Express News:
2025-04-25@11:37:02 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

غزل
جہاں وہ خوبصورت، رونقِ محفل نہیں ہوتا 
ہمیں جانا ہی پڑتا ہے اگرچہ دل نہیں ہوتا
ذرا آہستگی سے اپنی عرضی پیش فرمائیں
محبت میں دوانہ رونقِ محفل نہیں ہوتا 
وہ آنسو بن کے بہ جاتے ہیں رخساروں کے رستے سے
مری آنکھوں میں جن خوابوں کا مستقبل نہیں ہوتا
اتار آتا ہے مچھواروں کو زندہ ریگِ ساحل پر
سمندر اپنے دشمن سے کبھی غافل نہیں ہوتا
ہمارا رشتہ سچائی کی بنیادوں پہ قائم ہے
وگرنہ جھوٹ کہنا تو کوئی مشکل نہیں ہوتا
ٹھکانہ کر لیا دل میں، بغیرِ اذنِ دربدری  
بھٹک کر بھی وہ میرے ذہن میں داخل نہیں ہوتا
بناتے اس کو اپنے تاج کا ممتاز سا ہیرا
تری پائل میں یہ پتھر اگر شامل نہیں ہوتا
(عاجز کمال رانا ۔ خوشاب)

۔۔۔
غزل
وہ تو مجھ کو ہی نہ، چلنے کے سِوا کچھ آئے 
ورنہ خطرات تو اِس راہ میں کیا کچھ آئے 
یہی بے روح طلب ہے تو غرض کیا اِس سے 
اب نہ کچھ آئے مرے ہاتھ میں یا کچھ آئے 
جانے کیا دکھتا ہے اُس رخ پہ کہ اس دفعہ بھی 
لے کے ہم کچھ گئے، اُس کو دکھا کچھ آئے 
تُو نہ اِس دامنِ خالی کو سمجھ مجبوری 
لینے والے ہوں اگر ہم تو بڑا کچھ آئے 
کچھ تو اِس گلشنِ بے رنگ میں مہکے کوئی پھول 
کسی رت میں تو تجھے چین دلا! کچھ آئے 
(زبیرحمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)

۔۔۔
غزل
یہ مرحلہ بھی تو آخر گزر ہی جانا ہے
ترا خلا بھی کسی روز بھر ہی جانا ہے
نہ اب وہ عمر، نہ آسائشیں، نہ عشق کا روگ
کہ اب تو کام سے بس سیدھا گھر ہی جانا ہے
اے ہم سفر! کبھی تو زندگی کی بات بھی کر
بھلے جیے نہ جیے، تُو نے مر ہی جانا ہے
یہ خامشی، یہ اداسی، یہ دل کی ویرانی 
جو کہتے رہتے ہیں اک روز کر ہی جانا ہے
یہ تیرا غم ہمیں کب تک اداس رکھے گا
کہ آخرش کبھی ہم نے سنور ہی جانا ہے
نہ کوئی وعدۂ بیعت نہ صلح جوئی کوئی
کہ اب کی بار تو مقتل میں سر ہی جانا ہے
وہ شعر حضرتِ غالب کا کیوں نہ ہو اکرام
کسی کے دل پہ مگر بے اثر ہی جانا ہے
(اکرام افضل مٹھیال۔ اٹک)

۔۔۔
غزل
خوف کب ہے مجھے سزاؤں سے
میں تو شرمندہ ہوں خطاؤں سے
شور سے مجھ کو سخت نفرت ہے 
یعنی بیزار ہوں صداؤں سے
دھوپ میں کب ہوئے ہیں بال سفید
میں بھی گزرا ہوں اِبتلاؤں سے
کیا ضرورت تھی پھر دوا کی مجھے
کام  چلتا اگر دعاؤں سے
میں مسافر ہوں ایسے رستے کا
دور ہے جو گھنیری چھاؤں سے
شہر سے تو سہولتیں ملی ہیں
پیار مجھ کو ملا ہے گاؤں سے
میں دِیا ہوں فقَط محبّت کا 
مجھ کو خطرہ نہیں ہواؤں سے
بھوک ہے، خوف ہے، محبت ہے
بچّے لپٹے ہوئے ہیں ماؤں سے
آج کل کاروبار کرتے ہیں 
لُوٹ لیتے تھے جو اداؤں سے
ختم کب ہوں گی خواہشیں کیفی 
جان چھوٹے گی کب بلاؤں سے
(محمود کیفی ۔ سیالکوٹ)

