پاکستانی فلم و ڈرامہ انڈسٹری کی معروف اداکارہ مہوش حیات نے اللہ تعالی سے اپنے روحانی تعلق کو اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ قرار دے دیا۔

مہوش حیات نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں اپنی فنی زندگی، ڈرامہ ’’ڈایان‘‘ میں واپسی اور روحانی سفر کے بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بہت کم عمری میں اللہ تعالیٰ سے ایک گہرا رشتہ قائم کر لیا تھا جو آج تک ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے۔

مہوش کا کہنا تھا کہ یہ تعلق ان کے لیے ہمیشہ حوصلہ، سکون اور رہنمائی کا ذریعہ رہا ہے۔ وہ خاموشی میں، شکرگزاری کے لمحوں میں یا مشکل وقت میں براہ راست اللہ سے دل کی بات کرتی ہیں۔

ان کے مطابق اللہ ہی وہ ذات ہے جو انسان کو مکمل طور پر جانتی ہے، اور یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ وہ اس ربط کو محسوس کر سکتی ہیں۔

مہوش حیات نے شوبز میں اپنے سفر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کئی فلمیں کیں اور ایک لمبے عرصے بعد ڈرامہ ڈائن سے ڈراموں میں واپسی کی ہے جو ناظرین میں مقبول ہورہا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مہوش حیات

پڑھیں:

زندہ دلی ضروری ہے

زندگی نشیب وفراز کا نام ہے۔ کبھی خوشی کبھی غم، کبھی دھوپ کبھی چھاؤں، کبھی ہنسی تو کبھی آنسو۔ یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ نہ غم دائمی ہے اور نہ خوشی ہمیشہ اور  ہمیں نہیں  پتا اگلے موڑ پر زندگی ہمارے لیے کیا لا رہی ہے، ہر تکلیف و پریشانی سے پاک آرام و مطمئن زندگی موجودہ نفسا نفسی کے دور میں اب خواب بن کر رہ گئی ہے۔

خواتین کی ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی سطح کی ذہنی الجھنوں کا شکارہیں، جس کی بنا پر ذہنی سکون کے لیے خواب آور ادویات اور مختلف چیزوں کا استعمال بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

یہ درست ہے کہ عورت صنف نازک ہے، مگر بعض پہلوؤں میں وہ مرد سے زیادہ جرأت مند اور باحوصلہ دکھائی دیتی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عام انسان بھی ہے۔ دکھ تکلیف مصائب و پریشانیاں اس کے اعصاب پر بالکل ایسے ہی حملہ آور ہوتی ہیں، جیسے کسی مرد پر۔ مگر بعض خواتین زندگی کی تلخیاں سہتے سہتے ہمت و حوصلہ ہار بیٹھتی ہیں اور شدید دباؤ اور نفیساتی الجھنوں کا شکار ہو کر ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔

ذہنی دباؤ اور نفیساتی الجھنیں ایک طرح کا انتہائی سنگین اور خطرناک مرض ہے، جو آگے چل کر  ڈپریشن میں تبدیل ہو جاتا ہے، سخت ذہنی ہیجان اور دباؤ انسان کو بالکل اسی طرح چاٹ جاتا ہے، جس طرح دیمک لکڑی کو۔ اس کا بروقت اور مناسب علاج بے حد ضروری ہے، مگر  تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اول تو اسے مرض سمجھا ہی نہیں جاتا اور اگر سمجھا بھی جائے تو  سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

سنگین معاشی مسائل، شوہر و سسرال والوں کی بے اعتنائی، بچوں کے گمبھیر مسائل یا پھر کوئی اور ذہنی پریشانی خواتین کو ایک مستقل ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیتی ہے اور اس مرض کی بروقت آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ڈپریشن جیسے خطرناک مرض کا شکار ہو جاتی ہیں۔

