عدنان سمیع سے طلاق کے بعد زیبا بختیار نے شادی کیوں نہیں کی؟ اداکارہ نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
80 اور 90 کی دہائی میں اپنے جادوئی حسن اور نیچرل اداکاری کے باعث شہرت حاصل کرنے والی زیبا بختیار کی ازدواجی زندگی ہمیشہ مسائل کا شکار رہی۔
1988 میں ڈرامہ سریل انار کلی سے اپنی پہچان بنانے والی زیبا بختیار نے بالی ووڈ میں بھی کامیابیاں سمیٹیں۔
بھارت میں 1995 کو ریلیز ہونے والی فلم حنا نے زیبا بختیار کو معروف ہیروئنوں کی فہرست میں لاکھڑا کیا تھا۔
اس فلم میں زیبا بختیار نے رشی کپور کے مدمقابل کام کیا تھا۔ اداکاری کے ساتھ ساتھ اس فلم کی کہانی اور نغموں نے بھی دھوم مچا دی تھی۔
زیبا بختیار کی پہلی شادی 1985 میں ہوئی اور صرف ایک سال کے اندر طلاق ہوگئی تھی۔
بعد ازاں زیبا بختیار نے 1989 میں بھارتی اداکار اور ڈانسر جاوید جعفری کے ساتھ شادی کی اور بدقسمتی سے یہ شادی بھی ایک سال ہی چل سکی۔
بالی ووڈ میں فلم کی کامیابی لیکن ناکام شادی کے بعد زیبا بختیار پاکستان آگئیں اور 1993 میں گلوکار عدنان سمیع کے ساتھ شادی کی۔
زیبا بختیار نے سید نور کی 1995 میں ریلیز ہونے والی فلم ’سرگم‘ میں کام کیا۔ اس فلم میں عدنان سمیع ان کے مدمقابل تھے۔
فلم سرگرم تو کامیاب ہوگئی لیکن زیبا بختیار کی ازدواجی زندگی میں پھر مسائل پیدا ہوگئے اور شادی کے 3 سال بعد عدنان سمیع کے ساتھ بھی طلاق ہوگئی۔
عدنان سمیع سے زیبا بختیار کا ایک بیٹا اذان بھی ہے جس کی پرورش زیبا بختیار نے ہی کی۔
حال میں ہی ایک انٹرویو میں زیبا بختیار نے شادی کے ان تلخ اور ناکام تجربات پر کھل کر بات کی۔
عدنان سمیع کے بعد شادی نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے زیبا بختیار نے کہا کہ میری ساری توجہ بیٹے اذان پر مرکوز تھی۔ میں کسی اور امتحان کا رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔
زیبا بختیار نے مزید کہا کہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے کوئی ایسا شخص بھی نہیں ملا جو میرے اور میرے بیٹے کے لیے بہترین ثابت ہوتا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زیبا بختیار نے کے ساتھ
پڑھیں:
معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔
کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟
کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔
کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟
اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟
یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !
بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔
قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔
تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔
افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔
نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟
یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں