Daily Mumtaz:
2025-09-19@07:52:17 GMT

بوآو ایشیائی فورم: ہم جو سمندر کو اکٹھے دیکھ رہے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

بوآو ایشیائی فورم: ہم جو سمندر کو اکٹھے دیکھ رہے ہیں

بیجنگ :رومانوی چیز سمندر نہیں، بلکہ ہم ہیں جو سمندر کو اکٹھے دیکھ رہے ہیں”، یہ چینی ادب کے نوجوانوں کا سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر کہا جانے والا رومانوی جملہ ہے۔ ہر سال بہار کے موسم میں، چین کے ہائنان صوبے کا چھوٹا سا قصبہ بوآو عالمی سیاسی و تجارتی اشرافیہ کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ 2001 میں قائم ہونے کے بعد سے، بوآو ایشیائی فورم ایشیا کے سب سے بااثر اعلیٰ سطحی مکالمے کے پلیٹ فارمز میں سے ایک کے طور پر ابھرا ہے، اور اسے بین الاقوامی نقشے پر ایشیا کی آواز کے “انکیوبیٹر” کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ نرم سمندری ہواؤں کے درمیان، ایشیائی لوگ ایشیا کے ماضی ، آج اور کل کے بارے میں بات کرتے ہیں، مشترکہ ترقی اور ثمرات کے اشتراک کے امکانات پر غور کرتے ہیں۔

یہ منظر شاید مزکورہ رومانوی جملے کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ عالمگیریت کے زوال اور جغرافیائی تنازعات میں اضافے کے موجودہ دور میں، ایشیاء کو اپنی آواز کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ایشیا عالمی اقتصادی ترقی کا 60فیصد حصہ ڈالتا ہے، لیکن اس کا عالمی حکمرانی کے نظام میں اثر و رسوخ اس کے متناسب نہیں۔ بوآو ایشیائی فورم کا اہم مقصد اسی خلاء کو پر کرنا ہے۔ علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدے (RCEP) کی بات چیت کو آگے بڑھانے سے لے کر ڈیجیٹل کرنسی کے تعاون پر تبادلہ خیال تک، بوآو فورم ایشیائی ممالک کے موقف کو ہم آہنگ کرنے اور مشترکہ اجماع کو پروان چڑھانے کا اہم مرکز بن چکا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر، اس فورم کا “ایشیائی نقطہ نظر ” زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی قواعد کو نئی شکل دے رہا ہے۔ مثال کے طور پر، 2023 کے فورم میں “کاربن نیوٹرلٹی” کے موضوع پر توجہ مرکوز کی گئی، جہاں متعدد ممالک کے نمائندوں نے “گرین ٹرانسفارمیشن کے لیے ایشیاء کے 9 اقدامات” پیش کیے۔ مغربی معیارات کو غیر فعال طور پر قبول کرنے سے انکار اور “قواعد کی خود مختاری” کی یہ کوشش، بوآو ایشیائی فورم کو ڈیوس جیسے مغربی فورمز سے ممتاز کرتی ہے۔ فورم کے اثر و رسوخ میں اضافے کے ساتھ، مغرب سے شکوک و شبہات کی آوازیں بھی قدرتی طور پر سنائی دینے لگی ہیں: فورم صرف ایک “باتوں کا کلب” ہے، یہ “چین کے زیر تسلط” ہے، اور ایشیاء کی متنوع آوازوں کی نمائندگی کرنے سے قاصر ہے؛ یہ “ریزورٹ میں قائم گفتگو کا مرکز” صرف “شاہانہ ماحول کے بدلے سفارتی حمایت حاصل کرنے” کی کوشش ہے، اور چین کے “جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانے” کا ایک ذریعہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ واضح ہے کہ یہ نقطہ نظر اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ بوآو ایشیائی فورم کا مقصد ہی ایک “غیر سرکاری، غیر منافع بخش” پلیٹ فارم کے طور پر کام کرنا ہے، جہاں مکالمے کو فروغ دینا مرکزی اہمیت رکھتا ہے نہ کہ فیصلے مسلط کرنا۔

جیسا کہ فورم کے سابق سیکرٹری جنرل لی باو ڈونگ نے کہا کہ بوآو ایشیائی فورم ایک غیر سرکاری تنظیم کے طور پر کھلے پن اور رواداری کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے، جہاں خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے اور مشترکہ چیلنجز پر بات چیت کی جاتی ہے۔ یہی باہمی تعاون اور مشترکہ جدوجہد کی روح بوآو ایشیائی فورم کی منفرد ثقافت ہے۔ بلاشبہ، بوآو ایشیائی فورم نہ تو “پرتعیش سفارت کاری” کا میدان ہے اور نہ ہی چین کے لیے ایشیائی رہنماؤں کو راغب کرنے کا “شاہانہ ریزورٹ”۔ جیسا کہ سنگاپور کے اسکالر کشور محبوبانی نے کہا، “آرام دہ ماحول میں، عہدیداروں کے لیے تعاون پر بات کرنا آسان ہوتا ہے۔” جب لوگ سنجیدہ مذاکرات کی میز سے نکل کر ناریل کے درختوں اور ریتیلے ساحل پر آتے ہیں، تو سخت خیالات کی دیواریں پہلے گرتی ہیں۔ اسی نرم اور مسلسل مکالمے میں، اسی “ایشیائی ہم آہنگ فضا” میں، ایشیائی ممالک نے RCEP اور گرین فنانس کو آگے بڑھایا ہے، اور کاربن نیوٹرلٹی کے دور کے لیے ایشیائی حل پیش کیے ہیں۔ بوآو کی کہانی صرف ایک چھوٹے ماہی گیر گاؤں کے عروج کی نہیں، بلکہ 21ویں صدی کے بین الاقوامی تعلقات کی ایک “صدی کی داستان” ہے: مکالمہ اور تعاون ہمیشہ تصادم سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔

بوآو نے دنیا کو یہ ثابت کیا ہے کہ ایشیا کا مستقبل کسی اور کے لکھے ہوئے اسکرپٹ پر منحصر نہیں۔ یہاں کوئی “شاہانہ سفارت کاری” نہیں، صرف کھلاپن اور اختراعی تعاون ہے، اور یہی وہ بنیادی طاقت ہے جو ایشیاء کو عالمی تبدیلیوں میں اپنی حیثیت مستحکم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جیسا کہ چینی نائب وزیراعظم ڈنگ شیوئی شیانگ نے 27 تاریخ کی صبح بوآو ایشیائی فورم 2025 کے سالانہ اجلاس کے افتتاحی تقریب میں اپنے کلیدی خطاب میں اشارہ کیا کہ اس سال چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے ایشیائی ہم نصیب معاشرے کے تصور کی پیشکش کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ تمام فریقوں کی مشترکہ کوششوں سے ایشیائی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر میں شاندار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، جو دنیا کی مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔

فی الحال، دنیا میں غیر مستحکم اور غیر یقینی عوامل نمایاں طور پر بڑھ گئے ہیں۔ ہمیں متحد ہو کر، ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنا چاہیے، انسانی ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینا چاہیے، عالمگیر چیلنجز کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنا چاہیے، ایشیائی گھر کی مشترکہ تعمیر کرنی چاہیے اور ایشیا اور دنیا کے لیے ایک روشن تر مستقبل تخلیق کرنا چاہیے۔ جب ایشیاء کے نمائندے سال بسال یہاں جمع ہوتے ہیں، تو وہ نہ صرف علاقائی تعاون کی داستان لکھتے ہیں، بلکہ تہذیبوں کے باہمی تبادلے کی نظم بھی تخلیق کرتے ہیں۔ یہاں، بانس کے جنگلوں میں ہونے والی ملاقاتیں گول میز مذاکرات کی جگہ لے لیتی ہیں، اور اجماع سمندر کی لہروں کی طرح خود بخود ابھرتا ہے۔ شاید یہی وہ پیغام ہے جو ایشیا کا بواو دنیا کو دینا چاہتا ہے: حقیقی تبدیلی کی قوت، اکثر نرم اور مسلسل مکالمے سے جنم لیتی ہے۔ و عریض صرف سمندر ہی نہیں، بلکہ ہمارے دل بھی ہیں جو سمندر کو اکٹھے دیکھ رہے ہیں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بوا و ایشیائی فورم کے طور پر کرتے ہیں کو فروغ چین کے کے لیے

پڑھیں:

عرب اسلامی سربراہی اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ

دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں تمام ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے اقدامات کو جاری رکھنے سے روکنے کے لیے تمام ممکن قانونی اور موثر اقدامات اٹھائیں، جن میں سفارتی اور اقتصادی تعلقات پر نظرثانی کرنا اور اس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنا شامل ہے۔

اس موقعے پر مسلم ممالک کے سربراہان نے کہا ہے کہ اسرائیل نے تمام ریڈلائنز عبور کر لی ہیں، اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی توسیعی منصوبوں کو روکنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی جائے، انسانیت کے خلاف جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لانا ہوگا، دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس انکوائری کمیشن نے غزہ میں اسرائیلی حملوں کو نسل کشی قرار دے دیا، جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک بار پھر دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل حماس کے رہنماؤں پر حملے جاری رکھے گا چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔

 دوحہ میں خلیج تعاون کونسل کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا، جس میں مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال، خصوصاً اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک مربوط اور اجتماعی موقف اختیار کرنے پر غور کیا گیا۔ خلیج تعاون کونسل کی سپریم کونسل نے اس اجلاس کے دوران اپنی دفاعی کونسل کو واضح ہدایات جاری کیں کہ مشترکہ دفاعی نظام اور خطے کی مزاحمتی صلاحیتوں کو فعال کرنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

اس موقعے پر کہا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے قطر کو نشانہ بنانا نہ صرف خود قطر کی سلامتی کے لیے بلکہ پوری خلیجی اور عرب دنیا کے امن و استحکام کے لیے ایک براہ راست خطرہ ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی محض فریقین کے مابین تنازعہ نہیں رہا، بلکہ اب یہ عالمی طاقتوں کی رسہ کشی، مفادات کی جنگ اور مذہبی، تہذیبی اور سیاسی اثرورسوخ کے پھیلاؤ کا اکھاڑہ بنتا جا رہا ہے۔

دوحہ میں منعقد ہونے والا ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا، جس میں مسلم دنیا کے سربراہان مملکت نے یک زبان ہو کر اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے تمام بین الاقوامی، انسانی اور اخلاقی حدوں کو پار کرنے کے مترادف قرار دیا۔ شرکائے اجلاس نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل نے جس انداز سے غزہ پر حملے کیے، اسپتالوں، اسکولوں، رہائشی علاقوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنایا، وہ صرف جنگی جرائم نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف سنگین مظالم ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں مسلم دنیا کے اتحاد، سنجیدگی اور عملی اقدامات کا حقیقی امتحان شروع ہوتا ہے۔

امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نہایت مدلل اور دوٹوک انداز میں اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کا نظریہ دراصل مشرق وسطیٰ میں مستقل عدم استحکام، تشدد اور کشیدگی کا ایندھن ہے۔ ان کا کہنا بالکل درست ہے کہ اسرائیل کی موجودہ جارحانہ پالیسیاں کسی محدود فوجی مقصد کے لیے نہیں، بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنے کے لیے ترتیب دی گئی ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد نہ صرف غزہ میں جاری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہے بلکہ ہر اس کوشش کو ناکام بنانا ہے جو فلسطینی عوام کے جائز اور تاریخی حقوق کے حصول کی طرف جاتی ہو۔

وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران عالمی برادری، خصوصاً اقوام متحدہ کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ انھوں نے تجویز دی کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کی جائے، تاکہ اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کا عملی جواب دیا جا سکے۔ ان کی جانب سے اسرائیل کے توسیعی منصوبوں کو روکنے کے لیے ایک ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز نہایت بروقت اور قابل عمل ہے۔

پاکستان کی یہ پالیسی کہ وہ فلسطین کے معاملے پر قطر سمیت تمام عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ کھڑا ہے، ایک مضبوط اور باعزت سفارتی موقف کی عکاسی کرتی ہے۔ وزیراعظم نے اس امر پر بھی زور دیا کہ اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت میں انسانیت کے خلاف جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جائے اور عالمی برادری کو اس ظلم کے خلاف اپنی خاموشی ترک کرنی چاہیے، کیونکہ خاموشی مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔

 یہ بات عیاں ہے کہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور بین الاقوامی ادارے ناکام ہو چکے ہیں یا پھر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر مسلم دنیا، خصوصاً خلیج کے دولت مند اور عسکری طور پر مستحکم ممالک بھی عملی ردعمل سے گریز کرتے رہے تو اسرائیل مزید جارحیت کر سکتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ صرف ’’ ہمیں افسوس ہے‘‘ یا ’’ ہم سخت مذمت کرتے ہیں‘‘ جیسے روایتی جملوں سے نکل کر ایک مضبوط، مربوط، قانونی اور عملی حکمت عملی اپنائی جائے۔

دوحہ اجلاس کی خاص بات یہ رہی کہ اسلامی ممالک نے مشترکہ موقف اختیار کیا، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم، اس کا امتحان تب ہو گا جب ان بیانات کو عملی اقدامات میں بدلا جائے گا۔ عرب لیگ، او آئی سی اور جی سی سی جیسے پلیٹ فارمز کو چاہیے کہ وہ عالمی عدالت انصاف میں اسرائیلی جارحیت پر مقدمات دائر کریں، اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنے والے ممالک پر دباؤ ڈالیں اور فلسطینی عوام کے حق میں ایک عالمی سفارتی مہم کا آغاز کریں۔

