Express News:
2025-07-25@00:56:59 GMT

چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط نہم)

اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT

فلسطینیوں کی پہلی مزاحمتِ عظیم (انیس سو چھتیس تا انتالیس) شدت اور حجم کے اعتبار سے اس قدر وسیع تھی کہ برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ اور یہودی آبادکاروں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔مگر جب سامراجی انتظامیہ نے فلسطینی سماج میں کمزور شگافوں کا اندازہ لگا لیا اور یہ بھی دیکھ لیا کہ اردگرد کی مصلحت کوش عرب حکومتیں برطانوی صیہونی گٹھ جوڑ کے لیے عسکری و سیاسی لحاظ سے کوئی خطرہ نہیں اور ان حکومتوں میں فلسطین کے تعلق سے ایکا ممکن نہیں تو شورش کو کچلنا آسان ہو گیا۔

اگرچہ برطانوی انتظامیہ سرکاری طور پر کسی مسلح صیہونی ملیشیا کو تسلیم نہیں کرتی تھی۔مگر فلسطینی بغاوت کو کچلنا مشترکہ مقصد بن گیا۔انیس سو اڑتیس کے موسمِ گرما تک فلسطین میں برطانوی صیہونی گٹھ جوڑ سے نبرد آزما مسلح فلسطینیوں کی تعداد دس ہزار سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔چنانچہ برطانیہ نے صیہونی بستیوں کے تحفظ کے لیے جیوش سیٹلمنٹ پولیس ، جیوش گارڈز اور مشترکہ قاتل نائٹ اسکواڈز تشکیل دے کر اپنی فلسطین دشمنی کو ’’ آؤٹ سورس ‘‘ کر دیا۔

یہ نیم سرکاری فوجی تنظیمیں بے فکری سے عربوں کو پکڑ کے مار سکتی تھیں ، ٹارچر کے ذریعے اپاہج کر سکتی تھیں۔ان تنظیموں کے بیس ہزار ارکان کو اسلحہ رکھنے اور اس کے استعمال کی کھلی چھوٹ تھی۔اور یہ سب برطانوی انتظامیہ کے بجائے جیوش ایجنسی کی متوازی حکومت کو جوابدہ تھے۔

ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہگانہ ملیشیا نے یہودی بستیوں میں اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کر لیں۔ان فیکٹریوں میں بارودی سرنگیں ، مورٹار گولے اور دستی بم تیار ہونے لگے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جون انیس سو سینتیس میں برطانوی انتظامیہ نے قانون لاگو کیا کہ جس کے قبضے سے غیرقانونی اسلحہ اور بارود برآمد ہوا اسے سزائے موت دی جائے گی۔مگر اس قانون کا نشانہ فلسطینی تھے۔مزاحمت کے دوران اسلحہ سمیت پکڑے جانے والے جن ایک سو آٹھ ملزموں کو پھانسی پر لٹکایا گیا ان میں صرف تین یہودی اور ایک سو پانچ عرب تھے۔

برطانوی انتظامیہ اور جیوش ایجنسی نے انٹیلی جینس معلومات اکٹھی کرنے میں بھی مکمل تعاون کیا اور بعد ازاں یہ معلومات اس وقت بہت کام آئیں جب نومبر انیس سو سینتالیس میں تقسیم کے بعد یہودیوں کو الاٹ ہونے والے علاقوں سے فلسطینیوں کی اجتماعی بے دخلی کا کام شروع ہوا۔

پہلی عظیم مزاحمت کو کچلنے میں کچھ فلسطینی رہنماؤں نے بھی برطانیہ اور صیہونیوں کا ساتھ دیا۔ اردن کے شاہ عبداللہ بظاہر مزاحمت کے ساتھ بھی تھے اور فلسطین کی برطانوی انتظامیہ کو بھی ان پر پورا اعتماد تھا اور جیوش ایجنسی بھی انھیں اپنے مفادات کے لیے کوئی خطرہ نہیں سمجھتی تھی۔

 فلسطینیوں کی مسلسل قربانیوں کے باوجود اس مزاحمت کی ناکامی میں سرکاری بے رحمی کے علاوہ فلسطینیوں کے دو بڑے سیاسی خاندانوں النشیشیبی اور الحسینی کی سیاسی چشمک نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

جب حاجی امین الحسینی کو کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے فلسطین چھوڑنا پڑا تو انھوں نے جنوری انیس سو سینتیس میں برلن میں ایڈولف ہٹلر سے ملاقات میں برطانویوں اور صیہونیوں کے خلاف مدد طلب کی اور تعاون کا وعدہ کیا۔مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔

صیہونیوں نے الحسینی ہٹلر ملاقات کے بعد آسمان سر پے اٹھا لیا حالانکہ خود صیہونیوں کا ایک دھڑا (ارگون ) جرمن یہودیوں کی فلسطین منتقلی کے عوض ہٹلر سے تعاون کے لیے کوشاںرہا۔صیہونی پروپیگنڈے کے مطابق فلسطینیوں کو اطالوی فاشسٹ ڈکٹیٹر مسولینی اور نازی جرمنی کی جانب سے مالی اور فوجی امداد ملتی رہی مگر برطانوی انٹیلی جینس ذرایع نے کبھی تصدیق نہیں کی کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو جرمن امداد یا اطالوی اسلحہ میسر آیا۔

جب کہ النشیشیبی خاندان نے برطانوی انتظامیہ سے تعاون کرتے ہوئے بغاوت کچلنے کے لیے اپنے زیرِ اثر کسانوں پر مشتمل مسلح ’’ امن دستے ‘‘ تشکیل دیے۔ان کا کام مزاحمت کاروں کی مخبری اور مشترکہ مسلح کارروائیوں میں حصہ لینا تھا۔ دروز اقلیت نے بھی برطانوی انتظامیہ کا بھرپور ساتھ دیا۔

راغب النشیشیبی نے جیوش ایجنسی کے سربراہ موشے شرتوک کو شورش پسندوں سے نمٹنے میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ان وفاداروں کو نہ صرف برطانوی انتظامیہ بلکہ جیوش ایجنسی کی جانب سے بھی مالی امداد ملتی رہی۔جب اکتوبر انیس سو اڑتیس میں مسلح مزاحمت کار یروشلم کے قدیم شہر پر قبضہ کر کے قلعہ بند ہو گئے تو قبضہ چھڑانے میں النشییبی خاندان کے امن دستوں نے برطانوی دستوں کا بھرپور ساتھ دیا۔

مئی انیس سو انتالیس تک مزاحمت کا زور ٹوٹ گیا۔چنانچہ برطانوی انتظامیہ نے امن دستوں کو تحلیل کر کے ان سے اسلحہ واپس لے لیا۔مگر صیہونیوں کو دیا گیا اسلحہ واپس نہیں لیا جا سکا۔ النشیشیبی خاندان کو فلسطینی اکثریت بطور غدار دیکھتی تھی لہٰذا ان کے پاس سوائے اس کے کوئی راہ نہیں تھی کہ وہ آخری لمحے تک برطانوی انتظامیہ کا ساتھ دیتے رہیں اور ان کی پناہ میں رہیں۔

فلسطینی مزاحمت کی ناکامی کا ایک بڑا سبب کسی مرکزی کمان کا نہ ہونا بھی تھا۔مزاحمت میں دو سو بیاسی مسلح کمانڈروں نے حصہ لیا مگر وہ انفرادی طور پر اپنے زیرِ اثر علاقوں میں ہی متحرک رہے۔کسی متحدہ کمان کی عدم موجودگی میں برطانوی انتظامیہ کے لیے ان سے نمٹنا خاصا آسان ہوگیا۔برطانوی اور صیہونی میڈیا انھیں باغی ، ڈاکو ، دہشت گرد اور غنڈہ کہتا رہا۔گنے چنے عرب اخبارات تھے جن میں ان مزاحمت کاروں کو مجاہدین یا فدائین کہا جاتا رہا۔

کوئی بھی مزاحمتی تحریک جاری رکھنے کے لیے پیسہ چاہیے۔برطانوی انتظامیہ کو کبھی مالی بحران درپیش نہیں رہا۔جیوش ایجنسی کو یورپ اور امریکا کے مالدار یہودیوں کا بھرپور ساتھ ملا۔مگر فلسطینی مزاحمت کاروں کے پاس مسلسل مالی امداد کا کبھی کوئی بااعتماد ذریعہ نہیں رہا۔بہت سی عورتوں نے اپنا زیور دے دیا۔کسانوں نے فصلوں پر عائد جہاد ٹیکس رضاکارانہ ادا کیا۔سرکاری ملازموں نے تنخواہ کا ایک حصہ پوشیدہ طور پر کسی نہ کسی مزاحمتی گروہ کو دیا۔کچھ مخیر خاندانوں نے خفیہ مدد کی مگر بہت سے اپنا سرمایہ بچانے کے لیے بیرونِ ملک چلے گئے۔ مزاحمت کی مرکزی قیادت ( عرب ہائر کمیٹی ) عرب حکومتوں سے مسلسل مالی مدد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جب آٹھ برس بعد ( نومبر انیس سو سینتالیس ) پارٹیشن کا اعلان ہوا تو جنگی تجربات سے مالامال مسلح صیہونی دستے تازہ دم تھے جب کہ فلسطینی غیر مسلح اور کمزور ہو چکے تھے۔

