پنجاب میں جدید ٹرانسپورٹ کا منصوبہ؛ الیکٹرک بسیں صوبے بھر میں دوڑیں گی
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
لاہور:
پنجاب میں جدید ٹرانسپورٹ کے بڑے منصوبے کے تحت الیکٹرک بسیں صوبے بھر میں دوڑیں گی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیر صدارت محکمہ ٹرانسپورٹ سے متعلق خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں ای بس پراجیکٹ سمیت مختلف ٹرانسپورٹ منصوبوں پر پیشرفت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
مریم نواز نے جنوبی پنجاب اور دُوردراز اضلاع کو ترجیحی بنیادوں پر ای بسیں فراہم کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ہر نئی سہولت صرف بڑے شہروں کو دینا اب ماضی کی بات ہے، ہم دیہات کو بھی بڑے شہروں کے برابر لائیں گے۔
انہوں نے حکم دیا کہ پہلے مرحلے میں 24 اضلاع کو 240 ای بسیں دی جائیں جب کہ لاہور، فیصل آباد، ملتان، بہاولپور اور راولپنڈی کے لیے اگست سے اکتوبر کے دوران 500 ای بسیں فراہم کی جائیں گی۔ مزید 600 ای بسیں نومبر سے دسمبر تک پنجاب کے مختلف علاقوں میں پہنچائی جائیں گی۔
پنجاب کلین ایئر پروگرام کے تحت لاہور، قصور، شیخوپورہ اور ننکانہ کو 400 ای بسیں فراہم کی جائیں گی تاکہ ماحولیاتی بہتری کے ساتھ سفری سہولیات بھی فراہم کی جا سکیں۔
گجرانوالہ بی آر ٹی منصوبے پر بھی اجلاس میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ مریم نواز نے ہدایت دی کہ گجرانوالہ بی آر ٹی کو پورے شہر اور مضافاتی علاقوں سے منسلک کرنے کے لیے 80 فیڈر بسیں چلائی جائیں۔
راہوالی سے ایمن آباد تک 22 کلومیٹر طویل بی آر ٹی سسٹم میں 28 اسٹیشن بنائے جائیں گے جب کہ گکھڑ منڈی تک توسیع کی تجویز پر بھی غور کیا گیا۔ ہر 8 منٹ بعد دونوں سمتوں میں بس کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس منصوبے کے لیے 4 الیکٹرک بس ڈپو بھی قائم کیے جائیں گے اور روٹ پر ٹریفک کنٹرول کے لیے سمارٹ سلوشنز استعمال کیے جائیں گے۔
فیصل آباد میں اورنج لائن اور ریڈ لائن منصوبوں پر بھی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ ریڈ لائن 23.
اورنج لائن 29 کلومیٹر پر مشتمل ہو گی اور 21 اسٹیشن پر ایک لاکھ 11 ہزار سے زائد مسافر سفر کر سکیں گے۔ مریم نواز نے ہدایت دی کہ فیصل آباد انڈسٹریل زون فیڈمک سے سلامی چوک تک کا روٹ بھی شامل کیا جائے۔
وزیراعلیٰ نے محکمہ ٹرانسپورٹ کو تمام عوامی فلاحی منصوبے بلا تاخیر شروع کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ بسوں کے روٹس عوام کی آمدورفت کو مدنظر رکھ کر مقرر کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ عوامی ضروریات کا صحیح تعین کر کے وسائل فراہم کیے جائیں، کیونکہ تمام اضلاع ان کے لیے برابر ہیں اور ترقی کے سفر میں ہر علاقے کو یکساں سہولتیں ملنی چاہییں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مریم نواز کیے جائیں فراہم کی کے لیے
پڑھیں:
امن مسلط کرنے کا منصوبہ
اسلام ٹائمز: اسرائیل کو اس فورس کی موجودگی کے ذریعے تنازعے کے بین الاقوامی ہونے اور اسکے فیصلہ سازی اور کنٹرول کے دائرے کے محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ طے نہیں ہوا ہے کہ کون سے ممالک اس فورس میں حصہ لیں گے، جبکہ عرب ممالک نے اس فورس میں اپنی شرکت کو غزہ میں فورس کے مینڈیٹ کی نوعیت سے جوڑا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو ممالک شرکت کرینگے، وہ حماس کے ساتھ تصادم کے اصول کی مخالفت کریں گے اور چاہیں گے کہ یہ مشن امن قائم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے، نہ کہ "امن مسلط کرنے کے لیے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے چند گھنٹے بعد کہ غزہ میں بہت جلد بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کی جائے گی، اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں حماس کی تمام سرنگوں کو "آخری سرنگ تک" تباہ اور ان کا صفایا کر دیں۔ کاٹز نے اپنے X پلیٹ فارم اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں کہا: "اگر سرنگیں نہیں ہیں تو حماس نہیں ہوگی۔“ اسرائیل حماس کو غیر مسلح کرکے اور اس کے سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرکے اسے شکست دینا چاہتا ہے۔ یعنی اسرائیل وہ کام کرنا چاہتا ہے، جو وہ دو سال کی تباہ کن جنگ کے دوران کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کاٹز کا یہ بیان غزہ کی پٹی میں ایک "بین الاقوامی انفورسمنٹ فورس" کے قیام کی امریکی تجویز اور ٹرمپ کے اس اعلان کی روشنی میں آیا ہے کہ "یہ کام بہت جلد ہو جائے گا۔"
