وادی کشمیر میں امن قائم ہوگیا اور اب نکسلیوں کا خاتمہ بھی قریب ہے، امت شاہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
وزیر داخلہ نے کہا کہ کشمیر میں دہشتگردی، شمال مشرق میں شورش اور بائیں بازو کی انتہا پسندی وہ تین لعنتیں ہیں جو ملک کی ترقی کو روک رہی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں وزارت داخلہ کے کام کرنے کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی حکومت کی پالیسی دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے دفعہ 370 کو ہٹا کر مودی حکومت نے آئین بنانے والوں کا "ایک آئین، ایک جھنڈا" کا خواب پورا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں سنیما ہال اب شام کو بھی کھلتے ہیں، جی ٹوئنٹی کا اجلاس ہوا، محرم کا جلوس بھی نکالا گیا۔ امت شاہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی، شمال مشرق میں شورش اور بائیں بازو کی انتہا پسندی وہ تین لعنتیں ہیں جو ملک کی ترقی کو روک رہی ہیں، ان وجوہات کی وجہ سے 92,000 افراد ہلاک ہوئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مودی حکومت کے دوران جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات میں اموات میں 70 فیصد کمی آئی ہے، دہشت گردی کے واقعات میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں کہا کہ جموں و کشمیر میں 2019ء اور 2024ء کے دوران 40,000 سرکاری نوکریاں دی گئیں۔ ایک پرکشش صنعتی پالیسی کی وجہ سے جموں و کشمیر میں 12,000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہوئی اور 1.
بھارتی وزیر داخلہ نے کہا کہ ہمارے آئین میں امن و امان کی ذمہ داری ریاستوں پر ہے۔ بارڈر سیکیورٹی اور اندرونی سیکیورٹی وزارت داخلہ کے تحت آتی ہے، یہ ایک درست فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی تبدیلی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں امن و امان ریاستوں کی ذمہ داری ہے، 76 سال کے بعد اب صورتحال ایسی ہے کہ کئی قسم کے جرائم اب ریاستی حدود تک محدود نہیں رہے، وہ بین ریاستی اور ملٹی اسٹیٹ بھی ہیں جیسے کہ منشیات، سائبر کرائم، منظم جرائم کے گروہ اور حوالات۔ یہ تمام جرائم صرف ایک ریاست میں نہیں ہوتے، ملک میں بہت سے جرائم باہر سے بھی ہوتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ مودی حکومت امت شاہ نے
پڑھیں:
26ویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سود کے مکمل خاتمے، معاشرتی اقدار کی روشنی میں قانون سازی، اور ریاستی ناکامیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اگر اپنے وعدوں پر قائم نہ رہی تو عدالت جانا پڑے گا، اور پھر حکومت کے لیے حالات آسان نہیں ہوں گے۔
نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے مطابق اسلام آباد میں ایک اہم نشست سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے انکشاف کیا کہ انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار ہونے پر مجبور کیا، جس کے بعد ترمیم 22 نکات تک محدود ہوئی، اور اس پر بھی ان کی طرف سے مزید اصلاحات تجویز کی گئیں۔
نیوزی لینڈ نے ایف آئی ایچ پروہاکی لیگ سے دستبرداری کا باضابطہ اعلان کردیا
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 تک سود کے خاتمے کا حتمی فیصلہ دے دیا ہے، اور اب آئینی ترمیم کے بعد یہ باقاعدہ دستور کا حصہ بن چکا ہے کہ یکم جنوری 2028 سے سود کا مکمل خاتمہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تو وہ ایک سال کے اندر فیصلہ ہو کر نافذ العمل ہوگا، کیونکہ شرعی عدالت کا فیصلہ اپیل دائر ہوتے ہی معطل ہوجاتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے معاشرتی اقدار کو نظرانداز کر کے بنائے گئے قوانین پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 18 سال سے کم عمر کی شادی پر سزا کا قانون تو بنا دیا گیا، مگر غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے نام پر روایات کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے ری پبلکن اراکین سے خطاب میں ایسے جملے دہرا دیئے جن سے بھارت کی پھر ’’سبکی ‘‘ ہو گئی
انہوں نے سوال اٹھایا: ’کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں نکاح میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں اور زنا کو سہولت دی جا رہی ہے؟‘ ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کرتے وقت ملک کے رواج کو بھی دیکھنا چاہیے تاکہ معاشرتی اقدار پامال نہ ہوں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی صرف سفارشات پیش کی جاتی تھیں، اب ان پر بحث ہوگی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’کون ہے جو جائز نکاح کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے اور بے راہ روی کو راستہ دے؟‘
انہوں نے غیرت کے نام پر قتل کو بھی شدید مذمت کا نشانہ بناتے ہوئے اسے غیرشرعی اور غیرانسانی عمل قرار دیا۔
عمران خان کے بیٹے گرفتار ہوں تو ہی صحیح وارث بنیں گے : رانا ثناء اللہ
افغانستان پر امریکی حملے کے وقت متحدہ مجلس عمل کے کردار کو یاد کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ’ہم نے اس وقت بھی اتحاد امت کے لیے قربانیاں دیں، جیلیں کاٹیں، مگر پاکستان میں دینی مقاصد کے لیے اسلحہ اٹھانے کو ہم نے حرام قرار دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے، مگر بے گھر ہونے والے آج بھی دربدر ہیں، ریاست کہاں ہے؟‘
مولانا فضل الرحمان نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں حکومتی رٹ نہ ہونے پر بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ ’دہشتگرد دن دیہاڑے دندناتے پھرتے ہیں، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘
بابوسر ٹاپ: سیلابی ریلہ 13 سال بعد اکٹھے ہونے والے خاندان کی خوشیاں بہا لے گیا
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ کیسے گئے اور واپس کیوں آئے؟ ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر مت ڈالے۔‘
”ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، مسلح جدوجہد حرام ہے“
مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر واضح کیا کہ وہ آئین پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان میں مسلح جدوجہد کو غیرشرعی اور حرام قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ایک جرأت مندانہ موقف لینے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک کو موجودہ افراتفری سے نکالا جا سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا خاتمہ ابھی بہت دور ہے، اور حکومت کو سنجیدگی سے اپنے وعدوں اور آئینی ذمہ داریوں پر عمل کرنا ہوگا، ورنہ قوم مزید تباہی کی طرف جائے گی۔
اگر عورتیں بھی غیرت کے نام پر قتل شروع کردیں تو ایک بھی مرد نہ بچے؛ ہانیہ عامر
مزید :