دنیا کا مہنگا ترین وولف ڈاگ، قیمت 50 کروڑ روپے
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
بھارتی شہر بنگلورو کے شہری نے دنیا کے مہنگے ترین وولف ڈاگ کو 50 کروڑ روپے میں خرید لیا۔
انڈین ڈاگ بریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر ایس ستیش نے دنیا کے نایاب ترین وولف ڈاگ (Wolfdog) کو 50 کروڑ بھارتی روپے (تقریباً 5.7 ملین امریکی ڈالرز) میں خرید کر دنیا کو حیران کر دیا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ نایاب کتا کادا بوم اوکامی (Cadaboms Okami) ہے، جو بھیڑیے اور کاکیشین شیفرڈ کا امتزاج ہے اور اپنی نسل کا پہلا کتا تصور کیا جا رہا ہے۔
یہ ناصرف ایک انتہائی نایاب نسل ہے بلکہ اسے دنیا کے مہنگے ترین کتوں میں بھی شمار کیا جا رہا ہے۔
اس وولف ڈاگ کی غیر معمولی خصوصیات اور نایاب نسل ہونے کی وجہ سے اس کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔
کادا بوم اوکامی کو امریکا میں پیدا کیا گیا تھا اور جب یہ کتا صرف 8 ماہ کا تھا تو اس کا وزن 5 کلو گرام سے زیادہ تھا، اس کی خوراک بھی عام کتوں سے مختلف ہے اور یہ روزانہ 3 کلو گرام کچا گوشت کھاتا ہے۔
ایس ستیش نے میڈیا کو بتایا کہ میں ہمیشہ منفرد اور مہنگے کتوں کا شوقین رہا ہوں، میں نے 50 کروڑ روپے اس کتے پر خرچ کیے کیونکہ مجھے نایاب نسل کے کتوں کو متعارف کروانے کا شوق ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ ان کتوں کو دیکھنے کے لیے بے حد متجسس ہوتے ہیں اور مجھے ان سے اچھا خاصا منافع بھی حاصل ہوتا ہے۔
ایس ستیش نے کہا کہ میرا کتا اور میں کسی فلمی ستارے سے زیادہ توجہ حاصل کرتے ہیں، جب میں اسے عوام میں لے کر جاتا ہوں تو لوگ دیوانہ وار اس کے ساتھ تصاویر کھنچواتے ہیں، میں اپنے کتوں کی نمائش سے 30 منٹ میں تقریباً 2,800 ڈالرز (تقریباً 2.
ایس ستیش کے مہنگے اور نایاب کتوں کے لیے 7 ایکڑ پر مشتمل ایک خصوصی فارم موجود ہے، جہاں ہر کتے کے لیے 20x 20 فٹ کا الگ کمرہ مختص کیا گیا ہے، ان کتوں کی دیکھ بھال کے لیے 6 ملازمین ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ایس ستیش نے اتنی بڑی رقم کسی کتے پر خرچ کی ہو، گزشتہ سال انہوں نے ایک نایاب چاؤ چاؤ (Chow Chow) نسل کے کتے کو 3.25 ملین ڈالرز (تقریباً 27 کروڑ بھارتی روپے) میں خریدا تھا، جو دنیا کے مہنگے ترین کتوں میں سے ایک تھا۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بھارتی روپے ایس ستیش نے کے مہنگے دنیا کے کے لیے
پڑھیں:
قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والی 10 پاور کمپنیاں کون سی ہیں؟
آڈیٹر جنرل آف پاکستان (AGP) نے انکشاف کیا ہے کہ مالی سال 2023-24 کے دوران ملک کی 10 بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی ناقص کارکردگی کے باعث قومی خزانے کو 276 ارب 81 کروڑ روپے کا بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں:پاور ڈویژن اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا ہر ملازم ماہانہ کتنی مفت بجلی حاصل کررہا ہے؟
میڈیا رپورٹ کے مطابق ان کمپنیوں کی جانب سے ترسیل و تقسیم کے نقصانات کم کرنے میں ناکامی کو نقصان کی بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے۔
پشاور، لاہور اور کوئٹہ کی بجلی کمپنیوں کو نقصان میں سب سے بڑا کردار ادا کرنے والے ادارے قرار دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) نے سب سے زیادہ نقصان کیا، جس کی مالیت 97 ارب 17 کروڑ روپے رہی۔
لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) نے نیپرا کے مقرر کردہ ہدف سے 47 ارب 63 کروڑ روپے زیادہ نقصان کیا، جب کہ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) کا نقصان 36 ارب 75 کروڑ روپے رہا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بجلی کے بلوں کی ناقص وصولی کی وجہ سے گردشی قرضے میں 235 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں:سولر نیٹ میٹرنگ کی نئی پالیسی، پاور ڈویژن اور سولر صارفین کا اس پر کیا مؤقف ہے؟
صارفین سے صرف 3,885 ارب روپے وصول کیے جا سکے، جب کہ وصولی کا ہدف 4,081 ارب روپے مقرر کیا گیا تھا۔
ترسیل و تقسیم کے نقصانات میں 6.54 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا، جو بڑھ کر 18.31 فیصد تک پہنچ گئے، جب کہ نیپرا کا ہدف 11.77 فیصد تھا۔
حکومت کی جانب سے 163 ارب روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود کوئی واضح بہتری سامنے نہ آ سکی۔
دیگر کمپنیوں میں سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) نے 29 ارب روپے، حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) نے 23 ارب 18 کروڑ روپے، اور ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) نے 22 ارب 66 کروڑ روپے کا نقصان ریکارڈ کیا۔
گوجرانوالہ میں نقصان 9 ارب 22 کروڑ روپے، اسلام آباد میں 5 ارب 87 کروڑ روپے اور فیصل آباد میں 5 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاور کمپنیاں پیسکو حیسکو سیپکو قومی خزانہ لیسکو میپکو