Juraat:
2025-11-03@10:56:39 GMT

عید پراپنے رویے درست کرنے کا عہد کریں!

اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT

عید پراپنے رویے درست کرنے کا عہد کریں!

ماہ صیام اپنی برکتوں رحمتوں ،بخششوں اور عنایتوں کے ساتھ رخصت ہوگیا

اور آج پاکستان،آزاد اور مقبوضہ کشمیر اور خطے کے دیگر ممالک کے مسلمان روزے رکھ کر اللہ کی رضا حاصل کرنے اور اپنی بخشش کی سعی کرنے کی مہلت ،ہمت اور طاقت ملنے پر رب کریم کے سامنے سجدہ ریز ہوکر نماز دوگانہ ادا کررہے ہیں،

کیا غریب کیا امیر سب ہی اپنے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر رمضان المبارک کے دوران کی ہوئی عبادات کی قبولیت اور سیدھی راہ پر چلتے رہنے کی توفیق بخشنے کی دعائیں کررہے ہیں۔اللہ ہم سب کی دعائیں قبول کرے اور ہمیں پاکستان میں ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی توفیق ادا کرے(آمین)

عید الفطرمسلمانوں کا سب سے بڑا اور اہم ترین مذہبی تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ عید کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سال بھی عیدالفطر کے اس تہوار پر اس ملک کے عوام کی اکثریت کسمپرسی کا شکار ہے اگرچہ حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت مشکلات سے نکل آئی ہے اور اب ترقی کے راستے پربگٹٹ دوڑنے کیلئے تیار ہے لیکن اس ملک کا عام آدمی خواہ اس کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو اب بھی دووقت کی روٹی کے حصول کی دوڑ میں لگا ہوا ہے،

سیاسی افق پر بھی ابھی تک گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں اور ہر ایک کو یہ نظر آرہاہے کہ سب کچھ اچھا اور درست نہیں ہے بلکہ ملک عدم استحکام، اقتصادی مشکلات اور افراتفری کا انتشار ہے، عام انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی استحکام پیداہونے کی دل خوش کن امیدیں دم توڑ چکی ہیں،چور دروازے سے اقتدار میں آنے والے ارباب اختیار کے خود اپنے درمیان دوریاں بڑھتی نظر آرہی ہیں،حکومت کی سب سے بڑی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کھل کر بغاوت کرتی نظر آرہی ہے ،اور کشتی کو ڈوبتا دیکھ کر کسی بھی وقت چھلانگ لگانے کو تیار نظر آرہی ہے ،اور یہاں تک قیاس آرائیاں ہیں کہ خود وزیراعظم اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہے ہیں ا ور برملا اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ میرے ہاتھ پیر باندھ دیے گئے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز کے مابین مفادات کا ٹکراؤاس حد تک بڑھ چکا ہے کہ واپسی کے دروازے بند ہوتے نظرآہے ہیں۔ملک کی اعلیٰ قیادت جسے عوام کیلئے قابل تقلید ہونا چاہئے تھا مخالفین کو نیچا دکھانے کیلئے ہر حربہ استعمال کررہی ہیں۔ اسلام نے دشمن کے ساتھ بھی حسن سلوک کا درس دیا ہے لیکن ہمارے ملک میں عوام کی رہنمائی کے دعویدار ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے اور سیاست میں سکون پیدا کرنے کیلئے اب بھی مخالف کے ساتھ کسی رورعایت کی تجویز بھی سننے کو تیار نہیں ہیں۔پاکستان کی سیاست اور معاشرت نے ایسے زہریلے اور بدترین رویئے شاید ماضی میں کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔

پارلیمانی جمہوری نظام میں سیاسی اختلافات آئین، قانون اور معاشرتی اقدار کے اندر رہ کر ہوتے ہیں،سیاسی قیادت ایک دوسرے سے اختلاف کرتی ہے اور اس میں کوئی بری بات نہیں ہے لیکن سیاسی قیادت ذاتی یا گروہی مفادات کے لیے اختلاف نہیں کرتی بلکہ ایسا ایک دوسرے کی غلط پالیسی کی نشاندہی کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ جہاں غلطی ہے، اسے درست کرلیا جائے۔ جب سیاسی اختلافات منتخب جمہوری اداروں کی حدود سے نکل کر ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور وہاں سے سڑکوں اور بازاروں میں آجائیں،اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان جبخود ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا معلوم ہونے لگیں تو پھر کسی اصلاح کی امید کم ہی رہ جاتی ہے ۔ یہ صورتحال جمہوری نظام کی بقا و استحکام کے لیے ہی نہیں بلکہ ریاست کی سالمیت کے لیے بھی خطرناک ہے اور اسے کسی طور بھی نیک شگوننہیں کہا جاسکتا ہے۔سیاسیات کے اساتذہ ہوں، طالب علم ہوں، شاعر و ادیب ہوں یا سیاستدان ہوں، سب متفق ہیں کہ سیاست میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے، اسی سے مسائل کا حل نکلتا ہے۔ آمریت اسی لیے ناکام ہوتی ہے کہ اس میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہوتی جب کہ جمہوری نظام اسی لیے قائم و دائم ہے کہ یہاں اختلاف رائے کی گنجائش ہوتی ہے، لیکن اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ارباب اختیار نے اختلاف رائے کے معنی دشمنی سمجھ لئے ہیں۔

اس کا مشاہدہ ارباب اختیار کے قول وعمل اور احکامات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے اختلاف رائے کیا ہوتا ہے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اسے سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،آج اس ملک میں جو کچھ ہورہاہے، اس کے ذمے دار ناخواندہ شہری اور دیہاتی عوام نہیں ہیں بلکہ خود کو تعلیم یافتہ، مہذب کہنے والے سیاستدان، سیاسی جماعتوں کے فنانسرز،ہینڈلرز اور سرکاری بابوہیں کیونکہ گزشتہ 75برس سے یہی پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ کہلانے والے لوگ ریاست پاکستان کے اقتدار پر قابض چلے آرہے ہیں ۔ پاکستان پر اگر غیرملکی اور ملکی قرضے ہیں، تو ان ہی کی پالیسیوں کی وجہ سے ہیں، عوام بیچارے تو دن رات کماتے اور سرکار کو ٹیکس دیتے ہیں۔ملک میں پارلیمنٹ بطور ایک سپریم ادارہ ہے جو اپنا وجود رکھتا ہے، جس کے قواعد و ضوابط بھی درج ہیں، سیاسی مسائل کا حل پارلیمنٹ کے ذریعے کرنے کے بجائے انھیں عدالتوں میں لے جانے پر مجبور کرنا پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنے اور پھر عدالتوں سے مبینہ طورپر من پسند فیصلے حاصل کرنے کیلئے عدلیہ کے پر کترنے کیلئے نت نئی آئینی ترامیم کے ذریعے عدلیہ ہی کو تقسیم کرکے عدالتی احکامات کے من پسند معنی نکال کر اس کی بجاآوری کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کرنا آئین کو ہی پامال کرنے کے مترادف ہے اور یہ سب کچھ وہ سیاسی قیادت کرہی ہے جو خود کو پارلیمانی جمہوریت کی محافظ اور قائد اعظم کی مسلم لیگ کا وارث قرار دیتی ہے۔

ملک کی سیاسی قیادت اور عوام کے منتخب نمایندے جو کچھ کررہے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔جو پارلیمان ریاست اور عوام کے مفادات، ملکی سلامتی اور ترقی کے ضامن سمجھے جاتے ہیں، وہاں ہمارے پارلیمنٹیرنز کیا گل کھلا رہے ہیں، وہ سب کچھ ٹی وی اسکرین پر دکھایا جارہا ہے اور اخبارات میں شائع ہورہا ہے،عوام حسرت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ عوام اور ملک کی خدمت کے نام پر پارلیمنٹ میں پہنچنے والے ارکان کس طرح اپنی تنخواہوں میں من چاہا اضافہ کررہے ہیں اور خود کو خادم عوام کہلانے والے آنکھ بند کرکے اس کی توثیق کرتے ہیں یہی نہیں اس سب کچھ کے بعد غریب عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کیلئے فخریہ اعلان کرتے ہیں کہ سرکاری ملازمین اور معمر پنشنرز کی تنخواہوں اور پنشنز میں اضافے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ ملک کے باشعور لوگ ان پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں توان کوغدار اور حکومت مخالف تصور کرلیاجاتاہے.