اگر انیس سو چھتیس تا انتالیس کی غیر منظم مزاحمت کے بجائے فلسطینی اپنی قوت مجتمع رکھتے تو انیس سو سینتالیس اڑتالیس میں وہ عددی اکثریت اور تازہ دم ہونے کے سبب صیہونیوں کو ناکوں چنے چبوا سکتے تھے۔ اسرائیل کاغذوں میں قائم ہونے کے باوجود زمین پر اتنی آسانی سے قائم نہ ہو پاتا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: برطانوی انتظامیہ فلسطینیوں کی مزاحمت کاروں میں برطانوی جیوش ایجنسی مزاحمت کا کے لیے

پڑھیں:

کورنگی کی مارکیٹ میں دن دہاڑے جیولرز کی دکانوں پر ڈکیتی، مزاحمت پر نوجوان دکاندار جاں بحق

شہر قائد کے علاقے کورنگی میں ڈاکوؤں نے دن دہاڑے جیولرز کی دکانوں میں لوٹ مار کے دوران بھاری مالیت کا سونا لوٹ لیا جبکہ مزاحمت پر دکاندار اور خاتون کو زخمی کیا، دوران علاج دکاندار دم توڑ گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے کورنگی نمبر دو پر قائم مارکیٹ میں دن دہاڑے چار موٹرسائیکلوں پر سوار 8 جدید اسلحے سے لیس ڈاکوؤں نے جیولرز کی دکانوں پر لوٹ مار کی۔

اس دوران ایک دکاندار نے مزاحمت کی تو ملزمان نے فائرنگ کردی جس کے جواب میں دکاندار نے بھی فائرنگ کی جس میں ایک ڈاکو زخمی ہوا جبکہ ملزمان کی فائرنگ سے راہگیر خاتون زخمی ہوئیں۔

زخمی دکاندار کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج دم توڑ دیا۔

واقعے کے بعد دکانداروں میں شدید اشتعال پھیل گیا اور انھوں نے احتجاج کرتے ہوئے ٹائروں کو نذر آتش کر کے ٹریفک معطل کر دیا اور ڈاکوؤں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ۔

اس موقع پر عوام اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر پھٹ پڑے اور پولیس کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ دکانداروں کا کہنا تھا کہ لوٹے گئے مال کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے، رواں سال شہر میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے جاں بحق افراد کی تعداد 51 ہوگئی جبکہ پولیس افسران وارداتوں میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں 50 فیصد کمی کے دعوے کر رہے ہیں۔

 مسلح ڈاکو جیولری کی دکانوں سے لوٹ مار کر کے بھاری مالیت کا سونا لوٹ کر فرار ہوگئے، مزاحمت پر جاں بحق ہونے والے دکاندار کی شناخت 32 سالہ عبدالمتین کے نام سے ہوئی۔ زخمی خاتون کی شناخت صابری 62 سالہ سے ہوئی۔

واردات کی اطلاع ملنے پر پولیس اور رینجرز افسران بھی موقع پر پہنچ گئے ، ابتدائی طور پر دکانداروں کا کہنا تھا کہ مسلح ڈاکوؤں کا گروہ 4 موٹر سائیکلوں پرسوار اور تعداد 8 کے قریب بتائی گئی جبکہ ڈاکوؤں نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے  نقاب لگائے ہوئے تھے اور پی کیپ بھی پہنی ہوئی تھی۔

 ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران 3 جیولری شاپ فریال زرگر ، العزیز جیولر اور کرن جیولر میں لوٹ مار کی۔

 دکانداروں کا کہنا ہے کہ مسلح ڈاکو کتنا سونا لوٹ کر فرار ہوئے اس کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے ، دکانداروں کا کہنا تھا مارکیٹ میں سی سی ٹی وی کمیرے لگے ہوئے ہیں لیکن جس وقت واردات ہوئی مارکیٹ لوڈشیئڈنگ کے باعث بجلی کی سپلائی معطل تھی اور تمام سی سی ٹی وی کیمرے آف تھے۔

دکانداروں نے بتایا کہ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ان کا ایک ساتھی بھی زخمی ہوا ہے جسے اس کے دیگر ساتھی اپنے ساتھ لیکر فرار ہوئے ہیں۔ دکانداروں نے مطالبہ کیا ہے کہ جیولری مارکیٹ کی سیکیورٹی میں اضافہ کیا جائے اورواردات میں ملوث ملزمان کو سراغ لگا کر انہیں گرفتار کیا جائے اوران سے لوٹا ہوا مال برآمد کیا جائے۔

ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے عبدالمتین کو جناح اسپتال سے نجی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول دکاندار کو 3 گولیاں لگی تھیں اور وہ خون زیادہ بہہ جانے کے باعث جانبر نہ رہے سکا جبکہ مقتول دکاندار عبدالمتین جیولرز مارکیٹ کے جنرل سیکریٹری عبدالمقیم کے بیٹا تھا،

