موٹاپا کم کرنے کا آسان ترین اور حیران کن نسخہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
موٹاپا کم کرنے کی بات ہو تو ڈائٹنگ اور ورزش وغیرہ کو اہم عوامل خیال کیا جاتا ہے تاہم یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے ماہرین نے اس حوالے سے ایک اور ایسی چیز کی اہمیت اجاگر کی ہے کہ سن کر یقین کرنا مشکل ہو جائے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ موٹاپا کم کرنے کی کوشش کرنے والے شخص کے ڈاکٹر کی آواز کی ٹون اور الفاظ کا چناؤ بھی اس شخص کے لیے موٹاپا کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
شارلٹ البری نامی ماہر کی قیادت میں ماہرین کی ٹیم نے اپنی اس تحقیق میں موٹاپے کے مریض کے ساتھ اس کے فزیشن کی گفتگو اثرات جاننے کی کوشش کی۔ طبی جریدے جرنل اینلز آف انٹرنل میڈیسن میں شائع ہونے والے اس تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ ماہرین نے ڈاکٹر ز اور مریضوں کے مابین ہونے والے 246مکالموں کی ریکارڈنگز حاصل کرکے ان کا تجزیہ کیا اور ان کا متعلقہ مریضوں کے موٹاپا کم ہونے کی شرح کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔
اس تحقیق میں ماہرین نے ڈاکٹرز کی گفتگو کو تین کیٹیگریز ’اچھی خبر، بری خبر اور نیوٹرل‘ میں تقسیم کیا۔ جن ڈاکٹروں نے اپنے مریضوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مثبت رویہ رکھا اور انہیں موٹاپے اور اس سے نجات کے حوالے سے اچھی خبریں سنائیں، ان کے مریض بہت خوش پائے گئے اور ان میں موٹاپا کم ہونے کی شرح بھی زیادہ تھی۔
دوسری طرف جن ڈاکٹروں نے موٹاپے کے متعلق انتہائی منفی گفتگو کی اور اس سے فوری نجات کی اشد ضرورت پر زور دیا، بصورت دیگر بری خبریں اپنے مریض کو سنائیں، ایسے مریضوں میں پریشانی اور ہچکچاہٹ کے جذبات پائے گئے اور ان میں موٹاپا کم ہونے کی شرح بھی کم رہی۔
تیسرے نمبر پر جن ڈاکٹروں نے نیوٹرل گفتگو کی ، انہوں نے موٹاپے کے زیادہ نقصانات گنوائے ، نہ ہی مریضوں کو خوش کن باتیں سنائیں، ان کے مریضوں میں موٹاپا کم ہونے کی شرح بھی بری خبر سنائے جانے والے مریضوں کے لگ بھگ برابر رہی۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو ڈاکٹرز نے اچھی باتیں سنائیں اور زیادہ پریشان کن فقروں سے گریز کیا، ان مریضوں نے زیادہ سیشن جوائن کیے اور موٹاپا کم کرنے میں سنجیدہ نظر آئے۔ ان کے برعکس دوسری دونوں کیٹیگریز کے لوگوں نے ان کی نسبت لگ بھگ 50فیصد کم سیشن جوائن کیے، جس کا اثر ان کے موٹاپا کم ہونے کی شرح پر بھی پڑا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ماہرین نے مریضوں کے اور ان
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