۔۔۔
غزل
کوئی تو حل نکالو اس بلائے ناگہانی کا 
محبت کھا گئی مجھ سے مرا حصہ جوانی کا
وصال و ہجر کے بیچوں کھڑی اس زندگانی کا
نہ جانے ختم کب ہو گا تماشا آگ پانی کا 
میسر خود کو لمحہ بھر جو ہو جاؤں، غنیمت ہے
سمجھ لو دیکھ کر مجھ کو، معانی رائیگانی کا
میں تھا تو مرکزی لیکن مجھے اب ثانوی سمجھو
ہوا کردار میرا اب ضرورت اِس کہانی کا
میں ہرگز حق شراکت کا کسی کو بھی نہ دوں اس میں
اکیلا میں ہی وارث ہوں، غموں کی راجدھانی کا
اسی اک سوچ میں غلطاں کہیں دائم ؔنہ مرجائے 
’اتارے قرض کیسے وہ  محبت کی نشانی کا‘
(ندیم دائم ۔ ہری پور)

۔۔۔
غزل
خراب حال میں سب کو خراب لگتا ہوں
بس ایک تُو ہے جسے میں نواب لگتا ہوں
میں ایک تیر کی صورت کسی نشانے پر 
اگر لگوں تو بڑا بے حساب لگتا ہوں
حروف توڑ کے پھینکا گیا ہے کاغذ پر 
بھلا کہاں سے میں تازہ نصاب لگتا ہوں
میں آئنہ ہوں تمہارے لیے بنایا گیا
تمہارے جیسا ہی بالکل جناب لگتا ہوں
ابھی تو شاخ ہری ہے کہ خشک سالی میں
تمہیں کہو گے کدھر سے گلاب لگتا ہوں
حریص لوگوں سے میری کبھی نہیں بنتی 
سو اس لیے تجھے تھوڑا خراب لگتا ہوں
(عابد حسین ۔ صائم بورے والا)

۔۔۔
غزل
پہلے پہلے مرے اندر کا فسوں ٹوٹے گا
پھر کہیں جا کے یہ اندیشۂ خوں ٹوٹے گا
میں اُسے پیار سے توڑوں گا وگرنہ وہ شخص
یوں نہ ٹوٹے گا کبھی، اور نہ یوں ٹوٹے گا
میری تنہائی تو اُس وقت مکمل ہو گی
جب کہیں سلسلۂ کُن فیکوں ٹوٹے گا
شہرِ عشّاق میں اک تازہ ہوس گھومتی ہے
دیکھنا اب کہ یہاں صبر و سکوں ٹوٹے گا
رفتگاں لوٹ کے آئیں گے اچانک مجھ میں
اور اچانک سے مرا زورِ جنوں ٹوٹے گا 
کوئی بنتا ہی نہ تھا ردِعمل کا باعث
کس نے سوچا تھا کہ ایسے یہ ستوں ٹوٹے گا
(حسن فاروق۔ فتح جنگ ،اٹک)

۔۔۔
غزل
گھٹن ہے اور عجب بے بسی ہوا میں ہے
یقین جان بڑی تشنگی ہوا میں ہے
یہ کون ہو گیا رخصت ملے بغیر ہمیں 
ہے سوگوار نگر، خامشی ہوا میں ہے 
ہر ایک پھول گھٹن کا شکار لگتا ہے
ذرا پتہ تو کرو کیا کمی ہوا میں ہے
تمہارے شہر کے سب لوگ بد مزاج ہوئے
کرخت لہجے ہیں اور بے رخی ہوا میں ہے
فلک سے آنے لگیں قہقہوں کی آوازیں
گمان ہونے لگا زندگی ہوا میں ہے
لکھا ہے نام ترا رات کی ہتھیلی پر
جہاں مہکنے لگا ہے، خوشی ہوا میں ہے
تری غزل میں جو احساس ہے نئے پن کا
یہ اُس کا فیض ہے یا تازگی ہوا میں ہے
یہ لگ رہا ہے مرے آس پاس ہو اب تک
ترے بدن کی مہک آج بھی ہوا میں ہے
(راشد انصر۔ پاک پتن)

.