 ڈکیتی کی واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آگئی جس میں 3 موٹر سائیکلوں پر 5 ڈاکوؤں کو مارکیٹ کی پتلی گلیوں سے فرار ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس میں ان کے ہاتھ میں اسلحہ بھی دکھائی دیا۔

 دکاندار عبدالمتین کے دوران علاج جاں بحق ہونے کی اطلاع پر دکانداروں میں اشتعال پھیل گیا اور انھوں نے احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر ٹائر نذر آتش کر کے ٹریفک معطل کر دیا جس کے باعث عام شہریوں کو شدید مشکلات اور دقت کا سامنا کرنا پڑ گیا جبکہ مشتعل افراد نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ واردات میں ملوث ڈاکوؤں کو گرفتار اور لوٹا گیا سونا برآمد کرایا جائے۔

اس موقع پر مظاہرین نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ دن سوار بارہ بجے کے قریب واردات ہوئی جبکہ کورنگی 2 نمبر مارکیٹ کھل رہی تھی، ڈاکوؤں نے مزاحمت پر دکاندار پر گولیاں برسائیں، اس وقت احتجاج کے باعث دکانداروں کاروبار بند کیا ہوا جو آج بدھ بعد نماز ظہر تک بند رہیگا جبکہ مقتول عبدالمتین کی نماز جنازہ مین روڈ پر ادا کی جائیگی۔

انھوں نے حکومت سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اپنا کردار کب ادا کریگی ، ہماری اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں سے کب جان چھوٹے گی؟ ہم پہلے ہی بہت کچھ دیکھ چکے ہیں ،حکومت سندھ سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں کہ شہر کو جرائم سے پاک کیا جائے۔

پورے ملک کا سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر میں انسانی جانوں کا یہ حال ہے جبکہ ہم دکاندار ٹیکسز بھی ادا کر رہے ہیں لیکن ہمیں سکون اور تعاون نہیں مل رہا ، مقتول نوجوان عبدالمتین کی 2 ماہ بعد شادی تھی مال تو چلا گیا دوبارہ کما لینگے لیکن جو جوان بچے کی جان گئی ہے وہ کون واپس لائے گا۔

 ایک دکاندار نوجوان کا کہنا تھا کہ فائرنگ کی آواز سن کر انھوں نے دکان کے شٹر گرا دیئے اور جب باہر نکلے تو ایک خاتون کی ٹانگ پر گولی لگی ہوئی تھی اور اس کی ٹانگ سے خون بہہ رہا تھا جسے پٹی باندھ کر اسپتال روانہ کیا۔

نوجوان نے سوال کیا کہ آخر حکومت سندھ اور پولیس کیا کر رہی ہے جو ڈاکو آزادانہ گھوم رہے ہیں ، اس حوالے ایس ایچ او کورنگی عدیل افضال نے بتایا کہ مسلح ڈاکوؤں نے 2 جیولرز کی دکانوں میں واردات کی ہے اور مزاحمت پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں دکاندار اور ایک راہگیر خاتون زخمی ہوگئی۔

انھوں نے بتایا کہ دوران واردات کتنا سونا لوٹا گیا اس کی معلومات حاصل کی جا رہی ہے جبکہ پولیس سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ڈاکوؤں کی شناخت کی کوششیں کر رہی ہے اور جلد انھیں گرفتار کرلیا جائیگا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں جنگ کی وجہ سے شدید ماحولیاتی تباہی، جنگ کے مضر اثرات نسلوں تک پھیلنے کا خدشہ
  • مقاومت کو غیر مسلح کرنیکا مطلب لبنان کی نابودی ہے، امیل لحود
  • جنہیں سزا ملی وہ بھی بیگناہ: شاہ محمود، قربانی آئندہ نسلوں کیلئے: دیگر رہنما  
  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی تو سخت مزاحمت کریں گے( ملی یکجہتی کونسل)
  • برطانوی رکنِ پارلیمان کا اپنے ملک سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ
  • حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی تو سخت مزاحمت کرینگے ، ملی یکجہتی کونسل
  • کورنگی کی مارکیٹ میں دن دہاڑے جیولرز کی دکانوں پر ڈکیتی، مزاحمت پر نوجوان دکاندار جاں بحق
  • سیلاب کا خدشہ، تربیلا ڈیم میں پانی کا ریلہ داخل ہونے کا الرٹ جاری
  • بارشوں سے تباہی کے دوران بھارت کی پانی چھوڑنے کی دھمکی، منگلا اور تربیلا ڈیم پر الرٹ جاری
  •  بھارت کی پانی چھوڑنے کی دھمکی، منگلا ڈیم پر الرٹ جاری، ایمرجنسی نافذ