پاکستان کے پالیسی سازوں، اہل علم، اساتذہ، ادباء و شعرا کو ان خطرناک، نفرت انگیز اورمائنڈلیس سیاسی رویوں کی فکرکرنی چاہیے، ان رویوں کی وجہ سے پاکستان کی نوجوان نسل برباد ہورہی ہے، اب اہل علم کو اس صورت حال پر خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ اصلاح کے لیے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ اگر اس وقت تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تو ریاست کے اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی قیادت کو ہے۔سیاسی بحث مباحثے میں جو زبان استعمال کی جارہی ہے اور جس طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، اس کے نتائج اچھے نہیں نکل سکتے ۔ بظاہر پڑھے لکھے،مہذب نظر آنے والے حضرات جب سیاست، معاشرت یا فقہی معاملات پر بات کرتے ہیں تو ان کے ذہنی افلاس پر رونا آتاہے۔ یہ ذہنی حالت ملک ومعاشرے کی وحدت اور سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ حکمرانوں کے کارناموں کی وجہ سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور اقوام متحدہ جیسے ادارے کے ماہرین ہمیں حقوق انسانی کا احترام کرنے کا درس دے رہے ہیں ،اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اب عالمی برادری میں ہم ایک انتہا پسند معاشرے کے طور پر جانے جا رہے ہیں،جبکہ بھارت جس نے اپنے ملک میں مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ تمام مذاہب اور خود نچلے ذات کے ہندوؤں کی کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں اپنی بہترین سفارتکاری کے ذریعے اس طرح کے الزامات سے صاف بچاہواہے۔اس تشویش ناک صورتحال میں ملک کی سیاسی قیادت اور ریاستی مشینری چلانے والے بابوؤں کو استحقاقی اور مراعاتی کلچر سے باہر آنا ہوگا۔جس ملک کی قیادت شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتی، وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ اخلاقی زوال اور عدم برداشت کے خاتمے کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کے فرسودہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے اقدامات اٹھائے، حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس ملک کو معاشرے کے کو تعلیم یافتہ انتہاپسندوں کی نہیں بلکہ پڑھے لکھے روشن خیال افراد کی ضرورت ہے، انھیں ایسا نصاب پڑھانے کی ضرورت ہے، جسے پڑھ کر ان میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔

آج عیدالفطر کی نماز دوگانہ ادا کرتے ہوئے ہم سب کوخاص طورپر ہمارے سیاستدانوں کو اپنے اس روئیے پر غور کرنا چاہئے اور اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک سے گالم گلوچ اور بہتان تراشی کے کلچر کو ختم کرنے اورملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ہر قیمت پر آئین کی سربلندی کے عزم کااظہار کرنا چاہئے ، اس سلسلے میں علمائے کرام اہم کردار ادا کرسکتے ہیں انھیں عید کی نماز سے پہلے اپنے بیانات میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے اور عوام کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: اختلاف رائے سیاسی قیادت ایک دوسرے کررہے ہیں ضرورت ہے ہیں بلکہ کرنے اور کرتے ہیں رہے ہیں کرنے کی کے ساتھ ملک میں ہیں کہ ملک کی سب کچھ ہے اور اس ملک کے لیے خود کو

پڑھیں:

عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں

اسلام ٹائمز: عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔ تحریر: سید انجم رضا

عراق مشرقِ وسطیٰ کا وہ ملک ہے، جو اپنے تاریخی ورثے، مذہبی مقامات اور جغرافیائی اہمیت کے باعث ہمیشہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے لے کر جدید دور تک، یہ خطہ تہذیبی اور روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اہلِ تشیع کے لیے عراق ایک مقدس سرزمین ہے، جہاں نجفِ اشرف، کربلا، کاظمین اور سامرہ جیسے روحانی مراکز واقع ہیں۔

داعش کے خلاف عراقی عوام کی جدوجہد
گذشتہ دہائی میں عراق کو "داعش" جیسے دہشت گرد گروہ کے فتنے کا سامنا رہا۔ اس دوران عراقی عوام نے بے مثال قربانیاں دے کر اپنی زمین کو دہشت گردی کے چنگل سے آزاد کرایا۔ اس جنگ نے نہ صرف عراق کی داخلی مزاحمت کو مستحکم کیا بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک نئی مثال بھی قائم کی۔ "الحشد الشعبی" (عوامی مزاحمتی فورسز) کی شمولیت اور پارلیمان کی طرف سے انہیں باضابطہ طور پر ریاستی ڈھانچے میں شامل کرنا عراقی خودمختاری کی ایک اہم پیش رفت قرار دی جاتی ہے۔

