صنعتی پیداوار میں کتنی کمی ہوئی ؟ ادارہ شماریات کی اہم رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
پاکستان میں صنعتی پیداوار کا شعبہ مشکلات کا شکار ہے، موجودہ حالات میں صنعتوں کی پیداواری کارکردگی کی صورتحال مجموعی طور پر باعث تشویش ہے۔
ایک ماہ میں بڑی صنعتوں کی کارکردگی اگرچہ 2.1 فیصد بہتر ہوکر 129.9 فیصد پر تو آگئی ہے لیکن مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ میں بڑی صنعتوں کی نمو 1.78 فیصد کمی سے 114.7 فیصد پر آگئی ہے۔
ادارہ شماریات نے بڑی صنعتوں سے متعلق اعداد و شمار جاری کردیے، جس کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے7 ماہ میں صنعتی پیداوار 1.
دسمبر کی نسبت جنوری میں پیداوار میں2.09فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، گزشتہ سال جنوری کی نسبت رواں سال یہ پیداوار 1.22 فیصد بڑھی۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق جولائی تا جنوری فرنیچر کی پیداوار میں 61.61 فیصد کمی ہوئی، مشینری اور دیگر ساز و سامان کی صنعتی پیداوار 26.84 فیصد کم ہوئی۔
اس کے علاوہ رواں مالی سال کے پہلے7ماہ میں الیکٹریکل ایکوئپمنٹ کی پیداوار 18 فیصد کم ہوئی، آئرن اور اسٹیل مصنوعات کی پیداوار 11.96فیصد گرگئی۔
ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ کیمیکل مصنوعات 10.26 فوڈ کے شعبے کی پیداوار میں2.67فیصد اضافہ ہوا، 7 ماہ میں تمباکو کی پیداوار 20.24 فیصد، آٹوموبیل کی پیداوار 45.74 فیصد بڑھ گئی۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق چمڑے کی مصنوعات کی صنعتی پیداوار 0.72فیصد، پیپر اور بورڈ کی صنعتی پیداوار1.36 فیصد بڑھی جبکہ جولائی تا جنوری فارماسوٹیکل پیداوار 1.96فیصد بڑھی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: صنعتی پیداوار ادارہ شماریات پیداوار میں کی پیداوار پیداوار 1 ماہ میں
پڑھیں:
چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
چینی صدر شی جن پنگ نے ہفتے کے روز ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) کے رہنماؤں کے اجلاس میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی نگرانی کے لیے ایک عالمی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے ذریعے چین خود کو تجارت کے میدان میں امریکا کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ صدر شی کے اس منصوبے کے بارے میں پہلے تبصرے تھے، جسے بیجنگ نے اس سال متعارف کرایا ہے، جب کہ امریکا نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے ضابطے بنانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔
ایپیک 21 ممالک پر مشتمل ایک مشاورتی فورم ہے، جو دنیا کی نصف تجارت کی نمائندگی کرتا ہے، جن میں امریکا، چین، روس اور جاپان شامل ہیں، اس سال کا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں منعقد ہوا ہے، جس پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی اور جارحانہ معاشی پالیسیوں (جیسے کہ امریکی محصولات اور چین کی برآمدی پابندیاں) کے سائے چھائے رہے جنہوں نے عالمی تجارت پر دباؤ ڈال رکھا ہے۔
شی جن پنگ نے کہا کہ ’ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن‘ کے قیام سے نظم و نسق کے اصول طے کیے جا سکتے ہیں، اور تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے، تاکہ مصنوعی ذہانت کو ’بین الاقوامی برادری کے لیے عوامی مفاد‘ بنایا جا سکے۔
یہ اقدام بیجنگ کو خاص طور پر تجارتی تعاون کے میدان میں واشنگٹن کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ’شِنہوا‘ کے مطابق، شی نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اور اسے تمام ممالک اور خطوں کے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ تنظیم چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں قائم کی جا سکتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایپیک سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سیدھا واشنگٹن واپس چلے گئے۔
دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے نتیجے میں ایک سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت تجارت اور ٹیکنالوجی پر عائد کچھ پابندیاں جزوی طور پر ہٹائی جائیں گی، جنہوں نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا تھا۔
جہاں کیلیفورنیا کی کمپنی ’این ویڈیا‘ کے جدید چپس مصنوعی ذہانت کے عروج کی بنیاد بنے ہیں، وہیں چین کی کمپنی ’ڈیپ سِیک‘ نے کم لاگت والے ماڈلز متعارف کرائے ہیں، جنہیں بیجنگ نے ’الگورتھمک خودمختاری‘ کے فروغ کے لیے اپنایا ہے۔
شی نے ایپیک کو ’گرین ٹیکنالوجی کی آزادانہ گردش‘ کو فروغ دینے پر بھی زور دیا، ایسی صنعتیں جن میں بیٹریز سے لے کر سولر پینلز تک کے شعبے شامل ہیں، اور جن پر چین کا غلبہ ہے۔
ایپیک کے رکن ممالک نے اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ آبادی کے چیلنج پر معاہدے کی منظوری دی۔
چین 2026 میں ایپیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جو شینزین میں منعقد ہو گا، یہ شہر ایک بڑا صنعتی مرکز ہے، جو روبوٹکس سے لے کر برقی گاڑیوں کی تیاری تک کے میدان میں نمایاں ہے۔
شی نے کہا کہ یہ شہر، جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ ہے، کبھی ایک ماہی گیر بستی تھا، جو 1980 کی دہائی میں چین کے پہلے خصوصی اقتصادی زونز میں شامل ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