ایوارڈ دینا ایک علامتی عمل ہوتا ہے، جو تاریخ میں کسی شخصیت کی خدمات کا اعتراف کرتا ہے مگرکیا یہ عمل حقیقی انصاف کا متبادل ہو سکتا ہے؟ ذوالفقارعلی بھٹوکو اس سال 23 مارچ کو بعد از مرگ ’’ نشانِ پاکستان‘‘ سے نوازا جانا، ان کے سیاسی سفرکا ایک باضابطہ اعتراف ضرور ہے لیکن اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے ان کے دورِ حکومت اور اس کے اثرات سے کچھ سیکھا ہے؟ کیا ہم نے اس تاریخ سے کچھ سبق حاصل کیا ہے یا ہم صرف ماضی کی شخصیات کو ایوارڈ دے کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں؟
بھٹو صاحب پاکستانی سیاست کی ایک نمایاں شخصیت تھے جنھوں نے عوامی سیاست کو فروغ دیا اور کچھ ایسے اقدامات کیے جنھوں نے ملک کے سیاسی اور اقتصادی منظر نامے پرگہرا اثر چھوڑا۔ ان کے حامی انھیں عوامی حقوق کے علمبردارکے طور پر دیکھتے ہیں جب کہ ناقدین ان کی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی پر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔
وہ ایک متحرک سیاسی رہنما تھے لیکن ان کے طرزِ سیاست پر اختلافِ رائے موجود ہے، جو آج بھی جاری ہے۔ تاہم ان کی حکومت کے اختتام اور بعد میں پیش آنے والے واقعات نے پاکستانی تاریخ میں ایک اہم باب رقم کیا جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں کئی رہنماؤں کو پہلے متنازع بنایا گیا، پھر دہائیوں بعد ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ بھٹو صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ انھیں ایک مقدمے کے نتیجے میں سزائے موت دی گئی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس فیصلے پر کئی حلقوں میں سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
آج جب انھیں بعد از مرگ سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا گیا ہے تو یہ ایک اہم موقع ضرور ہے مگر اس سے ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کے اعترافات ماضی کی غلطیوں کا حقیقی ازالہ کر سکتے ہیں؟ کیا صرف ایک سرکاری اعزاز دینے سے انصاف کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں یا حقیقی انصاف کا مطلب کچھ اور ہے؟
پاکستان میں کئی دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام عوامی مسائل اور جمہوری جدوجہد جاری رہی ہے۔ مختلف حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن عام آدمی کے مسائل آج بھی کم و بیش وہی ہیں۔
سندھ میں پانی کے مسائل بلوچستان میں لاپتہ افراد کی گمشدگی خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں محرومی کے احساس جیسے معاملات آج بھی جوں کے توں ہیں۔ جب لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو انھیں بعض اوقات ریاست مخالف عناصر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں بھی ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے محض رسمی ایوارڈز کے ذریعے اعترافِ جرم کیا جاتا رہے گا؟
جمہوری حقوق کی بات کرنے والے صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے اور ریاستی جبر پر سوال اٹھانے والے آج بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ کیا ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ہے یا ہم اب بھی وہی طرزِ عمل دہرا رہے ہیں جس پر کئی بار تاریخ میں نظرثانی کی جا چکی ہے؟ بھٹو صاحب کو ’’ نشانِ پاکستان‘‘ دینا ایک اہم قدم ضرور ہے لیکن کیا اس سے عام شہریوں کو کوئی عملی فائدہ پہنچے گا؟ کیا اس سے بلوچستان میں برسوں سے اپنے لاپتہ پیاروں کا انتظار کرنے والی ماؤں کے آنسو خشک ہوں گے؟ کیا اس سے وہ مزدور خوشحال ہو جائے گا جو دن رات محنت کے باوجود دو وقت کی روٹی کے لیے ترستا ہے؟
اگر ہم پاکستانی سیاست کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اقتدار ہمیشہ مخصوص حلقوں تک محدود رہا ہے۔ وہی جاگیردار، سرمایہ دار اور بااثر خاندان آج بھی سیاست پر غالب ہیں جن کے خلاف مختلف ادوار میں آواز اٹھائی جاتی رہی ہے، اگر ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچنا ہے تو ضروری ہے کہ جمہوری اقدار کو مضبوط کیا جائے عوامی مسائل کو عملی طور پر حل کیا جائے اور انصاف کے نظام کو مضبوط بنایا جائے، اگر ایسا نہ ہوا تو تاریخ خود کو دہراتی رہے گی اور ایک دن وہی لوگ جو آج دبائے جا رہے ہیں مستقبل میں ایوارڈز کے حقدار قرار دیے جائیں گے، لیکن تب شاید وہ خود یا ان کے پیارے اس دنیا میں نہ ہوں۔
ایوارڈ دینا اور تقاریب منعقد کرنا ایک علامتی قدم ہو سکتا ہے لیکن اگر عملی اقدامات نہ کیے جائیں تو یہ صرف ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جائے گا، اگر ماضی کی قربانیوں کو حقیقی معنوں میں تسلیم کرنا ہے تو ضروری ہے کہ عوام کے حقوق کو اولین ترجیح دی جائے قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے اور اختلافِ رائے کو دبانے کے بجائے اسے جمہوری عمل کا حصہ سمجھا جائے۔ ورنہ یہ سوال ہمیشہ کے لیے قائم رہے گا کہ آیا ہماری ریاست کو حقیقی انصاف کی فکر ہے یا صرف وقت گزرنے کے بعد رسمی اعترافات کرنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم صرف ماضی کے رہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کر کے اپنی ذمے داری پوری سمجھتے ہیں یا ہم حقیقی معنوں میں ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہوں؟ اگر اس سمت میں عملی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ایوارڈز اور اعترافات محض ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جائیں گے جب کہ عوام کے حقیقی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہیں یا صرف وقت کے ساتھ اپنے رہنماؤں کو یاد کر کے رسمی ذمے داری پوری کرنا چاہتے ہیں؟
