KOLKATA:

مغل بادشاہت ہندوستان کی تاریخ کا انمٹ حوالہ ہے، جس نے خطے میں کئی صدیوں قبل انقلابی اقدامات کیے تاہم ان کی شان و شوکت انگریزوں کے ہاتھوں اس وقت زمین بوس ہوگئی جب بہادر شاہ ظفر تخت پر براجمان تھے اور اب ان کا حوالہ صرف تاریخی طور پر دیا جاتا ہے، ان کے خاندان اور اولاد کے بارے میں دنیا بہت کم جانتی ہے۔

بھارتی میڈیا نے بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی کا کھوج لگایا ہے اور ان کی مدد سے آخری مغل بادشاہ کی اولاد کی حالت زار سے پردہ اٹھایا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 60 سالہ سلطانہ بیگم بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی ہیں اور وہ کسی محل یا بنگلے میں نہیں رہتیں بلکہ مغربی بنگال کے شہر کولکتہ کے مضافات میں حوراہ میں دو کمروں تک محدود ایک چھوٹے سے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔

سلطانہ بیگم بھی عام بھارتی شہریوں کی طرح زندگی گزار رہی ہیں جو مشکل سے اپنی زندگی کا نظام چلا رہے ہوتے ہیں اور بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اپنے آبا و اجدادکی شان و شوکت اور پرتعیش بادشاہانہ زندگی سلطانہ بیگم صرف تاریخ کی کتابوں، فیچرز، ادبی کتابوں اور فلموں میں دیکھ سکتی ہیں لیکن ان تک رسائی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتیں۔

بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی اور ان کا خاندان دو کمروں کے مختصر گھر میں رہتا ہے اور کیچن کی حالت ایسی ہے کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مشترکہ رکھا ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سلطانہ بیگم پڑدادی آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی بہو تھیں، سلطانہ بیگم نے شہزادہ مرزا بیدار بخت سے شادی کی تھی جو 1980 کی دہائی میں انتقال کرگئے، اس کے بعد ان کی زندگی نے ایک نیا رخ لیا اور مشکلات نے انہیں آدبوچا۔

ان کے 6 بچے ہیں اور ماہانہ 6 ہزار بھارتی روپے پنشن ملتی ہے جو اہل خانہ کی کفالت کے لیے ناکافی ہیں، ان کی بیٹیاں بھی مالی طور پر مشکلات کا شکار ہیں اور سلطانہ بیگم کولکتہ میں اپنی غیرشادی شدہ بیٹی مادھو بیگم کے ساتھ رہتی ہیں۔

انڈیا ڈاٹ کام کے مطابق سلطانہ بیگم نے کہا کہ وہ اپنے شاہی خاندن کے خون پر فخر کرتی ہیں لیکن معقول روزگار کے حصول میں مشکلات سے دوچار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ نظام زندگی چلانے کے لیے چائے کی دکان چلانے کی کوشش کی اور خواتین کے کپڑے بنانے کے لیے قسمت آزمائی کی لیکن گھر کی کفالت کے لیے یہ کافی ثابت نہیں ہوا۔

بہادر شاہ ظفر 1837 میں مغل بادشاہ بنے تھے اور اس وقت مگل بادشاہت اپنا عروج دیکھ چکی تھی لیکن اب بھی شان و شوکت باقی تھی مگر زوال کا سفر شروع ہوگیا تھا، اسی اثنا میں انگریزوں کے خلاف 1857 کی جنگ آزادی میں آخری مغل بادشاہ کو سربراہ منتخب کیا گیا۔

آخری مغل بادشاہ جنگ آزادی کے سپاہیوں کا چہرہ تھے لیکن برطانوی سامراج نے اس سے بری طرح کچل دیا اور انہیں میانمار کے شہر یانگون جلاوطن کردیا جہاں وہ 1862 میں انتقال کرگئے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بہادر شاہ ظفر کی آخری مغل بادشاہ سلطانہ بیگم ہیں اور کے لیے

پڑھیں:

راوی کی موجوں کے ساتھ ڈوبتی ایک روایت، لکڑی کی کشتیوں کا آخری کاریگر

لاہور:

دریائے راوی کے کنارے بیٹھا عبدالمجید لکڑی کو کھرچتے ہوئے ماضی کی گونج کو تازہ کرتا ہے، ایک ایسا ماضی جو اب صرف یادوں میں باقی ہے، مون سون کی حالیہ بارشوں نے راوی میں زندگی کی عارضی لہر دوڑائی تو عبدالمجید کا برسوں پرانا ہنر بھی چند ہفتوں کے لیے جاگ اٹھا، پانی آیا تو کشتی سازی کی بھولی بسری گونج بھی لوٹ آئی۔

