مصطفی عامر قتل کیس؛ مرکزی ملزم ارمغان کے والد کے گرد قانونی گھیرا تنگ
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
کراچی:
مصطفی عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے والد کے گرد قانونی گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔
ملزم کامران قریشی کو غیر قانونی اسلحہ کے مقدمے میں نامزد کیے جانے کے بعد انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اے وی سی سی کو جیل میں تفتیش کی اجازت دیتے ہوئے تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔
سینٹرل جیل کراچی میں انسداد دہشتگردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نمبر 4 کے روبرو اے وی سی سی کے تفتیشی انسپکٹر محمد علی نے ملزم کامران قریشی سے تفتیش کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ منشیات کے مقدمے میں جب ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا تو اس کے موبائل سے ایک ویڈیو ملی تھی۔ اس ویڈیو میں ملزم کامران قریشی پشاور سے اسلحہ لے کر آرہا ہے، یہ وہی اسلحہ ہے جو پولیس مقابلے میں استعمال ہوا۔
عدالت نے تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے ملزم کامرن قریشی سے تفتیش کی اجازت دے دی۔ عدالت نے کہا کہ 6 اور 7 اپریل کو تفتیشی افسر جیل میں ملزم کامران قریشی سے تفتیش کرے اور 2 روزہ تفتیش مکمل کرکے عدالت کو آگاہ کرے۔ تفتیش دن کی روشنی کی جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ اے وی سی سی کے تفتیشی افسر محمد علی کی ملزم کامران قریشی تک رسائی یقینی بنائے۔ تفتیشی افسر 8 اپریل کو رپورٹ پیش کرے۔
قبل ازیں جوڈیشل کمپلیکس میں جوڈیشل مجسٹریٹ نمبر 9 کی عدالت میں مصطفی عامر قتل کیس کے تفتیشی افسر محمد علی پیش ہوئے، جس میں تفتیش افسر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس مقابلے اور غیر قانونی اسلحہ کے مقدمے میں ملزم کامران قریشی کی گرفتاری ڈالنی ہے، جس کے لیے این او سی دی جائے، جس پر عدالت نے تفتیشی افسر کی درخواست منظور کرلی۔
تفتیشی افسر انسپکٹر محمد علی نے بتایا کہ ملزم کامران قریشی کی دہشتگردی ایکٹ کے تحت گرفتاری ڈال دی ہے۔ مصطفی عامر قتل کیس کا مرکزی ملزم ارمغان عرف آرمی پہلے سے ہی اس مقدمے میں گرفتار ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مصطفی عامر قتل کیس ملزم کامران قریشی تفتیشی افسر محمد علی عدالت نے
پڑھیں:
واہگہ بارڈر خودکش حملے کے مقدمے میں پھانسی کی سزا کے منتظر 3 مجرمان بری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے واہگہ بارڈر پر خودکش حملہ کے مقدمے میں پھانسی کی سزا پانے والے تین مجرمان کو بری کردیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شہباز رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے مجرم حسین اللہ، حبیب اللہ، سید جان عرف گجنی کی اپیلوں پر سماعت کی،اپیل کنندگان کے وکلا نے دلائل دئیے کہ دہشت گردی کا واقعہ دوہزار چودہ میں پیش آیا مگر مقدمے میں نوماہ کے بعد نامزد کیا۔
اپیل کنندگان پر خودکش حملہ آوروں کی سہولت کاری کا الزام تھا، پراسیکیوشن سہولت کاری کا کوئی بھی گواہ اور ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی،ٹرائل عدالت نے اپیل کنندگان کودوہزار بیس میں بلاجواز سزائے موت کا حکم سنایا، عدالت سزائے موت کالعدم قرار دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دے۔
سرکاری وکیل نے بتایا کہ واہگہ بارڈر پر دہشت گردی کے واقعہ میں پچپن شہری شہید ہوئے،وقوعہ میں ایک سو دس شہری زخمی ہوئے،ملزم کسی کے رعائت کےمستحق نہیں سزائے موت برقرار رکھی جائے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد ناکافی گواہوں اور ثبوتوں کی بناء پر مجرم حسین اللہ، حبیب اللہ، سید جان عرف گجنی کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے سزائے موت کالعدم قرار دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دے دیا،مجرمان کے خلاف واہگہ بارڈر خود کش حملہ کا مقدمہ تھانہ باٹا پور میں درج کیا گیا تھا۔