یہ بحث صرف بھٹو تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے رہنما گزرے ہیں جنھیں ان کے وقت میں پذیرائی نہ ملی لیکن بعد میں ان کے افکار اور نظریات کو تسلیم کیا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم ہمیشہ یہی رویہ اپناتے رہیں گے؟ پہلے کسی کو اختلافِ رائے کی بنیاد پر دبائیں گے اور پھر کئی دہائیوں بعد انھیں اعزاز دے کر اپنی غلطیوں کو ماضی کا قصہ بنا دیں گے؟ کیا ہم نے واقعی ایک بہتر نظام کے قیام کے لیے کچھ سیکھا ہے یا ہم اب بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں؟
اگر واقعی ہم اپنی تاریخ سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف ایوارڈ دینے کے بجائے عملی اقدامات پر توجہ دینا ہوگی۔ عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنا ہوگا، عدلیہ اور قانون کے نظام کو آزاد اور غیرجانبدار بنانا ہوگا اختلافِ رائے کو دبانے کے بجائے اسے سیاسی و سماجی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ جب تک ہم یہ بنیادی تبدیلیاں نہیں لاتے تب تک نہ تو ماضی کے رہنماؤں کی قربانیوں کا حقیقی معنوں میں اعتراف ممکن ہوگا اور نہ ہی مستقبل میں انصاف کا کوئی واضح راستہ نکل سکے گا۔
ہمیں اب ایوارڈز سے آگے سوچنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جو لوگ آج ظلم جبر اور ناانصافی کے خلاف لڑ رہے ہیں وہی کل کے ہیرو ہیں۔ اور ہمیں ان کی قدر آج کرنی ہوگی نہ کہ کئی دہائیوں بعد جب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ تاریخ کے ماتھے پر تمغے سجانے کے بجائے آج کے ہیروز کے ہاتھ میں انصاف تھمانا ہوگا۔ یہی حقیقی خراج تحسین ہوگا اور یہی ایک بہتر اور منصفانہ پاکستان کی طرف پہلا قدم بھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرنا ہوگا تاریخ میں کہ کیا ہم ہے کہ کیا کیا ہم نے کے بجائے نے والے ماضی کی رہے ہیں ا ج بھی کیا اس کے لیے
پڑھیں:
عمران کا مقدر لمبی جیل، نئے صوبوں، فنانس ایوارڈ اور ڈیموں پر ہائبرڈ نظام میں اختلافات کا امکان ہے: طلعت حسین
پاکستان کے معروف صحافی اور ٹیلی ویژن میزبان سید طلعت حسین نے کہا ہے کہ عمران خان طویل عرصے تک جیل میں رہیں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے مذاکرات اور کامیابی کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔
وی نیوز کے خصوصی پروگرام ‘صحافت اور سیاست’ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مائنس عمران خان پی ٹی آئی کے شہباز شریف حکومت سے مذاکرات اور ان کی کامیابی کے امکانات تو ہیں لیکن عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا کیونکہ عمران خان ان مذاکرات یا سمجھوتے کے نتیجے میں اپنا غلبہ چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا بیان: کیا اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان ڈیل کے امکانات بڑھے ہیں؟
انہوں نے کہاکہ عمران خان اور ان کی پارٹی نے کئی بسیں مس کردی ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ سال 26 نومبر کے احتجاج سے پہلے ان کی اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ ترین لوگوں سے ملاقات ہوئی تھی اور اس میں ان سے کہا گیا تھا کہ ہنگامہ آرائی نہ کریں لیکن پھر بھی بات نہیں بنی۔
انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومتی اتحاد کے اسٹیبلشمنٹ سے نئے صوبوں، وفاقی اکائیوں میں وسائل کی تقسیم کے لیے این ایف سی ایوارڈ اور ڈیم بنانے جیسے معاملات پر اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم فی الحال شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں اور وہ اپنی صلاحیت سے ان امکانات کو معدوم بھی کر سکتے ہیں۔
غزہ کی طرف جانے والے بین الااقوامی فلوٹیلا کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس بارے میں زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے اور اسرائیل اس قافلے کے مسافروں کے ساتھ کسی بھی سطح کا ظالمانہ سلوک کر سکتا ہے، یہ قافلہ ڈبو سکتا ہے یا تباہ کر سکتا ہے۔
فیک نیوز کے بارے میں بات کرتے ہوئے سید طلعت حسین نے کہاکہ جعلی مواد اس لیے زیادہ پھیل رہا ہے کیونکہ صحیح مواد کے راستے رکے ہوئے ہیں۔ صحیح خبر اور معلومات کے اوپر قدغن لگی ہوئی ہے۔ اگر آپ حقیقت بیان کرنے کے جو مروجہ طریقے ہیں ان کے راستے نہ روکیں تو کہیں نہ کہیں جا کر جھوٹ پکڑا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فیک نیوز سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر لائحہ عمل تشکیل دیا جانا ضروری ہے، عطا اللہ تارڑ
انہوں نے کہاکہ اب کوئی بھی شخص جو کیمرے کے سامنے کھڑے ہوکر دو الفاظ بول لیتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ صحافی ہے۔ اور جس کے پاس اپنا پلیٹ فارم سوشل میڈیا پر موجود ہے وہ سمجھتا ہے کہ وہ چینل کا مالک ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی طلعت حسین عمران خان لمبی جیل وسائل کی تقسیم وی نیوز