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیلی فوج نے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز سے قبل، زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے غزہ کی پٹی میں اپنا کام تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیل دوسرے مرحلے میں جانے سے پہلے غزہ میں باقی تمام لاشوں کی بازیابی پر اصرار کرتا ہے اور 2027ء کے آخر تک غزہ میں کم از کم دو سال کے لیے بین الاقوامی افواج کی تعیناتی بھی چاہتا ہے۔ بین الاقوامی فورس کے اس امریکی منصوبے کے تحت اس فورس کے دائرہء مسئولیت میں اسرائیل اور مصر کے ساتھ غزہ کی سرحدوں کو محفوظ بنانا، شہریوں اور انسانی راہداریوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کے ساتھ تربیت اور شراکت داری اور غزہ کی پٹی کو غیر مسلح کرکے سلامتی کے ماحول کو مستحکم کرنا، بشمول فوجی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کو روکنا اور مستقل طور پر مسلح گروپوں کو تباہ کرنا شامل ہے۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر حماس رضاکارانہ طور پر خود کو غیر مسلح نہیں کرتی تو یہ کام بین الاقوامی فورس کرے گی، لیکن اسرائیل کو یقین نہیں ہے کہ یہ کام بین الاقوامی طاقت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ کاٹز کے بیان سے پہلے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا ہدف "یا تو بین الاقوامی طاقت کے ذریعے آسان طریقے سے حاصل کیا جائے گا، یا پھر اسرائیل کے ذریعے مشکل راستے سے۔" دوسری جانب اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کی جمعرات کی شام ہونے والی میٹنگ سے "یڈیوٹ احرونوت" اخبار کی طرف سے شائع ہونے والے اقتباسات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نیتن یاہو غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے لیے "یلو زون" میں ایک ماڈل سٹی بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جس کا مقصد انہیں حماس کے جنگجوؤں سے الگ کرنا ہے۔
دریں اثناء، اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال ضمیر نے رفح سرنگوں میں پھنسے حماس کے جنگجوؤں کے حوالے سے کسی بھی "ڈیل" کو مسترد کر دیا ہے اور تمام مقتول قیدیوں کی لاشوں کی واپسی سے پہلے حماس کے ساتھ معاہدے کے اگلے مرحلے پر آگے نہ بڑھنے اور حماس کے مکمل طور پر غیر مسلح ہونے سے پہلے پٹی کی تعمیر نو کی اجازت نہ دینے کی سفارش کی ہے۔ ضمیر نے کابینہ کے اجلاس میں حماس کے جنگجوؤں کے حوالے سے کہا: "یا تو وہ ہتھیار ڈال دیں یا ہم انہیں ختم کر دیں گے۔ بحث کے دوران وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور وزراء کے درمیان اس وقت تنازعہ پیدا ہوا، جب انہوں نے غزہ کی پٹی کے اسرائیلی زیر کنٹرول علاقے میں ایک "ماڈل سٹی" قائم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کا مقصد حماس کو آبادی سے الگ کرنا تھا۔
نیتن یاہو کے اس منصوبے کی اس کی کئی وزراء نے مخالفت کی۔ سائنس کے وزیر گیلا گیملیل نے کہا، "یہ خطرناک ہے۔" وزراء نے مطالبہ کیا کہ اس شہر کو سرحد کے اس طرف اسرائیل کے زیر کنٹرول نہ بنایا جائے۔ نیتن یاہو نے سیشن میں یہ بھی انکشاف کیا کہ منصوبہ بند بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس پہلے المواسی کے علاقے میں داخل ہوگی، جو اسرائیلی کنٹرول میں نہیں ہے۔ اسرائیل اب تک عالمی طاقت کے ساتھ محتاط انداز میں نمٹ رہا ہے، نہ اس کا خیرمقدم کر رہا ہے اور نہ ہی اسے مسترد کر رہا ہے۔ اگرچہ مجوزہ فورس کی تشکیل کی تفصیلات اس کے مطالبات کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں، لیکن اس پر تحفظات بھی ہیں۔
اسرائیل نہیں چاہتا کہ یہ فورس سلامتی کونسل کے ذریعے تشکیل دی جائے، وہ فلسطینی اتھارٹی کی موجودگی اور ترک افواج کی ممکنہ موجودگی کو بھی مسترد کرتا ہے، تاہم فلسطینی پولیس فورس کی موجودگی سے اتفاق کرتا ہے۔ اسرائیل کو اس فورس کی موجودگی کے ذریعے تنازعے کے بین الاقوامی ہونے اور اس کے فیصلہ سازی اور کنٹرول کے دائرے کے محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ طے نہیں ہوا ہے کہ کون سے ممالک اس فورس میں حصہ لیں گے، جبکہ عرب ممالک نے اس فورس میں اپنی شرکت کو غزہ میں فورس کے مینڈیٹ کی نوعیت سے جوڑا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو ممالک شرکت کریں گے، وہ حماس کے ساتھ تصادم کے اصول کی مخالفت کریں گے اور چاہیں گے کہ یہ مشن امن قائم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے، نہ کہ "امن مسلط کرنے کے لیے۔