بھارت کی سب سے مہنگی شادی، 17 کروڑ کی ساڑھی، 90 کروڑ کے زیورات، 500 کروڑ روپے کا بجٹ
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
آج کل بھارت کی سب سے مہنگی شادی کے چرچے ہیں جس میں 17 کروڑ روپے کی ساڑھی، 90 کروڑ روپے کے زیورات سمیت دیگر اخراجات کے لیے 500 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا لیکن اس کے میزبان مکیش امبانی نہیں تھے۔
بھارت میں اگر کسی شادی کی بات کی جائے جس نے سب کو حیران کر دیا ہے تو وہ سابق کرناٹک کے وزیر جناردھن ریڈی کی بیٹی کی شادی تھی، جسے بھارت کی سب سے مہنگی شادی قرار دیا جا رہا ہے۔
16 نومبر 2016ء میں ہوئی یہ شادی 500 کروڑ روپے کے بجٹ سے منعقد کی گئی تھی جس میں 50,000 سے زائد مہمانوں نے شرکت کی، جناردھن ریڈی نے اس یادگار تقریب کو 5 دن تک جاری رکھا۔
مہمانوں کی میزبانی کے لیے بنگلور کے فائیو اسٹار اور تھری اسٹار ہوٹلز میں 1,500 کمرے بک کیے گئے، شادی کا مقام وجے نگر سلطنت کے مندروں کی طرز پر بنایا گیا، جس کے لیے بالی ووڈ کے معروف آرٹ ڈائریکٹرز کی خدمات لی گئیں، کھانے کے ہال کو بیلاری گاؤں کی طرز پر ڈیزائن کیا گیا تاکہ اسے ایک روایتی انداز دیا جا سکے۔
دلہن برہمانی کی دلکشی تقریب میں سب کی توجہ کا مرکز رہی، انہوں نے معروف ڈیزائنر نیتا لُلا کی تیار کردہ سرخ ساڑھی زیب تن کی، جس کی مالیت 17 کروڑ روپے بتائی جاتی ہے، اس ساڑھی پر سونے کے دھاگوں سے کڑھائی کی گئی تھی۔
ان کے زیورات بھی بے حد قیمتی تھے جن کی کل مالیت 90 کروڑ روپے تھی، جبکہ میک اپ پر 30 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
تقریب میں 40 بیل گاڑیاں مہمانوں کو پنڈال تک پہنچانے کے لیے مختص تھیں، 2,000 ٹیکسیاں اور 15 ہیلی کاپٹرز وی آئی پی مہمانوں کے لیے تھے، کھانے میں شاہی پکوان، خصوصی تھالی میں 16 اقسام کی مہنگی مٹھائیاں، جس کی فی پلیٹ لاگت 3,000 روپے تھی۔
یہ شادی جتنی شاندار تھی اتنی ہی تنقید کا شکار بھی ہوئی، جناردھن ریڈی بی جے پی حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں، ان کو 500 کروڑ روپے کی فضول خرچی پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر اس وقت جب بھارت میں نوٹ بندی (Demonetization) کا دور چل رہا تھا۔
سیاسی جماعتوں اور سماجی کارکنوں نے ان بے تحاشہ اخراجات پر سوالات اٹھائے اور ریڈی کی دولت کے ذرائع کی جانچ کا مطالبہ کیا۔
حال ہی میں مکیش امبانی کے بیٹے اننت امبانی کی رادھیکا مرچنٹ سے شادی نے سب کی توجہ حاصل کر لی تھی، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ 600 ملین ڈالرز (تقریباً 5,000 کروڑ روپے) کی لاگت کی ایک نئی ریکارڈ ساز شادی تھی۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔
رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