مقاومت کا نظریہ اور خطے کی سیاست
عراق میں مزاحمت کا نظریہ محض عسکری نہیں بلکہ فکری و سیاسی پہلو رکھتا ہے۔ یہ تصور خطے میں غیر ملکی مداخلت، خاص طور پر امریکی اثر و نفوذ کے ردِعمل کے طور پر سامنے آیا۔ صدام ملعون کے سقوط کے بعد اگرچہ امریکہ نے عراق میں اپنی موجودگی برقرار رکھی، مگر عوامی سطح پر مزاحمتی سوچ نے ہمیشہ بیرونی تسلط کو چیلنج کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر کی بغداد کے ہوائی اڈے پر شہادت نے عراقی خود مختاری کے مسئلے کو مزید اجاگر کیا اور عوامی مزاحمت کو نیا جوش بخشا۔

غزہ و فلسطین کے مسئلے پر عراقی موقف
"طوفان الاقصیٰ" کے بعد جب خطے میں کشیدگی بڑھی تو عراق نے فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عراقی حکومت اور عوام نے کھل کر مذمت کی اور غزہ کے عوام کی حمایت کو انسانی و اسلامی فریضہ  قرار دیا۔ یہ موقف اس امر کا غماز ہے کہ عراقی خارجہ پالیسی میں فلسطین کی آزادی ایک مستقل اصولی حیثیت رکھتی ہے۔

امریکی اثر و رسوخ اور نیا ایلچی
عراق کی سیاست میں امریکی اثر و رسوخ کوئی نیا موضوع نہیں۔ مختلف ادوار میں امریکی حکمتِ عملی نے عراق کے داخلی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ حال ہی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "مارک ساوایا" کو عراق کے لیے خصوصی ایلچی نامزد کیا ہے۔ مارک ساوایا ایک کاروباری شخصیت ہے، جو بھنگ اور جائیداد کے کاروبار سے منسلک ہے اور یہ شخص سفارتی تجربے سے محروم ہے۔ مبصرین کے مطابق اس تقرری کا مقصد عراق کی سیاست میں امریکی مفادات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ یہ اقدام عراق میں امریکی اثر کے نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے زلمئی خلیل زاد نے افغانستان میں اور ٹام باراک نے لبنان میں کیا تھا۔

نومبر کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ علاقائی مفادات کا محور
عراق میں پارلیمانی انتخابات کا اہم مرحلہ ہے، انتخابات کی تارہخ 11 نومبر مقرر کی گئی ہے، انتخابات کے ذریعے ملک کی پارلیمنٹ یعنی مجلس النواب العراقي کے 239  ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ عراق میں سیاسی جماعتوں، مکتبۂ فکر، فرقوں اور علاقائی تقسیم کے تناظر میں یہ ایک اہم مرحلہ ہے اور اس کا اثر حکومت سازی، طاقت کے توازن اور داخلی استحکام پر پڑے گا۔ عراق میں 11 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات داخلی سیاست سے بڑھ کر ایک علاقائی اور بین الاقوامی معاملہ بن چکے ہیں۔ مختلف طاقتیں اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ شیعہ اکثریتی علاقوں میں انتخابی اتحادوں کی کثرت اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ عراق کا سیاسی منظر نامہ متحرک مگر غیر مستحکم ہے۔ اگرچہ مقتدیٰ صدر نے انتخابی عمل سے کنارہ کشی اختیار کی ہے، تاہم مرجعِ عالی قدر آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی نے عوام کو بھرپور شرکت کی تلقین کی ہے، جو عوامی شعور اور جمہوری تسلسل کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔

عراقی سماج کا بیانیہ۔۔۔۔ رواداری اور وحدت
عراقی سماج کی بنیاد قبائلی ڈھانچے پر ضرور ہے، مگر وہاں کے قبائل اور عام عوام مسلکی اختلافات کے باوجود باہمی رواداری کے قائل ہیں۔ اکثریت کے شیعہ ہونے کے باوجود عراقی معاشرہ بین المسالک ہم آہنگی کی مثال پیش کرتا ہے۔ یہی وحدت عراق کے استحکام اور مزاحمت دونوں کی بنیاد ہے۔

