امریکا اپنی غلطیوں کو درست کرے، چائنا ایسوسی ایشن آف آٹوموبائل مینوفیکچررز
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
امریکا اپنی غلطیوں کو درست کرے، چائنا ایسوسی ایشن آف آٹوموبائل مینوفیکچررز WhatsAppFacebookTwitter 0 4 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چائنا ایسوسی ایشن آف آٹوموبائل مینوفیکچررز نے ایک بیان جاری کیا جس میں امریکی ٹیرف پالیسی پر سخت مخالفت کا اظہار کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے مفادات کے لیے محصولات بڑھانا یکطرفہ پسندی کا ایک ایسا عمل ہے جو ڈبلیو ٹی او کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی کرتا ہے، معمول کے تجارتی نظام کو کمزور کرتا ہے اور عالمی آٹو انڈسٹری کی پیداوار اور سپلائی چین کے استحکام پر اس کا بہت منفی اثر ہو گا۔اس سے گاڑیوں کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا، امریکہ سمیت مختلف ممالک میں صارفین پر اضافی بوجھ پڑے گا اور عالمی معیشت کی بحالی پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ چائنا ایسوسی ایشن آف آٹوموبائل مینوفیکچررز امریکی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ بروقت اپنے غلط طرز عمل کو درست کرے اور مشاورت اور تبادلوں کے ذریعے باہمی فائدہ مند حل تلاش کرے۔
امریکا کے نیو سول لبرٹیز الائنس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو چینی درآمدات پر محصولات عائد کرنے سے روکنے کی کوشش میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے ۔امریکی ریاست فلوریڈا کی وفاقی عدالت میں دائر مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ٹرمپ کے پاس انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ کے تحت بڑے پیمانے پر محصولات عائد کرنے اور یکم فروری کو عائد کئے جانے والے محصولات کا قانونی اختیار نہیں ہے۔معلوم ہوا ہے کہ نیو سول لبرٹیز الائنس (این سی ایل اے) ایک غیر منافع بخش عوامی مفاد کی قانونی تنظیم ہے جس کا قیام 2017 میں ہوا تھا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔
صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔
طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔
ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔
یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