ایسی اداسی، جس میں مبتلا مایوسی و ناامید فرد دنیا کی صعوبتوں سے خوف زدہ اور زندگی سے بے زار ہو جاتا ہے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم متوقع  ڈپریشن کی بنا پر خواب آور اور سکون کی ادویات بغیر کسی ڈاکٹر کے  مشورے لینا شروع کر دیتے ہیں، جو آگے چل کر بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے، اگر آپ یہ محسوس کر رہی ہیں کہ ذہنی و نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے آپ کے اندر مایوسی و ناامیدی اور ذہنی انتشار کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے، تو ان طریقوں پر عمل کر کے آپ ذہنی و نفسیاتی دباؤ سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہیں۔

حساس ہونا اچھی بات ہے، مگر حد سے زیادہ حساسیت ہمارے لیے ایک زہر قاتل ہے۔ موجودہ دور کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے دل و دماغ کو مضبوط کر لیں اور یہ اس صورت ممکن ہے، جب ہم لوگوں کے سلوک اور تلخ رویوں پر کڑھنا چھوڑ دیں۔ بے حس ہونا اور بات ہے لیکن آپ کم سے کم فضول اور بے کار لوگوں کی باتوں کو محسوس کرنے کے بہ جائے اپنے اعصاب کو مضبوط بنائیے۔

اپنے لیے وقت  نکالیے۔ اکثر خواتین بچوں اور گھر داری میں الجھ کر اپنی ذات سے بے پروا ہو جاتی ہیں، لگی بندھی زندگی میں مثبت تبدیلی کے لیے اپنے لیے وقت نکالیے، اپنی سہیلیوں سے رابطے کریں اور ہفتے میں کم از کم ایک بار ان سے ملاقات یا بات ضرور کیجیے، اپنے احساسات اور معاملات پر تبادلہ خیال کیجیے، اس سے آپ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گی۔

کہتے ہیں کہ سرخ و نارنجی اور اسی طرح کے تیز و شوخ رنگ ڈپریشن کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر آپ ہلکے رنگ پسند کرتی ہیں یا اپنی عمر کی بنا پر ایسے رنگوں کے استعمال سے کتراتی ہیں تو محض اپنے مزاج میں تبدیلی کی خاطر کبھی ان رنگوں کا استعمال بھی کیجیے۔ صرف ملبوسات میں ہی نہیں، بلکہ گھر کے پردوں، قالین، بیڈ شیٹ وغیرہ میں بھی آپ ان رنگوں کا استعمال کر سکتی ہیں۔

کسی بھی بناوٹ اور مصنوعی پن سے آزاد بچے فرشتوں کا روپ ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ بچے ہمارے ذہنی تناؤ کو کم کرنے میں بہت معاون ہوتے ہیں، لہٰذا کوشش کیجیے کہ بچوں کے ساتھ مگن ہوکر اپنے ذہن کو منفی سوچوں سے پاک کرلیں۔ چہل قدمی کی عادت ہمیں بہت سی بیماریوں سے بچاتی ہے۔ چہل قدمی کرنے سے ہمارے ذہن کے خلیات متحرک ہو جاتے ہیں، جو ذہنی دباؤ کم کرنے کے لیے خاصے مفید ہیں۔ اس لیے صبح یا شام کے وقت چہل قدمی کے لیے وقت نکالیے۔

لوگوں سے الگ تھلک رہ کر اکیلے وقت بِتانا ذہنی بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے ، لہٰذا کوفت کے لمحات میں تنہا کمرے میں بند کر کے خود کو مزید کوفت میں مبتلا  نہ کریں۔ اپنی اس کیفیت کے دوران ایسے لوگوں کے درمیان آ کر بیٹھیے، جو آپ کو پسندیدہ ہوں، اگر ایسے لوگ میسر نہیں تو پھر ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھ جائیے یا پھر اچھی سی کوئی من پسند کتاب پڑھ لیجیے۔

کوئی بھی مریض خصوصاً ڈپریشن میں مبتلا انسان اس وقت تک شفایاب نہیں ہو سکتا، جب تک وہ خود سے ہمت و جرأت نہ کرے۔ اپنے آپ کو  بآور کرائیے کہ آپ اشرف المخلوقات ہیں اور قدرت کی طرف سے ہر مشکل اور پریشانی پر قابو پانے کی صلاحیت ودیعت کی گئی ہے۔ اپنے آپ کو یہ سمجھاتے رہیے کہ مجھے ہر پریشانی کا مقابلہ بہادری سے کرنا ہے اور کرتے رہنا ہے، کیوں کہ یہ زندگی کا حصہ ہے۔ ذہنی اکتاہٹ میں مذہب میں خصوصی دل چسپی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو سکون و طمانیت قرب الٰہی سے میسر ہوتی ہے، وہ دنیا کی کسی بھی چیز سے نہیں حاصل ہوتی۔ پنچ وقت نماز آپ کو یقیناً گہرا سکون اور چین عطا کرے گی۔

