ڈھاکا: برطانوی ہائی کمشنر کی امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر شفیق الرحمان سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
برطانوی ہائی کمشنر برائے بنگلادیش سارہ کُک نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے بشنڈھرا میں قائم دفتر میں امیر جماعت ڈاکٹر شفیق الرحمان سے ملاقات کی۔
یہ بھی پڑھیں: جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر عائد پابندی ختم، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا
برطانوی ہائی کمشنر نے ملاقات کے دوران ڈاکٹر شفیق الرحمان کی خیریت دریافت کی اور ان کی جلد صحتیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ ہائی کمیشن کی سیکنڈ سیکریٹری کیٹ وارڈ بھی موجود تھیں۔
ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی، جس میں بنگلادیش کی سیاسی صورتحال، جمہوریت، آئندہ عام انتخابات، انسانی حقوق، اقلیتوں کی حالت اور روہنگیا بحران سمیت مختلف امور پر گفتگو کی گئی، اس موقع پر بنگلہ دیش اور برطانیہ کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر بھی بات چیت ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے حکومتی ’غیر جانبداری‘ پر سوالات اٹھا دیے
ملاقات میں جماعت اسلامی کے سینئر رہنما بھی شریک تھے جن میں نائب امیر اور سابق رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر سید عبداللہ محمد طاہر، معاون سیکریٹری جنرل و سربراہ شعبہ نشر و اشاعت ایڈووکیٹ احسان الحق محبوب زبیر اور خارجہ امور کے مشیر پروفیسر ڈاکٹر محمودالحسن شامل تھے۔
جماعتِ اسلامی کے مرکزی شعبہ نشر و اشاعت کی جانب سے جاری کردہ بیان میں اس ملاقات کی تصدیق کی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news برطانوی ہائی کمشنر بشنڈھرا بنگلہ دیش جماعت اسلامی سارہ کُک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانوی ہائی کمشنر بشنڈھرا بنگلہ دیش جماعت اسلامی برطانوی ہائی کمشنر جماعت اسلامی بنگلہ دیش
پڑھیں:
اسلامی چھاترو شبر کی کامیابی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-4
قاسم جمال
بنگلا دیش میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ اسلامی چھاترو شبر کے مکمل پینل کی کامیابی سے بنگلا دیش کی ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی ہے اور قوم پرستوں اور بھارت نواز قوتوں کا ہمیشہ کے لیے جنازہ نکل گیا ہے۔ بنگلا دیش کی سب سے بڑی یونی ورسٹی ڈھاکا یونیورسٹی میں اسلامی چھاترو شبرکی یہ کامیابی انتھک محنت اور طویل جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کا ثمر ہے۔ نظریہ پاکستان سے وفا کی قیمت انہوں نے کئی دہائیوں تک ادا کی اور یہ بہادر لوگ ایک لمحے کے لیے نہ جھکے نہ دبے، ہر حال میں سر بلند رہے اور اپنی روح اور بدن کی قربانیاں ادا کی۔ ڈھاکا یونی ورسٹی کے انتخابات کے بعد ماہ فروری 2026 میں بنگلا دیش میں قومی انتخابات ہونے والے ہیں، اسلامی چھاترو شبرکی کامیابی سے محسوس کیا جارہا ہے کہ قومی انتخابات میں جماعت اسلامی کی کامیابی یقینی ہوچکی ہے اور بنگلا دیش میں ہوا کا رُخ اب تبدیل ہوچکا ہے۔ جماعت اسلامی کی بنگلا دیش میں کامیابی سے بلاشبہ خطے میں طاقت کا توازن درست کرنے کی بنیاد بنے گا۔ ڈھاکا یونی ورسٹی میں اسلام پسندوں کی فتح ایک انقلاب کی نوید سنا رہا ہے اور ایک نئی صبح کا پیغام دے رہا ہے۔ اس سے کامیابی وکامرانی کے نئے دروازے کھلے ہیں۔ یہ شاندار اور تاریخی کامیابی جوکہ ایک عظیم، بلند وبالا نظریہ اور حق گوسرفرشوں کی کامیابی ہے۔ اس کامیابی کا اصل کریڈیٹ شہید عبدالمالک کوجاتا ہے۔ جنہوں نے اب سے 55 سال قبل ڈھاکا یونیورسٹی میں بھارت کے ایجنٹوں اور قوم پرست قوتوں کو للکارا اور کلمہ توحید بلند کیا تھا۔
شہید عبدالمالک میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں ناصرف یہ کہ پاکستان کا پرچم بلند کیا بلکہ نظریہ پاکستان کا دفاع بھی کیا۔ اس جرم کے پاداش میں انہیں بھارت کے ایجنٹوں نے سریوں اور ڈنڈوں سے بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کیا۔ عبدالمالک کی شہادت کے بعد لسانیت اور تعصب کی ایسی آگ بھڑکی کہ سب کچھ خاکستر ہوگیا۔ بھارت کی سازشوں اور مداخلت کے باعث مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا ہمارا ایک بازو کٹ گیا۔ بھارت کی کٹھ پتلی بنگلا دیش کے بانی مجیب الرحمن کو بھارت نے اپنے انجام تک پہنچایا اور پھر بنگلا دیش میں مختلف اوقات میں مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد کی حکومت بنی۔ حسینہ واجد نے بھارت کے ایما پر پاکستان سے وفاداری کرنے والے افراد کا جینا دوبھر کر دیا اور چن چن کر انہیں تختہ مشق بنایا گیا۔ جماعت اسلامی نے پاکستان کی بقاء وسلامتی کے لیے مشرقی پاکستان کے نوجوانوں پر مشتمل البدر، الشمس تنظیمیں بنائی۔ جنہوں نے ڈھاکا ہی نہیں پورے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی سے پاکستان کے بقاء کی جنگ لڑی۔ بنگلا دیش قائم ہونے پر لاکھوں پاکستانی فوجیوں نے ڈھاکا کے پلٹن گراؤنڈ میں ہتھیار ڈالے لیکن البدر اور الشمس کے مجاہدین اپنی آخری سانسوں تک پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے اور بھارت کے سینے پر بیٹھ کر مونگ دلتے رہے۔
بھارت نواز حسینہ واجد حکومت کا کوئی ظلم اور ستم انہیں ان کے راستے سے نہیں ہٹا سکا۔ ظالم اور فرعون صفت حسینہ واجد نے ظلم وستم کی تمام حدود کو پھلانگ لیا لیکن وہ ان سرفروشوں کے سروں کو جھکا نہیں سکی۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگائی گئی اس کے اکابرین اور کارکنان پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے۔ ہزاروں کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا مطیع الرحمان، عبدالقادر ملا، محمد قمر الزماں، میر قاسم علی ودیگر قائدین کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ نوے سال سے زائد عمر والے پروفیسر غلام اعظم کو جیل کی قید میں صعوبتیں دے کر موت کے منہ میں دکھیل دیا گیا۔ کون سا ظلم اور درندگی تھا جو ان مظلوموں پر نہ ڈھایا ہو۔ دھاندلی اور بھارت کی پشت پناہی کے ذریعے اقتدار میں آنے والی حسینہ واجد کے ظلم وستم نے جب تمام حدود کو پھلانگ لیا تو پھر عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا۔ کوٹا سسٹم کے نام پر بنگلا دیش کے طلبہ نے وہ تحریک چلائی کہ ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وزیراعظم حسینہ واجد بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر بھارت فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی۔ ملک میں معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کی گئی۔ عبوری حکومت نے فروری 2026 قومی انتخابات کا اعلان کیا ہے۔
آج 55 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ بنگلا دیش میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ بھارت کی جانب سے ریت کے ڈھیر پر تعمیر کیے گئے محلات ریزہ ریزہ ہو چکے ہیں۔ بنگلا دیش کے چپے چپے پر بنگلا دیشی پرچم کے ساتھ پاکستانی پرچم بھی لہرا رہے ہیں۔ اور آج بنگلا دیش تکبیر کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ بنگلا دیش کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں اسلامی چھاترو شبرکی کامیابی نے شہید عبدالمالک کے مقدس خون کی لاج رکھ لی ہے۔ وہی ڈھاکا یونیورسٹی جہاں قوم پرست دہشت گردوں نے اسلام کے اس مجاہد کو بہیمانہ تشدد کے ذریعے شہید کیا تھا لیکن آج شہید عبدالمالک کا خون بھی بول اٹھا ہے۔
تم نے جس خون کو مقتل میں چھپانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
بنگلا دیش میں ڈھاکا یونیورسٹی میں شہید عبدالمالک کی شہادت سے شروع ہونے والا ظلم وستم آج 55 سال کے بعد ڈھاکا یونیورسٹی میں ہونے والے طلبہ یونین کے انتخابات میں اسلامی چھاترو شبرکی کامیابی سے ظلم کی سیاہ رات ختم ہوگئی ہے اور اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہونے والا ہی ہے۔
بنگلا دیش میں قوم پرستی کا سیلاب اپنے تمام تر ظلم استبداد سمیت خلیج بنگال کی گہرائیوں میں غرق ہو چکا ہے۔ بنگلا دیش میں اسلامی تحریک کا پرچم مزید بلند ہوگا۔ جنوبی ایشیا میں تبدیلی کی لہر آچکی ہے۔ سری لنکا، بنگلا دیش، نیپال کے بعد یہ ہوائیں جلد پاکستان میں بھی چلنا شروع ہو جائیں گی۔ پاکستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں پاکستان میں طلبہ تنظیموں پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے لیے آواز بلند کریں کیونکہ تمام ہی حکومتوں نے طلبہ کی آواز کو دبایا ہوا ہے۔ پاکستان کے حکمران نہیں چاہتے کہ طلبہ میں شعور اور آگہی پروان چڑھے اور ان میں انقلابی سوچ پروان نہ چڑھے۔ کوئی بھی بچہ اسکول، کالج یونی ورسٹی سے سیاست نہ سیکھ لے تاکہ یہ بھی اپنے حق کے لیے کھڑے نہ ہوجائیں۔