Express News:
2025-07-04@01:18:43 GMT

ایوارڈ اور ادھورا انصاف

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

ایوارڈ دینا ایک علامتی عمل ہوتا ہے، جو تاریخ میں کسی شخصیت کی خدمات کا اعتراف کرتا ہے مگرکیا یہ عمل حقیقی انصاف کا متبادل ہو سکتا ہے؟ ذوالفقارعلی بھٹوکو اس سال 23 مارچ کو بعد از مرگ ’’ نشانِ پاکستان‘‘ سے نوازا جانا، ان کے سیاسی سفرکا ایک باضابطہ اعتراف ضرور ہے لیکن اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے ان کے دورِ حکومت اور اس کے اثرات سے کچھ سیکھا ہے؟ کیا ہم نے اس تاریخ سے کچھ سبق حاصل کیا ہے یا ہم صرف ماضی کی شخصیات کو ایوارڈ دے کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں؟

بھٹو صاحب پاکستانی سیاست کی ایک نمایاں شخصیت تھے جنھوں نے عوامی سیاست کو فروغ دیا اور کچھ ایسے اقدامات کیے جنھوں نے ملک کے سیاسی اور اقتصادی منظر نامے پرگہرا اثر چھوڑا۔ ان کے حامی انھیں عوامی حقوق کے علمبردارکے طور پر دیکھتے ہیں جب کہ ناقدین ان کی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی پر سوال اٹھاتے رہے ہیں۔

وہ ایک متحرک سیاسی رہنما تھے لیکن ان کے طرزِ سیاست پر اختلافِ رائے موجود ہے، جو آج بھی جاری ہے۔ تاہم ان کی حکومت کے اختتام اور بعد میں پیش آنے والے واقعات نے پاکستانی تاریخ میں ایک اہم باب رقم کیا جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں کئی رہنماؤں کو پہلے متنازع بنایا گیا، پھر دہائیوں بعد ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ بھٹو صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ انھیں ایک مقدمے کے نتیجے میں سزائے موت دی گئی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس فیصلے پر کئی حلقوں میں سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

آج جب انھیں بعد از مرگ سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا گیا ہے تو یہ ایک اہم موقع ضرور ہے مگر اس سے ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کے اعترافات ماضی کی غلطیوں کا حقیقی ازالہ کر سکتے ہیں؟ کیا صرف ایک سرکاری اعزاز دینے سے انصاف کے تقاضے پورے ہوجاتے ہیں یا حقیقی انصاف کا مطلب کچھ اور ہے؟

پاکستان میں کئی دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام عوامی مسائل اور جمہوری جدوجہد جاری رہی ہے۔ مختلف حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن عام آدمی کے مسائل آج بھی کم و بیش وہی ہیں۔

سندھ میں پانی کے مسائل بلوچستان میں لاپتہ افراد کی گمشدگی خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں محرومی کے احساس جیسے معاملات آج بھی جوں کے توں ہیں۔ جب لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو انھیں بعض اوقات ریاست مخالف عناصر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں بھی ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے محض رسمی ایوارڈز کے ذریعے اعترافِ جرم کیا جاتا رہے گا؟

جمہوری حقوق کی بات کرنے والے صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے اور ریاستی جبر پر سوال اٹھانے والے آج بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ کیا ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ہے یا ہم اب بھی وہی طرزِ عمل دہرا رہے ہیں جس پر کئی بار تاریخ میں نظرثانی کی جا چکی ہے؟ بھٹو صاحب کو ’’ نشانِ پاکستان‘‘ دینا ایک اہم قدم ضرور ہے لیکن کیا اس سے عام شہریوں کو کوئی عملی فائدہ پہنچے گا؟ کیا اس سے بلوچستان میں برسوں سے اپنے لاپتہ پیاروں کا انتظار کرنے والی ماؤں کے آنسو خشک ہوں گے؟ کیا اس سے وہ مزدور خوشحال ہو جائے گا جو دن رات محنت کے باوجود دو وقت کی روٹی کے لیے ترستا ہے؟

اگر ہم پاکستانی سیاست کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اقتدار ہمیشہ مخصوص حلقوں تک محدود رہا ہے۔ وہی جاگیردار، سرمایہ دار اور بااثر خاندان آج بھی سیاست پر غالب ہیں جن کے خلاف مختلف ادوار میں آواز اٹھائی جاتی رہی ہے، اگر ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچنا ہے تو ضروری ہے کہ جمہوری اقدار کو مضبوط کیا جائے عوامی مسائل کو عملی طور پر حل کیا جائے اور انصاف کے نظام کو مضبوط بنایا جائے، اگر ایسا نہ ہوا تو تاریخ خود کو دہراتی رہے گی اور ایک دن وہی لوگ جو آج دبائے جا رہے ہیں مستقبل میں ایوارڈز کے حقدار قرار دیے جائیں گے، لیکن تب شاید وہ خود یا ان کے پیارے اس دنیا میں نہ ہوں۔

