WE News:
2025-04-25@10:09:54 GMT

بلوچستان کے 3 بڑے مسائل کون سے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

بلوچستان کے 3 بڑے مسائل کون سے ہیں؟

 رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ بلوچستان یوں تو قدرتی وسائل، معدنیاتی دولت، گہرے گرم سمندر سمیت کئی نعمتوں سے مالا مال ہے مگر اس سب کچھ کے باوجود صوبہ ترقی کے تناسب میں ملک کا سب سے پست صوبہ تصور کیا جاتا ہے۔

صوبے میں بجلی، پانی، گیس جیسی بنیادی سہولیات 21ویں صدی میں بھی ایک خواب کی مانند ہیں جبکہ تعلیم، صحت، روزگار، انفرا سٹرکچر، صنعتیں اور کاشت کاری جیسی اہم ضروریات صرف نام کی حد تک ہیں۔

ستم بالائے ستم صوبے میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال انسانوں سے جینے تک کا بنیادی حق چھین رہی ہے۔ ایسے میں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ صوبے کے 3 ایسے بڑے کون سے مسئلے ہیں جو عوام کی نظر میں سب سے اہم ہیں۔

یہ بھی پڑھیےگورننس کی خرابی کو ریاست سے جوڑنا درست نہیں، وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی

وی نیوز نے اس سوال کے جواب کی تلاش کے لیے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے صوبے کے 3 بڑے مسائل سے متعلق پوچھا تو عوامی حلقوں کی جانب سے کئی اہم مسائل کو اجاگر کیا گیا لیکن ایک مسئلہ ایسا تھا جس پر ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا شخص متفق تھا۔ عوام کے مطابق صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کی بگڑتی صورتحال ہے۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی سید علی شاہ نے کہا کہ امن و امان کی بری صورت حال سے بلوچستان میں معاملات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ آئے روز بدامنی کے واقعات نے تعلیم، صحت اور سماجی زندگی کو مفلوج کردیا ہے جبکہ لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے ذہنوں پر اس ماحول نے کچھ ایسا اثر ڈالا ہے کہ لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ باہر نکلے تو کوئی حادثہ نہ ہو جائے جبکہ والدین بچوں کو پکنک پر بھی نہیں جانے دے رہے ہیں۔ حالیہ شدت پسندی نے جہاں نظام زندگی متاثر کیا ہے وہیں عوام کو خوف میں بھی مبتلا کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیےصورتحال واضح ہے ریاست نے رہنا ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتنی ہے، صدرمملکت آصف زرداری

کوئٹہ کے مقامی تاجر عرفان الحق کے مطابق امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں جس میں سب سے پہلا معاشی عدم استحکام ہے۔ اگر کسی بھی علاقے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو تو تاجر برادری ایسے علاقوں میں انویسٹمنٹ نہیں کرتی۔ جس کی حالیہ مثال یہ ہے کہ صوبہ بلوچستان سے 5 ہزار سے زائد تاجر دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے ہیں۔ ایسے میں اگر تاجر کسی مخصوص علاقے میں انویسٹمنٹ نہیں کریں گے تو وہاں روزگار کے مواقع پیدا ہونا مشکل ہو جائیں گے اور بے روزگاری کے سبب نوجوان منفی سرگرمیوں کی طرف راغب ہوں گے۔ اس کے علاوہ کسی بھی علاقے میں  بدامنی صوبے میں سیاحت کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ اگر سیاح نہ آئیں تو  چھوٹے کاروباری طبقے کے مسائل میں اضافہ ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر صوبے میں امن بحال ہو جائے تو بلوچستان کے آدھے مسائل حال ہوسکتے ہیں۔

عوامی حلقوں نے صوبے کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ بری طرز حکمرانی کو قرار دیا ہے۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی سعدیہ جہانگیر نے کہا کہ  صوبے میں گورننس نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ ملک اور بالخصوص صوبے میں ہونے والے حالیہ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی اور اس کے نتیجے میں ایوانوں میں پہنچنے والے لوگ کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔

سعدیہ جانگیر نے بتایا کہ ہر آنے والی حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے کے سنہرے خواب تو عوام کو دکھاتی ہے لیکن اقتدار کی سیڑھیاں چڑھتے ہی ان دعووں کو بھول جاتی ہے۔

اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو ہر سال اربوں روپے کا بجٹ دیا جاتا ہے لیکن یہ بجٹ نہ جانے کہاں خرچ ہوتا ہے کیونکہ صوبے میں نہ تو بہتر تعلیمی ادارے موجود ہیں اور نہ ہی صحت کی مناسب سہولیات۔ اس کے علاوہ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں موٹر وے جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صوبے میں گورننس جیسی کسی شے کا وجود نہیں۔

سعدیہ جہانگیر نے کہا کہ ماضی میں لوگ بیڈ گورننس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے تھے لیکن نوجوانوں نسل کو اپنے حق کا علم ہے۔ نوجوان کا اعتبار ایوان سے اٹھ گیا ہے تب ہی سب حق چھینے پر یقین رکھتے ہیں۔

صوبے کا تیسرا بڑا مسئلہ بے روز گاری کو قرار دیا ہے۔ لوگوں کا شکوہ ہے کہ صوبے میں بے روزگاری کی شرح ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔

تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ بلوچستان کی آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پر محیط ہے۔ جن میں سے 2023 کے اعداد وشمار کے مطابق 32 فیصد خواندہ ہیں جبکہ باقی نوجوان یا تو ہنر مند ہیں یا تجارت سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے پڑھے لکھے نوجوانوں کی، ان کے لیے سرکار نوکریاں فراہم کرنے میں بُری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ سرکاری محکمے فنڈز کی کمی کے سبب نئی نوکریاں پیدا نہیں کر پا رہے ہیں جبکہ صوبے میں صنعتیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ پڑھے لکھے طبقے کے لیے فری لانسنگ کا آپشن بھی موجود نہیں کیونکہ صوبے کے 50 سے 60 فیصد علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بہتر نہیں۔ ایسے میں یہ پڑھا لکھا طبقہ بے روزگاری کا بوجھ ہی اٹھائے پھرتا ہے۔

 احمد خان نے بتایا کہ دوسری جانب صوبے کے بیشتر نوجوان سرحدی تجارت سے منسلک ہیں لیکن موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے سبب پاک ایران اور پاک افغان سرحد گزشتہ ایک سال سے بند ہے جس کی وجہ سے یہ طبقہ بھی بے روزگار ہوتا جارہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان بلوچستان کے سلگتے مسائل بلوچستان کے مسائل.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان بلوچستان کے مسائل

پڑھیں:

نئی نہروں پر احتجاج: 800 ٹینکرز پھنسنے سے صوبے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کا خدشہ

کراچی(نیوز ڈیسک)سندھ میں نئی نہریں نکالنے کے فیصلے کے خلاف عوامی ردعمل شدت اختیار کر گیا ہے۔ خیرپور کے قریب ببرلو بائی پاس پر وکلا کے دھرنے نے چوتھے روز میں داخل ہو کر ملک کی بین الصوبائی تجارت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ جبکہ صوبے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔

دھرنے کے باعث نیشنل ہائی وے پر ہزاروں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں، جن میں ٹرک، مال بردار گاڑیاں اور مویشیوں سے لدی ٹرانسپورٹ شامل ہے۔ کروڑوں روپے مالیت کا سامان خراب ہونے کے خدشے کے پیش نظر کئی گاڑیاں واپس لوٹ گئیں۔

سندھ کے داخلی راستے پر آلو سے بھرے 250 کنٹینرز پھنسنے سے برآمدات کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ برآمدکنندگان کے مطابق مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کو جانے والے برآمدی آرڈرز تاخیر کا شکار ہو گئے ہیں، جس سے نہ صرف تجارتی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ بھاری مالی نقصان کا بھی خدشہ ہے۔

آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کا کہنا ہے کہ آلو کی تازگی برقرار رکھنے کے لیے ٹمپریچر کنٹرول ضروری ہے، جس کے لیے جنریٹرز درکار ہیں۔ اگر کنٹینرز بروقت بندرگاہ نہ پہنچے تو آلو خراب ہونے کا خطرہ ہے، جس سے ایکسپورٹرز کو 15 لاکھ ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔

وحید احمد نے خبردار کیا کہ اگر ایکسپورٹ آرڈرز منسوخ ہوئے تو اس کا براہِ راست نقصان کسانوں کو بھی ہوگا، جن کی فصلیں ضائع ہو سکتی ہیں۔

انہوں نے سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر کنٹینرز کی بندرگاہوں تک ترسیل یقینی بنائی جائے تاکہ نہ صرف برآمدی آرڈرز بچائے جا سکیں بلکہ ملک کو قیمتی زرمبادلہ کے نقصان سے بھی بچایا جا سکے۔

سکھر، نوشہروفیروز، خیرپور، گھوٹکی اور ڈہرکی سمیت مختلف شہروں میں بھی دھرنے اور احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ڈہرکی میں مظاہرین نے دیگر صوبوں کو سامان کی فراہمی روک دی ہے۔

مظاہرین نے وفاقی حکومت کو 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو مہلت ختم ہونے پر آئندہ کا لائحہ عمل سخت تر ہوگا۔

پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل متاثر، لاڑکانہ اور سکھر میں 800 آئل ٹینکرز پھنس گئے
سندھ میں جاری دھرنوں اور سڑکوں کی بندش کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل شدید متاثر ہو گئی ہے، جس سے نہ صرف اندرون سندھ بلکہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں بھی پیٹرولیم بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (OCAC) کے مطابق لاڑکانہ اور سکھر کے علاقوں میں احتجاج اور روڈ بلاکج کے باعث 800 سے زائد آئل ٹینکرز پھنسے ہوئے ہیں، جو پیٹرول، ڈیزل اور دیگر مصنوعات کی فراہمی کے لیے رواں دواں تھے۔

او سی اے سی نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری سندھ کو ایک ہنگامی خط ارسال کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ متعلقہ ادارے فوری طور پر مداخلت کریں تاکہ ٹینکرز کو بحفاظت روانہ کیا جا سکے اور پیٹرولیم سپلائی چین کو بحال رکھا جا سکے۔

کونسل کا کہنا ہے کہ اگر مظاہروں اور دھرنوں کی یہ صورتحال برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں نہ صرف سندھ بلکہ جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع میں بھی پیٹرول اور ڈیزل کی قلت پیدا ہو سکتی ہے، جس کا براہ راست اثر عوام، ٹرانسپورٹ، صنعت اور زراعت پر پڑے گا۔
مزیدپڑھیں:دوران پرواز جہاز کی چھت گر پڑی، مسافر ہاتھوں سے تھامنے پر مجبور

متعلقہ مضامین

  • جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا دو ایٹمی طاقتوں کو مذاکرات کا مشورہ
  • پاک بھارت جنگ ہوئی تو کسی کا کچھ نہیں بچے گا، خواجہ سعد رفیق
  • پاک بھارت کشیدگی؛ جنگ ہوئی تو کسی کا کچھ نہیں بچے گا: خواجہ سعد رفیق
  • پاک بھارت کشیدگی؛ جنگ ہوئی تو کسی کا کچھ نہیں بچے گا، خواجہ سعد رفیق
  • مائنز اینڈ منرلز ایکٹ میں وسائل کسی اور کو دینے کی شق نہیں، وزیر قانون کے پی
  • جب تک صوبے مضبوط نہیں بنائیں گے ملک ترقی نہیں کر سکتا: ارباب عثمان
  • آپ ہمارے ورکرز کے گھروں پر چھاپے ماریں، اتحاد ایسے نہیں چلتے: فیصل کنڈی 
  • اگر صوبے کو پانی میں حق نہیں ملتا تو ہم سندھ کے ساتھ ہیں، علی امین
  • بلوچستان کو بہتر کرنے کا وقت آگیا ہے، سرفراز بگٹی
  • نئی نہروں پر احتجاج: 800 ٹینکرز پھنسنے سے صوبے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کا خدشہ