یہ تو وہ عوامل تھے جن پر عمل کر کے آپ ڈپریشن سے بچ سکتی ہیں، لیکن اگر پھر بھی آپ اداسی کی دلدل سے نہیں نکل پائیں تو پھر اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچیے اور کسی ماہر نفسیات سے ضرور رجوع کیجیے۔

جب انسان مکمل طور پر ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے تو گویا وہ ہاتھ پیر چھوڑ دیتا ہے۔ منفی سوچیں اور نفسیاتی دباؤ اسے خود کو نقصان پہنچانے یا اپنی جان لینے پر اکسانا شروع کر دیتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں آپ فوراً اپنی کیفیت سے ماہر نفسیات کو آگاہ کیجیے۔ بعض خواتین ماہر نفسیات سے رجوع کرنے سے یہ سوچ کر کتراتی ہیں کہ شاید ماہر نفسیات پاگلوں کے علاج کے لیے ہوتے ہیں، یا یہ کہ ہم کوئی پاگل تھوڑی ہیں۔ یہ سوچ بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح ہمارا جسم بیمار ہوتا ہے ، بالکل اسی طرح ذہن بھی کسی مسئلے سے دوچار ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے ہمیںکسی ذہنی معالج کی مدد کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

کلینیکل کاؤنسلنگ کے طریقہ علاج میں نفسیاتی معالج محض بات چیت کے ذریعے آپ کے ڈپریشن کا علاج کرتا ہے جو آپ کو ڈپریشن سے نجات دلانے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔ خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے جو ہمیں ذہنی بیمار بنا دیتا ہے۔

اپنے اپ کو ڈپریشن کے بھنور سے نکالنے کے لیے خود کو حتی الامکان مصروف رکھنے کی کوشش کیجیے اور زندگی کی قدر کیجیے کیوں کہ یہ خدا  کا بہترین عطیہ ہے، یہ ہمارا ایمان ہے کہ موت کا ایک وقت معین ہے، لہٰذا ذہنی دباؤ میں ہمت و حوصلہ ہار کر وقت سے پہلے زندگی سے منہ موڑ کر زندگی گزارنا کفران نعمت ہے۔ اپنی نعمتوں پر بھروسا کیجیے اور زندگی کے ہر امتحان کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیجیے، جلد ہی ذہنی تناؤ اور ڈپریشن سے چھٹکارا حاصل کرلیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنا ہے، ڈاکٹر محمد طاہر القادری
  • محسن نقوی کے وزیراعظم بننے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، اسحاق ڈار
  • کشمیریوں اور پاکستان کا رشتہ قائم دائم رہے گا،امیر مقام
  • رانا سکندر حیات کی زیر صدارت نواز شریف سنٹر آف ایکسیلنس میں سوئمنگ کلاسز کے آغاز کے حوالے سے جائزہ اجلاس
  • سابقہ اداکارہ اریج فاطمہ نے کینسر میں مبتلا ہوکر کیا محسوس کیا؟
  • زندہ دلی ضروری ہے
  • عرب میڈیا بھی پاکستانی ڈراموں کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا
  • ہلاکتوں پہ گہرا دکھ، 15 روز میں ڈمپرز پر کیمرے اور لائسنس نہ ہوئے تو سخت کارروائی ہوگی، وزیر اعلیٰ سندھ
  • پاکستان کا چین کے علاقے اندرونی منگولیا کے ساتھ تعاون کو گہرا کرنے کے عزم
  • نقالی ویڈیوز بنانے والوں کیلئے سخت پیغام پر ساحر لودھی مہوش حیات کے شکر گزار، آبدیدہ ہوگئے