رمضان میں عوام کو 10 ہزار روپے کیش دینے کے حوالے سے اہم خبر
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
پشاور( نیوز ڈیسک) رمضان پیکج کے تحت عوام کو 10، 10 ہزار روپے دیئے جانے کے حوالے سے بڑی خبر آگئی ، صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے سے 5،5ہزار خاندانوں کا انتخاب کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت نے رمضان پیکج کے 10 ارب 20 کروڑروپےجاری کردیے ، محکمہ خزانہ نے رمضان پیکج کی رقم محکمہ سماجی بہبود کے اکاؤنٹ منتقل کردی۔
پیکج کےتحت 10لاکھ خاندانوں کو 10، 10 ہزار روپے دیے جائیں گے ، کےپی حکومت نے بتایا کہ صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے سے 5،5 ہزار خاندانوں کا انتخاب کیا گیا۔
پیکج کیلئے خاندانوں کاانتخاب پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نےکیا، پی ٹی آئی ممبران اسمبلی ،عہدیداروں نے فہرستیں صوبائی حکومت کےحوالے کردی ہیں۔
یاد رہے جنوری میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کابینہ اجلاس میں ماہ رمضان کیلیے اقدامات پر غور کیا تھا اور کہا تھا کہ ہر حلقے میں 5 ہزار غریب خاندانوں کو 10 ہزار روپے فراہم کیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی ایم ہاؤس میں سیل قائم ہوگا، جہاں سے رمضان ریلیف اقدامات کی مانیٹرنگ کی جائے گی۔
مزیدپڑھیں:بتایا جائے پابندی کے باوجود کون سے حکومتی ادارے ایکس استعمال کر رہے ہیں؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہزار روپے
پڑھیں:
صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزارت خزانہ کی تازہ رپورٹ نے ملک کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی سنگین صورتحال کو بے نقاب کردیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد قومی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس تیزی سے بڑھتا ہوا قرض ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرے کی علامت بن چکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمے قرضوں کا تناسب اگلے 3 سال میں 70.8 فیصد سے کم ہوکر 60.8 فیصد تک لانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ہے، تاہم خطرات اب بھی موجود ہیں۔
اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ جون 2025ء تک مجموعی قرض 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا، جب کہ صرف گزشتہ ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا جب کہ فنانسنگ کی ضروریات آئندہ برسوں میں 18.1 فیصد کی بلند سطح پر برقرار رہیں گی۔
وزارت خزانہ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی، تاہم قرضوں کا حجم اب بھی تشویشناک حد تک بلند ہے۔
رپورٹ میں قرضوں سے متعلق خطرات اور چیلنجز کی تفصیلی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے جب کہ ایکسچینج ریٹ میں اتار چڑھاؤ اور شرح سود میں تبدیلی کو قرض کے بوجھ میں اضافے کی بنیادی وجوہات بتایا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کے مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد اندرونی جب کہ 32.3 فیصد بیرونی قرضوں پر مشتمل ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، جس سے شرح سود کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کا دباؤ بڑھا ہوا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں، جو دوطرفہ اور کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ ریٹ والے بیرونی قرضوں کی شرح 41 فیصد ہے، جو درمیانی سطح کے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