..
 غزل
نمی آنکھ میں اور ہنسی کا سفر
بڑا ہے کٹھن زندگی کا سفر
کہاں مجھ کو لے جائے اب دیکھیے
مرا یہ سفر بے خودی کا سفر
کہیں تو ملے میرے دل کو قرار
کہیں تو تھمے بے کلی کا سفر
دوبارہ وہ صورت دکھائی نہ دی
کیا بار ہا اس گلی کا سفر
اڑا آسماں کی بلندی میں وہ
کیا جس نے بھی عاجزی کا سفر
میں سمجھا تھا پھولوں کا بستر مگر
تھا کانٹوں سے پر زندگی کا سفر
مری آنکھ کی روشنی لے گیا
مسلسل سفر تیرگی کا سفر
یہاں سانس لینا روا تک نہیں
میاں حبس ہے عاشقی کا سفر 
ہے ممکن میں کھو جاؤں راحل کہیں
کہ در پیش ہے آگہی کا سفر
(علی راحل۔بورے والا)

...
غزل
نہیں اے دل ربا نہ ہو سکے گی 
طویل اتنی سزا نہ ہو سکے گی 
تمہارے جسم سے لپٹی رہے گی 
مری خوشبو جدا نہ ہو سکے گی
تمہارے اور میرے درمیاں اب 
یہ دنیا مبتلا نہ ہو سکے گی 
وفاداری نبھاؤگی یہ ہم سے 
محبّت، بے وفا نہ ہو سکے 
ہمارا قرب ہے حاصل تمہی کو 
بچھڑنے کی خطا نہ ہو سکے گی 
جہاں مرضی نہیں شامل ہو میری 
تمہاری بھی رضا نہ ہو سکے گی   
ابھی تو ابتدا کرنی ہے شوبیؔ 
تمہاری انتہا نہ ہو سکے گی
(ابراہیم شوبی۔ کراچی)

...
غزل
کسی مجبور کی یہ لوگ جب امداد کرتے ہیں 
یہ لوگوں کی جمع پہلے بڑی تعداد کرتے ہیں 
میں جن سے پیار کرتا ہوں میں جن پہ جاں چھڑکتا ہوں 
وہی تو یار سب مل کر مجھے برباد کرتے ہیں 
ہمارا ہاتھ نہ پھیلے کسی مجبور کے آگے 
مرے مالک ترے آگے یہی فریاد کرتے ہیں 
یہ بچے جب جواں ہوں گے بنیں گے آسرا ان کا 
یہی تو سوچ کر ماں باپ خود کو شاد کرتے ہیں 
میں گھر سے دور رہتا ہوں مری ہے نوکری ایسی 
مرے بچے مجھے گھر میں بہت ہی یاد کرتے ہیں 
یہاں کے لوگ کیسے ہیں عجب قانون ہے ان کا 
یہاں جو قتل کرتا ہے اُسے آزاد کرتے ہیں 
(زکریا نوریز۔ پاک پتن)

...
غزل
ہاں سب سے جدا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
خوابوں میں سجا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
ہاں یار مجھے اسکی ضرورت ہے بلا کی 
ہاں سر پہ چھڑا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
جو کچھ بھی ہوا پیار کی خاطر وہ بھلا دو 
یہ کیسی سزا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
دیکھوں نہ زلیخا کی طرح ٹوٹ گیا ہوں 
یوسف کی طرح رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی
 ہاں چاہنے والے تو بہت ہے میرے لیکن 
بس دل میں بسا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
کمبخت ولی ہوگا یا  پہنچا ہوا بندہ 
وہ جس نے بھی پا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
وہ ساتھ نہیں دل کے بہت پاس ہے پھر بھی 
ہاں دل میں یہاں رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
جل جل کے میرے دل میں تو سب راکھ ہوا ہے 
ہاں ایک بچا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
 ارسل ؔجو تیرے واسطے پاگل تھا میری جاں 
اب خاک اڑا رکھی ہے کوہاٹ کی لڑکی 
(ارسلان شیر ۔کابل ریور، نوشہرہ)
 

شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں،  انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہ ہو سکے گی ہی جانا ہے ہوا میں ہے نہیں ہوتا لگتا ہوں کرتے ہیں کچھ ا ئے کا سفر مجھ کو بھی تو

