امریکا کا اسرائیل پر تنقید کرنے والے غیر ملکی طلبہ کو ویزا نہ دینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
واشنگٹن: امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند غیر ملکی طلبہ کے لیے ویزا لینا مزید مشکل ہونے والا ہے، کیونکہ امریکی حکومت نے اسٹوڈنٹ اور دیگر اقسام کے ویزوں کے لیے سخت اسکریننگ کا حکم دے دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے تمام امریکی سفارتخانوں کو ویزہ درخواست گزاروں کے سوشل میڈیا مواد کی جانچ کا حکم دیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ فیصلہ امریکا اور اسرائیل پر تنقید کرنے والوں کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے 31 اگست 2024 کے درمیان اسٹوڈنٹ ویزا حاصل کرنے والے تمام افراد کی سوشل میڈیا سرگرمیاں اسکین کی جائیں گی۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی درخواست گزار نے فلسطین کے حق میں یا اسرائیل کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہوگی، تو اس کی ویزا درخواست مسترد ہو سکتی ہے۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت امریکی حکومت یا اسرائیل کے خلاف تنقید کرنے والے غیر ملکی شہریوں کو ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ تمام سفارتخانے ویزا درخواست گزاروں کی تفصیلات فراڈ کی روک تھام کرنے والے یونٹ کو فراہم کریں گے، جو ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی اسکروٹنی کرے گا۔
امریکا میں اسرائیل کے خلاف بڑھتی ہوئی تنقید کے بعد یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اکتوبر 2023 میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے کے بعد، فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والے طلبہ کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا کرنے والے
پڑھیں:
امریکی عدالت کا ٹرمپ کی پاسپورٹ پالیسی پر پابندی کا فیصلہ،وائٹ ہاؤس کا شدید ردعمل
امریکا کی ایک وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کی اس پالیسی پر پابندی عائد کر دی ہے جس کے تحت صرف پیدائش کے وقت درج کی گئی جنس (مرد یا عورت) کو ہی پاسپورٹ میں درج کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:100 سالہ روایت ٹوٹ گئی، NAACP کا امریکی صدر کو مدعو کرنے سے انکار
اس فیصلے کے بعد اب تمام وہ افراد جو تبدیل جنس (transgender)، غیر بائنری (nonbinary) یا انٹرکس ہیں، وہ بھی اپنی شناخت کے مطابق پاسپورٹ حاصل کر سکیں گے۔
اس سے پہلے اپریل میں صرف 6 افراد کے حق میں فیصلہ آیا تھا، لیکن اب جج جولیا کوبک نے اس حکم کو ملک بھر کے تمام متاثرہ افراد کے لیے قابل عمل بنا دیا ہے۔
جج نے اس کیس کو ’کلاس ایکشن‘ قرار دیا ہے، یعنی یہ فیصلہ صرف ان چند افراد کے لیے نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے ہے جو اسی مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔
جج نے کہا کہ حکومت کی یہ پالیسی مساوی حقوق کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ اس سے ان افراد کی شناخت، آزادی اور مساوی قانونی تحفظ پر قدغن لگتی ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ حکومت یہ واضح نہیں کر سکی کہ اس طرح کی پابندی کسی جائز سرکاری مفاد کے لیے ضروری تھی۔
امریکی سول آزادیوں کی تنظیم (ACLU) نے عدالت کے فیصلے کو سراہا اور کہا کہ یہ انسانی شناخت کے حق اور سفر کی آزادی کا تحفظ کرتا ہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے جج کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ٹرمپ حکومت کے ایجنڈے کے خلاف ہے اور اس میں حیاتیاتی حقیقت کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی عدالت پاسپورٹ پالیسی صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس