جرمنی، فرانس اور برطانیہ کا غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی فوری بحالی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
غزہ میں حالیہ اسرائیلی بمباری اور زمینی افواج کی پیش قدمی کے بعد جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے جنگ بندی معاہدے کی فوری بحالی کا مطالبہ کردیا ہے۔
تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بمباری کا دوبارہ سے آغاز فلسطین کے لوگوں کے لیے دھچکا ہے۔ ہم ان حملوں میں ہونے والی سویلینز ہلاکتوں سے خوفزدہ ہیں اور جنگ بندی معاہدے کی فوری بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شدید بمباری جاری ہے اور اسرائیلی وزیردفاع اسرائیل کاٹز نے کہا تھا کہ اگر حماس یرغمالیوں کی رہائی پر راضی نہیں ہوتی تو ہم غزہ کے ایک حصے پر دوبارہ قبضہ کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ: اسرائیل کی بمباری سے 3 دنوں میں 200 بچوں سمیت 500 سے زائد فلسطینی شہید
جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے اپنے بیان میں کہا کہ دونوں فریقین کے چاہیے کہ وہ جنگ بندی کو مکمل اور مستقل کرنے کے لیے دوبارہ سے مذاکرات کی طرف آئیں۔
تاہم بیان میں حماس پر زور دیا گیا کہ وہ نہ صرف اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کریں بلکہ غزہ پر حکمرانی سے بھی دستبردار ہوجائے اور اسرائیل کے لیے ’خطرہ‘ نہ بنے۔
یہ بھی پڑھیے: ’یہ یرغمالیوں کو سزائے موت سنانے کے مترادف ہے‘،حماس کی اسرائیل کو بڑی دھمکی
اس مشترکہ بیان میں اسرائیل سے مطا؛بہ کیا گیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پیروی کرے اور غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کی اجازت دے۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ منگل کے روز اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بعد سے اب تک 200 بچوں سمیت 500 سے زائد فلسطینی شہید اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل جنگ بندی حماس یرغمالی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل یرغمالی اسرائیل کی کے لیے
پڑھیں:
نئی دلی، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ
اجلاس میں کشمیری رہنماﺅں فاروق عبداللہ، محمد یوسف تاریگامی اور آغا روح اللہ مہدی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کا انعقاد ”فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر“ نے کیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی اور کشمیری سیاسی رہنمائوں، کارکنوں اور سابق بیوروکریٹس نے بھارتی دارالحکومت نئی دلی میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا جس میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کا انعقاد ”فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر“ نے کیا تھا۔ یہ اجلاس بھارتی پارلیمنٹ کے جاری مانسوں اجلاس کے موقع پر منعقد کیا گیا تاکہ ریاستی اور خصوصی حیثیت کی بحالی کے مطالبے کو پارلیمنٹ تک پہنچایا جا سکے۔سابق بھارتی مصالحت کار رادھا کمار نے اجلاس کے دوران کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد لائی جائے۔ اجلاس میں کشمیری رہنماﺅں فاروق عبداللہ، محمد یوسف تاریگامی اور آغا روح اللہ مہدی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔
سابق داخلہ سکریٹری Gopal Pillai سمیت 122 سابق سرکاری افسران کی دستخط شدہ ایک عرضداشت بھی بھارتی ارکان پارلیمنٹ کو پیش کی گئی جس میں ان پر ریاستی حیثیت کی بحالی کیلئے ایوان میں قرارداد لانے پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں کانگریس اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے کچھ ارکان پارلیمنٹ بھی شریک تھے۔ فاروق عبداللہ نے اس موقع پر کہا کہ ہم یہاں بھیک مانگنے کے لیے نہیں آئے ہیں، ریاستی درجہ ہمارا آئینی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2019ء کا فیصلہ غیر قانونی تھا جسے واپس لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی حیثیت کی منسوخی سے قبل جموں و کشمیر کے منتخب نمائندوں کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی۔
آغا روح اللہ مہدی نے کہا کہ جموں و کشمیر کو مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ کشمیر آج بھی درد و تکلیف کا شکار ہے، کشمیریوں کو ان گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے جو انہوں نے کبھی نہیں کیے۔ کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) کے سجاد کرگیلی نے کہا کہ لداخ کو دھوکہ دیا گیا ہے اور حق رائے دہی سے محروم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کو تبدیل کیا جانا چاہیے، ہماری زمین خطرے میں ہے۔