پڑھیں:

اولاد کی تعلیم و تربیت

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: کسی باپ نے اپنی اولاد کو حسن ادب سے بہتر تحفہ انعام میں نہیں دیا۔‘‘ (ترمذی)

اولاد کی تربیت کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتا ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ آگ سے بچانے کی صورت تو صرف یہی ہے کہ انھیں اچھے اخلاق و آداب سکھا کر سچا مسلمان بنایا جائے تاکہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنے بچے کو حسن آداب سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اولاد کا باپ پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کی صحیح تربیت کرے اور اچھا سا نام رکھے۔

ماں کی گود بچے کے لیے پہلی تربیت گاہ ہے‘ اخلاق کی جو تربیت ماں کی گود میں ہو جاتی ہے اسی پر بچے کی شخصیت پروان چڑھتی ہے، اسی تربیت پر کسی بچے کی سیرت کے بننے یا بگڑنے کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی لیے ماں کا یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامی اخلاق کی تربیت دے۔ ماں اور باپ دونوں بچے کے سامنے حسن اخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ ان کی اولاد عمدہ اخلاق کی حامل ہو۔ ان کا یہ فرض ہے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات سے رُوشناس کرائیں۔ انہیں اسلام کے عقائد سکھائیں اور پھر ان پر عمل بھی کرائیں۔ اس لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کی تلقین کرنی چاہیے اور جب وہ دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو سزا دی جائے۔

اسلام میں اولاد کی صحیح تربیت کی بڑی تاکید ہے۔ تربیت اولاد ایک انتہائی اور بنیادی ذمے داری ہے جو والدین پر ناصرف اسلام عاید کرتا ہے بل کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فریضہ ملک و ملت کی طرف سے بھی عاید ہوتا ہے۔ چوں کہ بُری صحبت سے بُرے شہری پیدا ہوتے ہیں جو ملک پر بار ہوتے ہیں، اگر تربیت صحیح اصولوں پر ہو جائے تو یہی بچے اپنے ملک اور ملت کا نام روشن کرنے والے ہوں گے اور قوم کو ان پر فخر ہوگا۔

اولاد کی تربیت ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ حدیث کی رُو سے بچہ اپنے والدین پر کچھ خرچ کرے تو صرف بچے کو ہی نہیں بل کہ والدین کو بھی ثواب ملتا ہے۔ والدین کو اس بات کا ثواب ملے گا کہ بچے کو نیک تربیت دی کہ والدین کی خدمت بجا لا رہا ہے اور یہ کہ والدین نے اسے دولت کمانے کا طریقہ سکھایا اور اسے اس قابل بنایا۔ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے یعنی جاری رہنے والی خیرات ہے۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم: ’’جب چند لوگوں کا درجہ چند دوسرے لوگ بلند دیکھیں گے تو پوچھیں گے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جواب ملے گا تمہاری اولاد نے تمہارے لیے جو استغفار کیا ہے یہ اس کی وجہ سے ہے۔‘‘ (ترمذی)

آنحضور ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی جس انداز سے تربیت و پرورش فرمائی وہ سارے انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہا سب عورتوں سے عقل مند ہیں۔ وہ اپنے طرزِ کلام، حسن خلق، اسلوب گفت گُو، خشوع و خضوع میں آنحضرت ﷺ کے مشابہ ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی پاکیزہ زندگی مسلمانانِ عالم کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ان سب نے حضور اکرم ﷺ کی تربیت سے فیض حاصل کیا۔

اولاد کا والدین پر یہ بھی حق ہے کہ وہ حیثیت کے مطابق اولاد کو مروجہ تعلیم بھی دلائیں اور دینی تعلیم کا بھی بندوبست کریں۔ علم وہ دولت ہے جس سے انسان کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور وہ انسانیت کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے۔

جہاں اس تعلیم سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان انسان بن جاتا ہے وہاں اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ حصول معاش میں آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ اولاد بڑھاپے میں والدین کا سہارا بن جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں بغیر علم کے ملک کے کسی بھی شعبہ میں انسان خدمت نہیں کر سکتا۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے اس بات کی ضرورت بنیادی طور پر ہے کہ اس کے افراد تعلیم یافتہ ہوں اور ان میں ماہرین فن بھی ہوں اور ماہرین تعلیم بھی تاکہ ملک کے منصوبے پورے ہو سکیں۔