 مغربی میڈیا کا بڑا حصہ یا تو اسرائیلی بیانیے کو فروغ دے رہا ہے یا پھر فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ ایسے میں مسلم ممالک کے میڈیا کو چاہیے کہ وہ ایک متبادل بیانیہ تشکیل دے، اور دنیا کے سامنے اسرائیلی مظالم کی حقیقت کو بے نقاب کرے۔

اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس انکوائری کمیشن کی جانب سے غزہ میں اسرائیلی حملوں کو نسل کشی قرار دینا، اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینیوں پر کس قدر خوفناک مظالم ہورہے ہیں۔ کمیشن نے فلسطین کی حالیہ صورتحال، خاص طور پر 2023 اور 2024 کے دوران اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی فوجی کارروائیوں کا تفصیلی جائزہ لیا اور اپنی رپورٹ میں ان حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

اور ان ہولناک جرائم کی براہِ راست ذمے داری اسرائیل کے اعلیٰ ترین حکام، جن میں وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو، اسرائیلی صدر اور سابق وزیرِ دفاع قرار دیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد نہ صرف عسکری اہداف کو نشانہ بنانا تھا بلکہ ان میں ایک مخصوص نسلی اور قومی گروہ، یعنی فلسطینی عوام، کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر تباہ کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی۔ نسل کشی کا الزام ایک بین الاقوامی قانونی اصطلاح ہے جو اس وقت عائد کیا جاتا ہے جب کسی مخصوص گروہ کو جزوی یا مکمل طور پر تباہ کرنے کی نیت سے منظم اقدامات کیے جائیں، اور رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ایسے ہی اقدامات کیے۔ یہ رپورٹ عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت جیسے اداروں کے لیے ایک مضبوط قانونی اور اخلاقی بنیاد فراہم کرتی ہے تاکہ ان جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔

 ادھر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ اسرائیل حماس کے رہنماؤں پر حملے جاری رکھے گا، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر ملک کو اپنی سرحدوں سے باہر بھی اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور اسرائیل اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس کے خلاف کارروائی ضروری ہے کیونکہ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے، تاہم انھوں نے اسرائیل کو محتاط رہنے کا مشورہ بھی دیا ۔ ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنی پالیسی میں سخت مؤقف اپنائے ہوئے ہے جب کہ امریکا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان بیانات سے کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے، خصوصاً ان ممالک میں جہاں حماس کے رہنما موجود ہو سکتے ہیں، کیونکہ اسرائیلی حملوں کو وہاں خود مختاری کی خلاف ورزی سمجھا جا سکتا ہے۔

اب وقت ہے کہ مسلمان حکمران، علماء، دانشور، صحافی، اور عوام سب مل کر ایک واضح اور مؤثر پیغام دیں کہ ظلم کے خلاف ہماری خاموشی ختم ہو چکی ہے۔ فلسطینی عوام تنہا نہیں، ان کے ساتھ پوری امت مسلمہ کھڑی ہے۔ اسرائیل کو نہ صرف عالمی قوانین کے تحت جوابدہ بنایا جائے گا بلکہ مسلم دنیا اپنے تمام وسائل بروئے کار لا کر اس بربریت کے خلاف ڈٹ جائے گی۔ یہی وہ موقع ہے جہاں تاریخ رقم کی جائے گی، یا پھر تاریخ ہمیں فراموش کر دے گی۔

متعلقہ مضامین

  • روس آئندہ برس بین الاقوامی سیکورٹی فورم کی میزبانی کرے گا
  • فلسطین کی آواز ہر فورم پر بلند کریں گے، ترک صدر کا اسرائیلی جارحیت پر اعلان
  • جب پاکستان اور سعودیہ عرب دونوں اکٹھے ہو گئے تو یہ ایک ورلڈ سپرپاور تصور ہوں گے، رانا ثنا اللہ
  • گوگل نے ڈسکور کو مزید دلچسپ بنا دیا، سوشل میڈیا مواد بھی شامل
  • پاکستان بزنس فورم کا حکومت سے زرعی ریلیف پیکیج کی منظوری کا مطالبہ
  • عرب اسلامی سربراہی اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ
  • اسلامی کانفرنس ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘
  • فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا
  • جیوانی : سمندر کے راستے غیرقانونی طور پر ایران جانے کی کوشش پر 13 ملزمان گرفتار
  • پاکستان کا صنعتی شعبہ بہتر ہو رہا ہے، آئی ٹی اور سروسز میں ترقی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کررہے ہیں ، جام کمال خان