ایوارڈ دینا اور تقاریب منعقد کرنا ایک علامتی قدم ہو سکتا ہے لیکن اگر عملی اقدامات نہ کیے جائیں تو یہ صرف ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جائے گا، اگر ماضی کی قربانیوں کو حقیقی معنوں میں تسلیم کرنا ہے تو ضروری ہے کہ عوام کے حقوق کو اولین ترجیح دی جائے قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے اور اختلافِ رائے کو دبانے کے بجائے اسے جمہوری عمل کا حصہ سمجھا جائے۔ ورنہ یہ سوال ہمیشہ کے لیے قائم رہے گا کہ آیا ہماری ریاست کو حقیقی انصاف کی فکر ہے یا صرف وقت گزرنے کے بعد رسمی اعترافات کرنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم صرف ماضی کے رہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کر کے اپنی ذمے داری پوری سمجھتے ہیں یا ہم حقیقی معنوں میں ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہوں؟ اگر اس سمت میں عملی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ایوارڈز اور اعترافات محض ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جائیں گے جب کہ عوام کے حقیقی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہیں یا صرف وقت کے ساتھ اپنے رہنماؤں کو یاد کر کے رسمی ذمے داری پوری کرنا چاہتے ہیں؟

یہ بحث صرف بھٹو تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے رہنما گزرے ہیں جنھیں ان کے وقت میں پذیرائی نہ ملی لیکن بعد میں ان کے افکار اور نظریات کو تسلیم کیا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم ہمیشہ یہی رویہ اپناتے رہیں گے؟ پہلے کسی کو اختلافِ رائے کی بنیاد پر دبائیں گے اور پھر کئی دہائیوں بعد انھیں اعزاز دے کر اپنی غلطیوں کو ماضی کا قصہ بنا دیں گے؟ کیا ہم نے واقعی ایک بہتر نظام کے قیام کے لیے کچھ سیکھا ہے یا ہم اب بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں؟

اگر واقعی ہم اپنی تاریخ سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف ایوارڈ دینے کے بجائے عملی اقدامات پر توجہ دینا ہوگی۔ عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنا ہوگا، عدلیہ اور قانون کے نظام کو آزاد اور غیرجانبدار بنانا ہوگا اختلافِ رائے کو دبانے کے بجائے اسے سیاسی و سماجی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ جب تک ہم یہ بنیادی تبدیلیاں نہیں لاتے تب تک نہ تو ماضی کے رہنماؤں کی قربانیوں کا حقیقی معنوں میں اعتراف ممکن ہوگا اور نہ ہی مستقبل میں انصاف کا کوئی واضح راستہ نکل سکے گا۔

ہمیں اب ایوارڈز سے آگے سوچنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جو لوگ آج ظلم جبر اور ناانصافی کے خلاف لڑ رہے ہیں وہی کل کے ہیرو ہیں۔ اور ہمیں ان کی قدر آج کرنی ہوگی نہ کہ کئی دہائیوں بعد جب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ تاریخ کے ماتھے پر تمغے سجانے کے بجائے آج کے ہیروز کے ہاتھ میں انصاف تھمانا ہوگا۔ یہی حقیقی خراج تحسین ہوگا اور یہی ایک بہتر اور منصفانہ پاکستان کی طرف پہلا قدم بھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرنا ہوگا تاریخ میں کہ کیا ہم ہے کہ کیا کیا ہم نے کے بجائے نے والے ماضی کی رہے ہیں ا ج بھی کیا اس کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں نئی تاریخ رقم، 100 انڈیکس بلند ترین سطح پر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے نئے مالی سال کے دوسرے روز بھی شاندار تیزی کا مظاہرہ کیا اور 100 انڈیکس نے ایک لاکھ 30 ہزار پوائنٹس کی تاریخی حد عبور کر لی۔

صرف چار دنوں میں انڈیکس میں سوا آٹھ ہزار پوائنٹس کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو مارکیٹ کی غیر معمولی رفتار اور سرمایہ کاروں کے بلند اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔

مارکیٹ میں مسلسل تیسرے دن ایک ارب سے زائد شیئرز کے سودے ہوئے، جب کہ کاروبار کے دوران انڈیکس نے ایک لاکھ 30 ہزار 545 پوائنٹس کا نیا ریکارڈ بھی قائم کیا۔

سرمایہ کاروں کی بڑھتی دلچسپی اور مثبت رجحان کی بڑی وجوہات میں حالیہ بجٹ کی منظوری، آئی ایم ایف کی زرمبادلہ سے متعلق شرائط کی تکمیل، ٹیرف پر مذاکرات کے لیے پاکستانی ٹیم کی امریکہ میں موجودگی اور ملک میں مہنگائی کی شرح کا نو سال کی کم ترین سطح پر آ جانا شامل ہیں۔

ان عوامل نے سرمایہ کاری کے ماحول کو مستحکم کیا ہے اور ملکی معیشت کے بارے میں امید افزا تاثر کو تقویت دی ہے، جس کا براہِ راست اثر پاکستان اسٹاک مارکیٹ پر نظر آ رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شہادتِ امام حسینؓ کا پیغام
  • پانچ جولائی ایک تاریخ
  • غزہ میں بچوں کیخلاف لڑی گئی انسانی تاریخ کی پہلی جنگ
  • غزہ میں بچوں کے خلاف لڑی گئی انسانی تاریخ کی پہلی جنگ
  • نئی آئی فون 17 سیریز کے لانچ کی تاریخ اور قیمت سامنے آگئی
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں نئی تاریخ رقم، 100 انڈیکس بلند ترین سطح پر
  • ورک فرام ہوم کی مقبولیت میں کمی کا حقیقی ذمہ دار کون؟
  • ایشیا کپ 2025؛ پاکستان اور بھارت کا ٹاکرا کس دن ہوگا؟ تاریخ سامنے آگئی
  • کے ٹو بیس کیمپ کا تاریخی ٹینٹ میوزیم کا حصہ بن گیا
  • کراچی کے ساتھ ظلم کی تاریخ