بچوں کو تعلیم دلانا گویا کہ ایک ملی فریضہ بھی ہے، جسے ہر ماں باپ کو ادا کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے تعلیم کو بڑی اہمیت دی۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ یہ فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ حصول تعلیم میں تکلیفیں اٹھانے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا درجہ دیا۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اس طلب علم کا مقصد نیک ہو۔

اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ والدین ان سے محبت و شفقت کا اظہار کریں اور ان پر رحم کرنا مسلمان ہونے کی نشانی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا اُسوہ بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ بچوں سے محبت کیا کرتے تھے۔

ایک دن ایک دیہاتی حاضر خدمت ہوا بچوں کو پیار کرتے دیکھ کر پوچھا: کیا آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں؟ ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ تیرے دل سے اﷲ تعالیٰ نے جو رحم نکال لیا ہے پھر تیرے دل میں رکھ دوں۔

اولاد سے محبت ایک فطری بات ہے مگر اس میں اعتدال سے گزر جانا تباہ کن ہے۔ انسان کو یہ محبت راہ ہدایت سے بھی گم راہ کر دیتی ہے۔ اولاد میں انسان کے لیے بڑی آزمائش ہے۔ جو اس میں پورا اترا وہ کام یاب ہُوا۔ یہ اولاد ہی تو ہے جو انسان کو حرام روزی کمانے پر مجبور کرتی ہے۔ پھر انھی کی محبت میں گرفتار ہو کر آدمی فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔‘‘ (التغابن)

            اسلام اموال اور اولاد کی محبت میں اعتدال اور میانہ روی کا راستہ تجویز کرتا ہے۔ اس کے برعکس عمل سے انسان کو سراسر گھاٹا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز حرام روزی مہیا کرنے والے آدمی کے ساتھ سب سے پہلے اس کے اہل و عیال جھگڑا کریں گے اور گناہوں کی تمام تر ذمے داری اس پر ڈال دیں گے۔

والدین کا یہ فرض ہے کہ اپنے تمام بچوں سے یک ساں اور عدل و انصاف والا سلوک کریں۔ اسلام میں لڑکے اور لڑکی یا چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں، سب کے حقوق یک ساں ہیں، اسلام نے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے مقابلے میں ترجیحی سلوک کو روا نہیں رکھا۔ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے لڑکیوں کو وراثت میں حق دلایا۔ اپنی اولاد میں کسی ایک کو کوئی چیز دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا جائز نہیں، اسے ظلم قرار دیا گیا کیوں کہ یہ انصاف کے خلاف ہے۔

ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا اور حضور ﷺ سے آکر عرض کیا: آپ ﷺ اس کے گواہ رہیے۔

آپ ﷺ نے پوچھا: کیا دوسرے بچوں کو بھی ایک غلام دیا ہے؟

اس نے عرض کیا: نہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اس ظلم کا گواہ نہیں بننا چاہتا۔‘‘

اولاد کے درمیان ناانصافی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہن بھائیوں میں عداوت اور دشمنی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں، جس سے گھر کا سکون ختم ہو جاتا ہے اور وہ بچہ جس سے ناروا سلوک کیا گیا ہے والدین سے نفرت کرنے لگے گا۔ یہ بات اس کی اور والدین کی زندگی پر بُری طرح اثر انداز ہو گی۔ لہٰذا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے اولاد کی تربیت عمدہ خطوط میں کرنا والدین کا ایک اہم فریضہ ہے۔

اﷲ رب العزت ہمیں دین اسلام کے مطابق بہترین طرزِ عمل اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
  • اولاد کی تعلیم و تربیت
  • لاہور: بندوق کی نوک پر نوجوان لڑکی سے جنسی زیادتی، ویڈیوز بناکر بلیک میل کرنے والا رشتے دار گرفتار
  • شادی سے پہلے لڑکی سے اسکی تنخواہ پوچھنے والا مرد، مرد نہیں ہوتا، خلیل الرحمان قمر
  • فیصل آباد میں گھریلو ملازمہ سے اجتماعی زیادتی، متاثرہ لڑکی حاملہ ہوگئی
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • کوہ قاف میں چند روز
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • تین سنہرے اصول