بیجنگ : “چین کے صارفین کے اعتماد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے” – حال ہی میں چین کی صارفی مارکیٹ کی فعال صورتحال کے پیش نظر ، جرمنی کے سب سے بڑے تجارتی بینک ڈوئچے بینک نے یہ تخمینہ لگایا ہے۔ اس بینک کی تازہ ترین سروے رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 52 فیصد جواب دہندگان اخراجات میں اضافہ کرنے کے لئے تیار ہیں ، جو ایک سال میں سب سے بلند شرح ہے۔ اس کی تصدیق چین کے سرکاری اعداد و شمار سے بھی ہوتی ہے: اس سال کے پہلے دو مہینوں میں، چین کی صارفی اشیاء کی کل ریٹیل سیل 8.

3731 ٹریلین یوآن تک پہنچ گئی اور یہ اضافہ توقعات سے زیادہ ہے.ایسا اعتماد کہاں سے آتا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر چین کی معیشت گزشتہ سال سے مستحکم اور بہتر ہوئی ہے اور رہائشیوں کی آمدنی میں اضافہ جاری ہے، جس سے کھپت میں اضافے کے لئے ایک ٹھوس بنیاد فراہم ہوئی ہے۔ دوسری جانب اسے چینی حکومت کی متعدد معاون پالیسیوں سے فائدہ ہوا ہے۔1.4 بلین سے زائد آبادی کے ساتھ، چین دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے. میک کنزی اینڈ کمپنی نے پیش گوئی کی ہے کہ 2030 تک ، چین کے شہری صارفین عالمی کھپت میں 91 فیصد اضافہ کریں گے۔ چین کے 700 شہر عالمی شہری کھپت میں 7 ٹریلین امریکی ڈالر یا 30 فیصد کا حصہ ڈالیں گے۔ کھپت اقتصادی ترقی کے لئے ایک اہم انجن ہے، اور چین کے معاشی ترقی کے ماڈل میں کھپت کے اہم کردار کے ساتھ ، عالمی اقتصادی ترقی لازمی طور پر نئی رفتار حاصل کرے گی.یہی وجہ ہے کہ اس سال کے آغاز سے ہی، بہت سے غیر ملکی اداروں نے چین کی صارفی مارکیٹ کے امکانات میں “اعتماد کا ووٹ” ڈالا ہے. اس وقت چین میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے متعدد بڑے منصوبے نافذ کیے جا چکے ہیں جن میں 33 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے چین کی بڑی صارفی مارکیٹ اب بھی سب سے پرکشش ہے۔

Post Views: 1

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کی سرمایہ کاری صارفی مارکیٹ چین کی صارفی غیر ملکی چین کے کے لئے

پڑھیں:

ملکی تاریخ میں پہلی بار  ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان

اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ “فری انرجی مارکیٹ پالیسی” آئندہ دو ماہ میں حتمی نفاذ کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی، جس کے بعد حکومت کی جانب سے بجلی کی خریداری کا عمل مستقل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔

یہ بات انہوں نے عالمی بینک کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے دوران کہی، جس کی قیادت عالمی بینک کے ریجنل نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان و پاکستان، جناب عثمان ڈیون (Ousmane Dione) کر رہے تھے۔

وزیر توانائی نے بتایا کہ نئے ماڈل CTBCM (Competitive Trading Bilateral Contract Market) کے تحت ملک میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہو سکے گی، جس میں “وِیلنگ چارجز” اور دیگر ضروری میکانزم شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت حکومت کا کردار صرف ریگولیٹری فریم ورک تک محدود کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس منتقلی کا عمل بتدریج اور جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا تاکہ بجلی کے نظام میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔

ملاقات کے دوران سردار اویس لغاری نے عالمی بینک کے وفد کو حکومت کی جاری توانائی اصلاحات، نیٹ میٹرنگ پالیسی، نجکاری اقدامات، ریگولیٹری بہتری اور سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی پالیسی کا جھکاؤ واضح طور پر نجی شعبے کے فروغ اور شفافیت کی جانب ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اس تبدیلی میں بھرپور کردار ادا کریں۔

عالمی بینک کے نائب صدر عثمان ڈیون نے پاکستان کے توانائی شعبے میں جاری اصلاحات کو قابلِ تحسین قرار دیا اور کہا کہ توانائی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد ہے، اسی لیے عالمی بینک اس شعبے میں پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری جاری رکھے گا۔

انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عالمی بینک پاکستان کے لیے ایک پائیدار، قابل اعتماد اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں توانائی نظام کی تشکیل میں بھرپور تعاون فراہم کرے گا۔

آخر میں وفاقی وزیر نے عالمی بینک کے وفد کو توانائی اصلاحات پر مبنی جامع کتابچہ بھی پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ موجودہ شراکت داری مستقبل میں مزید مستحکم ہو گی۔

صارفین کے لیے “فری انرجی مارکیٹ” کے ممکنہ فوائد:
صارفین کو مختلف بجلی فراہم کنندگان میں سے مسابقتی نرخوں پر بجلی خریدنے کی آزادی ہوگی۔
مارکیٹ میں مسابقت بڑھنے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی آنے کا امکان ہے۔

نجی کمپنیاں بہتر سروس فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گی، جس سے کسٹمر سروس، بلنگ کا نظام اور شکایات کے ازالے میں بہتری آئے گی۔

صنعتیں اپنی ضروریات اور استعمال کے مطابق سستا اور مستحکم توانائی معاہدہ کر سکیں گی، جو برآمدات اور پیداواری لاگت پر مثبت اثر ڈالے گا۔

صارفین سولر، ونڈ یا دیگر گرین انرجی ذرائع سے بجلی خریدنے کے آپشنز کو ترجیح دے سکیں گے، جس سے ماحول دوست توانائی کو فروغ ملے گا۔
جن گھریلو یا صنعتی صارفین کے پاس سولر پینل نصب ہوں گے، وہ بجلی فروخت بھی کر سکیں گے، جس سے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔
جب حکومت بجلی خریدنا بند کرے گی، تو اس پر موجود گردشی قرضوں (circular debt) کا دباؤ کم ہوگا، جس کا بالآخر فائدہ صارفین کو مستحکم نظام کی صورت میں ملے گا۔

Post Views: 9

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری، ڈالر کے مقابلے میں 76 پیسے کا اضافہ
  • پاکستان کا سوشل میڈیا کمپنیوں سے ڈیٹا شیئرنگ اور دہشت گردوں کے سوشل میڈیا اکاونٹس ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ
  • ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل تیسرے روز اضافہ
  • ملکی تاریخ میں پہلی بار  ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
  • پاکستان میں ڈیجیٹلائزیشن، سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے: اسحاق ڈار
  • پاکستان میں اصلاحات اور ڈیجیٹلائزیشن سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے: اسحاق ڈار
  • چین کی ہائی نان فری ٹریڈ پورٹ غیرملکی سرمایہ کاری کے لیےایک پرکشش منزل رہی ہے، چینی میڈیا
  • سعودی عرب کا شام میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان
  • سونے کی قیمت میں 3700روپے کا بڑا اضافہ
  • پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں تاریخی اضافہ، چین سرِفہرست