پنجاب؛ قیدیوں کی سزا معافی، بقیہ سزا کا ریکارڈ آن لائن
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
پنجاب میں قیدیوں کی سزا معافی اور بقیہ سزا کا ریکارڈ آن لائن کردیا گیا۔
سیکرٹری داخلہ پنجاب نور الامین مینگل نے جدید سسٹم کا افتتاح کر دیا۔ سسٹم کے تحت قیدیوں کی سزا میں معافی اور بقیہ سزا کا تمام ریکارڈ آن لائن کر دیا گیا ہے۔ قیدیوں کے اہل خانہ اب ایس ایم ایس کے ذریعے رہائی کی تاریخ کے بارے میں جان سکیں گے۔
محکمہ داخلہ کے جوابی میسج میں گزشتہ 2 معافیوں کی تفصیل اور رہائی کی تاریخ دی جائے گی۔ تمام معلومات صرف ایک میسج پر دستیاب ہیں جس کے اسٹینڈرڈ چارجز پانچ روپے ہیں۔ جیل قوانین کے مطابق قیدیوں کی سزا میں کمی یا معافی کی کئی صورتیں ہیں۔ سرکاری سطح پر معافی کے اعلان کے علاوہ تعلیم، تکنیکی صلاحیت کے حصول اور اچھے کردار پر سزا میں معافی ملتی ہے۔سزا میں ہر معافی کو فوری طور پر قیدی کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جانا ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: عید الفطر پر پنجاب میں قیدیوں کی 3 ماہ کی سزا معاف کرنے کا اعلان
سیکریٹری داخلہ پنجاب کا کہنا ہے کہ اب قیدیوں یا اہل خانہ کو سزا میں معافی کا ریکارڈ حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ قیدیوں کی سزا میں معافی اور رہائی کا تمام ڈیٹا شفاف انداز میں آن لائن کیا گیا ہے۔ جدید سسٹم تیار کیا گیا ہے تاکہ کسی قیدی کو مقررہ سزا سے ایک لمحہ بھی اضافی قید میں نہ رکھا جائے۔ قیدیوں کی سزا میں معافی کا ریکارڈ بروقت اپڈیٹ کرنے کیلئے قواعد و ضوابط جاری کیے ہیں۔
سیکریٹری داخلہ کے مطابق محکمہ داخلہ کے ڈائریکٹوریٹ آف مانیٹرنگ کو ہدایت کی کہ جیلوں میں سرپرائز وزٹ کریں۔ کسی بھی سطح پر قواعد کی خلاف ورزی کی صورت میں سخت ایکشن لیا جائے گا۔ قیدیوں سے متعلق معلومات کے لیے درج ذیل لکھ کر 8070 پر میسج کریں۔
PMIS (Space)(Prisoner's Computer Number)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قیدیوں کی سزا میں سزا میں معافی کا ریکارڈ آن لائن
پڑھیں:
قتلِ ناحق اللہ کے نزدیک ناقابل معافی جرم ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری
تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست کا کہنا ہے کہ مسلمان معاشروں میں قتل و غارت گری میں اضافہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، قاتل در حقیقت بقائے انسانی کے ربانی نظام میں خلل ڈالنے کی ناپاک حرکت کرتا ہے، اپنے غصے قابو میں لائیں اپنی دنیا اور آخرت کو برباد نہ کریں۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مانچسٹر میں علماء، سکالر اور برطانیہ میں خدمت دین کے مشن پر کاربند مبلغین پر مشتمل ایک فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واعظین امت میں یہ شعور اجاگر کریں کہ قتل ناحق جیسے سنگین جرم کے ارتکاب سے بچیں، یہ جرم اللہ اور اس کے رسولؐ کے ہاں ناقابل معافی ہے۔ آپؐ نے فرمایا قاتل جنت کی خوشبو کو بھی نہ سونگھ سکے گا، قاتل درحقیقت بقائے انسانی کے ربانی نظام میں خلل ڈالنے کی ناپاک حرکت کرتا ہے۔ قتل ناحق مسلمان شہری کا ہو یا غیر مسلم شہری کا دونوں اللہ اور اس کے رسولؐ کے ہاں ناقابل قبول اور ناقابل تلافی معافی ہیں۔ انہوں نے مسلم معاشروں میں بالخصوص پاکستان میں قتل و غارت گری کے واقعات میں روز افزوں اضافہ پر کہا کہ یہ سب دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، قتل جیسے سنگین اور قبیح جرم کے مرتکبین اپنی دنیا اور آخرت برباد کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قتل کے مجرم مقتول ہی نہیں اپنے خاندان کے لئے عرصہ حیات تنگ کر دینے کا سبب بنتے ہیں لہٰذا اپنے غصے پر قابو پائیں اور بربادی سے بچیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کو انسانی جان کی حرمت کرہ ارض کی ہر مقدس چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ یہاں تک کہ جب انسانی جان کے ضائع ہونے کا احتمال ہو تو اسلام اپنے حلال و حرام کے پیمانوں کو بھی عارضی طور پر معطل کر دینے کی اجازت دے دیتا ہے، مردار، خون، سور کا گوشت حرام ہے مگر جب انسانی جان بھوک اور فاقوں کے باعث خاتمہ کے قریب ہو تو اسے اجازت ہے کہ وہ اپنی جان بچائے، اسی لئے خودکشی کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ زندگی کی نعمت کو ختم کرے۔
انہوں نے کہا کہ قتل کے مجرمین کے خاندانوں پر کیا بیتتی ہے، کس طرح وسائل مقدمہ بازی اور قانونی رعایتیں حاصل کرنے کیلئے پانی کی طرح بہتے ہیں ان کی اولادوں کی تعلیم و تربیت درہم برہم ہو جاتا ہے اور اس خاندان کی مائیں، بہنیں کس طرح مجبور ہو کر عدالتوں، کچہریوں کے چکر کاٹتی ہیں، اس پر الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر سٹوریز چلنی چاہئیں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور اس سنگین جرم کی روک تھام میں مدد ملے۔ انہوں نے کہا کہ قتل کے مجرمین کو سزا میں کوئی رعایت نہیں ملنی چاہیے، جب قاتل سزا سے بچتا ہے تو انسانی معاشرہ لاتعداد نقائص سے دو چار ہوتا ہے۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کی کم سنی میں ہی دینی خطوط پر تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں تاکہ وہ ایک ذمہ دار اور قانون پسند شہری کی حیثیت سے معاشرے کا حصہ بنیں۔