عراق کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ استحکام کی امید یا ایک اور آزمائش؟
عراق ایک بار پھر جمہوری امتحان سے گزرنے جا رہا ہے۔ نئی پارلیمنٹ کے انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب ملک سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور عوامی بے زاری کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ اکیس سال گزرنے کے باوجود عراق کا جمہوری سفر اب بھی عدم استحکام اور طاقت کے کھیل سے آزاد نہیں ہوسکا۔

عوامی توقعات اور سیاسی حقیقت
عراقی عوام کے لیے یہ انتخابات محض ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں بلکہ ایک اور امید کی کرن ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں اب وہ چہرے آئیں، جو بدعنوانی، فرقہ واریت اور بیرونی اثرات سے بلند ہو کر عراق کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھائیں۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی سیاسی بساط اب بھی پرانی جماعتوں اور طاقتور گروہوں کے زیرِ اثر ہے، جو انتخابات کے نتائج کے باوجود اقتدار کی تقسیم کے لیے ایک دوسرے سے سودے بازی کرتے ہیں۔

فرقہ واریت اور اتحاد کی سیاست
2003ء میں صدام کے زوال کے بعد سے عراقی سیاست شیعہ، سنی اور کرد جماعتوں کے درمیان اقتدار کی بندربانٹ پر استوار ہے۔ کوئی ایک جماعت اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آتی، اس لیے مخلوط حکومتیں بنتی ہیں، جو جلد ہی اختلافات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس بار بھی یہی خدشہ موجود ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے طویل مذاکرات، الزامات اور مفاہمتوں کا وہی پرانا سلسلہ دہرایا جائے گا۔

احتجاجی تحریکوں کی بازگشت
2019ء کی عوامی تحریک نے عراقی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ نوجوانوں نے فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئے سیاسی کلچر کا مطالبہ کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ جذبہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی لا پاتا ہے یا نہیں۔ عوام میں سیاسی اشرافیہ کے خلاف غم و غصہ تو اب بھی موجود ہے، مگر نظام پر اعتماد بحال ہونا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ انتخابی ٹرن آؤٹ اسی اعتماد کی حقیقی پیمائش ہوگی۔

علاقائی اثرات اور بین الاقوامی توازن
عراق مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں ایران اور امریکا دونوں کے مفادات ٹکراتے ہیں۔ انتخابات کا نتیجہ اس بات کا عندیہ دے گا کہ نئی حکومت کس حد تک بیرونی دباؤ سے آزاد پالیسی اپناتی ہے۔ بغداد کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ایران سے تعلقات قائم رکھتے ہوئے واشنگٹن سے بھی متوازن روابط برقرار رکھ سکے۔۔۔ یعنی ایک خود مختار مگر حقیقت پسند خارجہ پالیسی۔

سلامتی اور تعمیرِ نو
داعش کے خاتمے کے باوجود عراق مکمل طور پر پرامن نہیں۔ سکیورٹی اداروں میں سیاسی اثراندازی، کرپشن اور ملیشیاؤں کا کردار ریاستی عملداری کے لیے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ نئی حکومت سلامتی، روزگار، بجلی، پانی اور صحت جیسے بنیادی مسائل پر توجہ دے۔۔۔۔ وہ وعدے جو ہر انتخابی مہم میں کیے جاتے ہیں، مگر پورے کم ہی ہوتے ہیں۔

امید باقی ہے
عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • پیپلزپارٹی عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے،شرجیل میمن
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • چھٹی جماعت کی طالبہ، ٹیچر رویے سےعاجز ،چوتھی منزل سے کودگئی
  • پنجاب بدستور سموگ کی لپیٹ میں، گوجرانوالہ آلودہ شہروں میں پہلے نمبر پر آگیا
  • پیپلزپارٹی نے کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘پی ٹی آئی
  • یہ تاثر درست نہیں کہ وظیفہ دے کر حکومت مسلط ہوجائے گی، طاہر اشرفی
  • امید ہے سہیل آفریدی میری پیشکش قبول کریں گے، وزیراعظم شہباز شریف