڑھیں:
بتایاجائے کس نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی، کس کس نے برآمد کی؟.پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 جولائی ۔2025 )پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے شوگر ملز مالکان کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ بتایاجائے کس نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی،کس کس نے برآمد کی، یہ بھی بتایا جائے کہ کس کس ملک کو چینی برآمد کی گئی تھی. پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا اجلاس جنید اکبر کی زیر صدارت منعقد ہوا، کمیٹی کو ملک چینی کی قیمتوں پر بریفنگ دی گئی رکن کمیٹی معین پیرزادہ نے کہاکہ شوگر مافیا صوبائی حکومتوں کے بس میں نہیں ہے، کیا مراد علی شاہ یا مریم نواز کے پاس اس مافیا کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ہے؟ شوگر ایڈوائزری بورڈ میں تمام مال بیچنے والے موجود ہیں لیکن صارفین کی کوئی نمائندگی نہیں ہے. یاد رہے کہ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے گزشتہ ہفتے حکومتی فیصلے کی روشنی میں چینی کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ کی منظوری پر ایف بی آر کے نوٹیفیکیشن کا نوٹس لیتے ہوئے ایس آر او پر وضاحت کے لیے چیئرمین ایف بی آر کو آج طلب کیا تھا چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے آج پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی میں پیش ہوکر انکشاف کیا کہ 5لاکھ ٹن چینی کی درآمد کیلئے کابینہ کی ہدایت پر 4 قسم کے ٹیکسوں میں کمی کی گئی، مختلف ٹیکسز کو 18 فیصد سے کم کرکے 0.2 فیصد پر لایا گیا. سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ سیزن کے آغاز میں 1.3 ملین ٹن چینی کا ذخیرہ موجود تھا، چینی برآمد کرنے کی اجازت کاشتکاروں کو تحفظ دینے کے لیے دی گئی تھی، سیکرٹری فوڈ سیکورٹی کے ریمارکس پر کمیٹی کے ارکان نے تشویش کا اظہار کیا. چیئرمین پی اے سی جنید اکبر نے کہا کہ چند شوگر ملز مالکان کو ارب پتی بنانے کے لیے پہلے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، پی اے سی نے چینی کا معاملہ آئندہ ہفتے تک موخر کر دیا واضح رہے کہ فاقی کابینہ نے شوگر ملز مالکان کی جانب سے 21 نومبر 2024 سے پیداوار شروع کرنے کی شرط پر مزید 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی تھی بعدازاں ملک بھر میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومت نے گزشتہ ماہ 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم حکومت کو 50 ہزار ٹن چینی درآمد کرنے کے عالمی ٹینڈر پر کوئی بولی موصول نہیں ہوئی ہے. علاوہ ازیں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے آڈٹ رپورٹ 24-2023 میں فنانس ڈویژن سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا، فراڈ پر مبنی سرگرمیوں میں ملوث کمپنی کو قرضہ دینے کی وجہ سے 23 ارب روپے کے نقصان کا معاملہ بھی اجلاس بھی زیر غور آیا. آڈٹ حکام نے بتایا کہ نیشنل بینک نے حیسکول پٹرولیم لمیٹڈ کا معاشی تجزیہ کیے بغیر یہ قرضہ دیا، سینیٹر افنان اللہ نے فنانس ڈویژن کے حکام سے سوال کیا کہ آپ بتائیں 23 ارب روپے کہاں گئے، سید نوید قمر نے کہاکہ آپ کو ذمہ داروں کا تعین کرنا ہوگا۔(جاری ہے)
ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ایف آئی آر کے اندر 32 ملزمان کے نام تھے، اس میں کچھ بینکرز کا کردار بھی تھا، صدر نیشنل بینک نے بتایا کہ 2 ارب روپے ہمیں وصول ہوچکے ہیں، جنہوں نے جرم کیا وہ چھوٹ گئے جبکہ نیشنل بینک کے لوگ ایف آئی اے کے پاس ہیں۔ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ حیسکول کے 12 میں سے 7 بندوں کا کوئی کردار نہیں تھا،2 افراد کو عدالت نے چھوٹ دی جبکہ 5 افراد کا کیس ابھی ختم نہیں ہوا، پی اے سی نے معاملہ عدالت میں ہونے کی وجہ موخر کردیا.