قرضوں کا بوجھ ترقی پذیر ممالک کے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں رکاوٹ
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تجارت و ترقی (انکٹاڈ) نے بتایا ہے کہ تقریباً تمام ترقی پذیر ممالک موسمیاتی استحکام کے لیے ضروری سرمایہ کاری سے کہیں زیادہ رقم اپنے قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ کر رہے ہیں جس سے انہیں ترقی کی راہ پر شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ادارے کی سیکرٹری جنرل ریبیکا گرینسپین نے کہا ہے کہ موجودہ عالمی مالیاتی نظام سے ترقی پذیر ممالک کو بھاری نقصان ہو رہا ہے جن کے لیے اپنے لوگوں کی تعلیم اور صحت پر خرچ کرنے کے لیے مطلوبہ مقدار میں مالی وسائل نہیں ہوتے۔
Tweet URL'انکٹاڈ' کے زیراہتمام قرضوں اور اس کی ادائیگی سے متعلق امور پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان ممالک کو بیرونی معاشی دھچکوں سے تحفظ دینے کا کوئی طریقہ کار یا سستے داموں حسب ضرورت طویل مدتی مالی وسائل مہیاکرنے کا کوئی نظام بھی وجود نہیں رکھتا۔
(جاری ہے)
'انکٹاڈ' کے مطابق، دنیا میں تین ارب 30 کروڑ لوگ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جنہیں ترقیاتی مقاصد اور اپنے عوام کی بہبود سے کہیں زیادہ رقم قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑتی ہے۔
سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ 2023 میں ترقی پذیر ممالک نے اپنی برآمدات سے حاصل ہونے والی 16 فیصد کمائی ادائیگی قرض پر خرچ کی جو کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی کی تعمیر نو کے لیے مختص کردہ مالیاتی حد کے مقابلے میں تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔
'انکٹاڈ' کی اس کانفرنس کا مقصد سرکاری سطح پر قرضوں کے حصول اور ان کی ادائیگیوں میں شفافیت لانے اور بہتر حکمرانی کے طریقے ڈھونڈنا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ترقی پذیر ممالک کی ادائیگی کے لیے
پڑھیں:
انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کا تین روز فلم فیسٹیول اختتام پذیر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر)انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کے ڈیپارٹمنٹ آف کمیونی کیشن ڈیزائن کے زیر اہتمام تین روزہ فلم فیسٹیول اختتام پذیر ہوگیا۔12ستمبر سے14ستمبر تک جاری رہنے والے فلم فیسٹیول میں اگلی نسل کے ابھرتے ہوئے فلم سازوں ، تخلیق کاروں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور انداز میں مظاہرہ کیا ، فلم فیسٹیول میں مختلف اصناف میں مختصر دورانیہ کی 37 فلمیں پیش کی گئیں جن میں دستاویزی اور اینیمیشن کیٹگری پہلی مرتبہ پیش کی گئی تھیں۔ فلموںکی نمائش ، ورکشاپش، پینل مباحثہ نے سیکھنے، اشتراک اور تخلیقی تبادلہ کا ایک متحرک موقع فراہم کیا۔فلم فیسٹیول کی افتتاحی تقریب 12ستمبر کو منعقد ہوئی جس میں ”سوشل میڈیا فلم میکرز:سیلوراسکرین سے ڈیجیٹل سکرینز تک“ کے موضوع پر فکری پینل مباحثہ ہوا جس میں علی گل پیر، اسد الحق، پتانگیر اور آذان سمیع خان نے سیر حاصل گفتگو کی جبکہ مباحثہ کی نظامت کے فرائض فیبی ہارون نے ادا کیے۔فیسٹیول کے دوسرے دن فلموں کی نمائش کی گئی اور سٹمیولس پروڈکشنز کی طرف سے ” اے آئی : فلم اور ایڈوائزرنگ میں نئے امکانات“ کے موضوع پر مباحثہ منعقد کیا گیا۔فیسٹیول کا اختتام 14ستمبر کو ہوا جس میں مختلف فلموںکی نمائش کے علاوہ ”کیمرے کی نظر سے تعلیم: تدریس میں فلموں کا انضمام“ کے موضوع پر پینل مباحثہ ہوا جس میں عطیہ زیدی، سیفی، حسن، گل زیب شکیل اور فاروق رند نے موضوع پر گفتگو کی۔ ہفتے کے اختتام پر چھ جامع ورکشاپس بھی منعقد کی گئیں جن کی قیادت مریم علی، ایس او سی فلمز، رواز حماس، اسٹیفن اینڈریو، عدنان سید، رشنا صدیقہ عابدی، خرم خان اور انید فریدی نے کیں۔ ان ورکشاپس نے شرکا کو فلم سازی کی بدلتی دنیا کے بارے میں عملی مہارتیں اور قیمتی بصیرت فراہم کی۔ فلم فیسٹیول میں بہترین فلم، بہترین اسکرین پلے، بہترین سینماٹوگرافی، بہترین ہدایت کار، بہترین ایڈیٹنگ، بہترین ساﺅنڈ ڈیزائن، بہترین پروڈکشن ڈیزائن، بہترین انیمیشن اور بہترین ڈاکومینٹری پر ایوارڈز اور نقد انعامات سے نوازا گیا۔ یوتھ فلم اور آئیڈیا ٹو اسیکرین بوٹ کیمپ کیٹیگریوں کے تحت اضافی ایوارڈز بھی پیش کیے گئے۔ آئی وی ایس میں ہیڈ آف کمیونیکیشن ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ الفیہ ہالائی نے کہا : آئی وی ایس فلم فیسٹیول فلموں کی نمائش کے علاوہ ایک ایسا پلیٹ فارم بھی ہے جہاں نوجوان فلم سازوں کواپنی صلاحیتوںکے اظہار کیلئے اعتمادملتا ہے ، انڈسٹری کے ماہرین سے جڑتے ہیں اور کہانی کار کے طور پر اپنی آواز دریافت کرتے ہیں۔ ہر سال یہ فیسٹیول تعلیم اور عملی تجربے کے درمیان ایک مضبوط پل کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے اور تبدیلی کے محرک بننے والے سینما کے کردار کو دوبارہ تقویت بخشتا ہے۔ آئی وی ایس فلم فیسٹیول نے ابھرتے ہوئے فلم سازوں کو صنعتی رہنماﺅں، ماہرین تعلیم اور ناظرین کے ساتھ جڑنے کیلئے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت سے اپنے کردار کو مضبوط بنایا ہے۔