اسی راوی کنارے 80 سالہ عبدالمجید آج بھی لکڑی کی کشتی بنانے میں مشغول ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ ہنر محض 10 برس کی عمر میں سیکھنا شروع کیا تھا، ان کی بنائی پہلی کشتی گورنمنٹ کالج لاہور کے لیے تھی، جس کی قیمت اس وقت صرف 250 روپے تھی اور آج وہی کشتی اگر بنائی جائے تو اس کی قیمت 8 سے 10 لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے۔

 

عبدالمجید بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب راوی اپنے جوبن پر تھا، اس وقت لاہور میں کئی بوٹس کلب ہوا کرتے تھے، جن کے لیے وہ باقاعدگی سے کشتیاں بناتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بوٹس کلب بند ہوتے گئے اور ان کا کام بھی ماند پڑ گیا۔

انہوں نے کہا کہ اوپر سے بھارت نے دریا کا پانی روک دیا تو راوی کا حسن اور زندگی دونوں مانند پڑ گئے، اب یہ دریا صرف مون سون کے دنوں میں سانس لیتا ہے، باقی سال یہاں لاہور کی سیوریج بہتی ہے۔

عبدالمجید کی آواز میں فخر بھی ہے اور تلخی بھی، وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کئی نامور شخصیات کے لیے کشتیاں بنائی ہیں، ممتاز بھٹو، غلام مصطفیٰ کھر اور وزیراعظم شہباز شریف کے والد میاں محمد شریف ان کے گاہکوں میں شامل رہے اور میاں شریف ان سے خاص محبت رکھتے تھے۔

وقت کی سختی نے صرف روزگار ہی نہیں، ان کی دستکاری کے وسائل کو بھی محدود کر دیا ہے، پہلے دیودار کی لکڑی استعمال ہوتی تھی، مگر اب اس کی قیمت 14 سے 16 ہزار روپے فی فٹ تک پہنچ چکی ہے، اسی لیے وہ اب پائن اور شیشم کی لکڑی استعمال کرتے ہیں جو نسبتاً سستی ہے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ ایک سات سے آٹھ افراد کی گنجائش والی کشتی کی لاگت اب تقریباً آٹھ لاکھ روپے تک جا پہنچی ہے لیکن راوی کے آلودہ پانی میں یہ کشتیاں زیادہ عرصہ نہیں ٹک پاتیں۔

عبدالمجید کے مطابق انہیں یہ کام تین سال بعد ملا ہے، وہ افسردگی سے کہتے ہیں کہ اب وہ یہ ہنر کسی کو کیوں سکھائیں؟ جب خود بے روزگار ہیں تو اور کون یہ فن سیکھنا چاہے گا؟ نہ دریا ویسا رہا، نہ وہ شہر اور نہ وہ خریدار رہے۔

بارشیں ہوئیں، تو دریا میں پانی آیا، آس پاس کے لوگ سیر کے لیے راوی کا رخ کرنے لگے، پرانی اور ناکارہ کشتیاں مرمت کی گئیں، چند دنوں کے لیے سرگرمی لوٹی، رونق واپس آئی لیکن عبدالمجید جانتے ہیں کہ یہ خوشی وقتی ہے اور جب بارشیں تھم جائیں گی، پانی اتر جائے گا تو راوی ایک بار پھر خاموش ہو جائے گا۔

یہ چند ہفتوں کی زندگی شاید عبدالمجید کے ہاتھوں سے بننے والی آخری کشتیاں بھی ہو سکتی ہیں، ان کے ہاتھوں سے نکلنے والی لکڑی کی ہر ضرب، ایک روایت کی آخری دھڑکن جیسی محسوس ہوتی ہے، راوی کے کنارے ایک ہنر، ایک عہد اور ایک کاریگر رفتہ رفتہ رخصت ہو رہے ہیں اور ان کے ساتھ وہ کہانیاں بھی جو کبھی اس دریا کی موجوں میں بہتی تھیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • ریسلنگ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہلک ہوگن اچانک چلے بسے
  • راوی کی موجوں کے ساتھ ڈوبتی ایک روایت، لکڑی کی کشتیوں کا آخری کاریگر
  • بانی نے کہا سلیمان، قاسم میری اولاد ہیں، باپ کیلئے آواز اٹھانا انکا حق ہے، علیمہ خان
  • ملکی تاریخ میں پہلی بار  ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
  • ٹی 20 سیریز، تیسرے میچ میں بنگلہ دیش کا پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
  • پاک فوج کے بہادر سپوت وطن پر قربان، میجر محمد انور کاکڑ شہید ہوگئے
  • صدر ملی یکجہتی کونسل صاحبزادہ ابوالخیر زبیر کا خصوصی انٹرویو
  • یورو 2024 فائنل میں پہنچنے پر انگلینڈ ویمنز فٹبال ٹیم کو بادشاہ چارلس کی مبارکباد
  • ملک کی تاریخ میں پہلی بار روئی کی درآمدات، مقامی پیداوار سے بڑھ گئی
  • اداکارہ حمیرا اصغر کی گمشدگی اور موت میں نیا موڑ