بھارت: متنازع وقف بل منظور، اب صرف صدر کی توثیق باقی
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اپریل 2025ء) وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی طرف سے مسلم اوقاف سے متعلق قوانین میں ترمیم کے لیے پیش کیا گیا متنازع بل بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں، لوک سبھا اور راجیہ سبھا نے منظور کر لیا۔ جب کہ مسلم گروپوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس اقدام پر احتجاج کیا۔ بل اب صدر دروپدی مرمو کی توثیق کے لیے بھیجا جائے گا اور ان کے دستخط کے ساتھ ہی یہ قانون بن جائے گا۔
بھارت: مخالفت کے باوجود متنازع 'وقف بل‘ لوک سبھا میں منظور
وزیر اعظم نریندر مودی نے وقف (ترمیمی) بل 2025 کی منظوری کی ستائش کی اور اسے ایک "اہم لمحہ" قرار دیا۔
وسیع بحث کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متنازعہ قانون سازی کو منظوری دے دی، راجیہ سبھا نے 13 گھنٹے کی بحث کے بعد جمعرات کو دیر رات اسے پاس کیا۔
(جاری ہے)
اس بل کے حق میں 128 اور مخالفت میں 95 ووٹ ملے، جب کہ لوک سبھا نے ایک دن پہلے ہی اسے 288 حمایتی اور 232 مخالف ووٹوں کے ساتھ منظور کیا تھا۔بھارت میں متنازع وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش، بحث جاری
وزیر اعظم مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں اس بات پر زور دیا کہ اس قانون سے خاص طور پر سماج کے پسماندہ طبقات کو فائدہ پہنچے گا۔
"پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے وقف (ترمیمی) بل کی منظوری سماجی و اقتصادی انصاف، شفافیت اور جامع ترقی کی ہماری اجتماعی جدوجہد میں ایک اہم لمحہ ہے۔ اس سے خاص طور پر ان لوگوں کا فائدہ ہو گا جو طویل عرصے سے حاشیے پر ہیں، جنہیں اپنی آواز بلند کرنے اور موقع دونوں سے محروم رکھا گیا۔"انہوں نے مزید کہا، "اب ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوں گے جہاں فریم ورک سماجی انصاف کے لیے زیادہ جدید اور حساس ہو گا۔
ہم ہر شہری کے وقار کو ترجیح دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس طرح ہم ایک مضبوط، زیادہ جامع اور زیادہ ہمدرد بھارت کی تعمیر کریں گے۔"وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا، "کئی دہائیوں سے، وقف کا نظام شفافیت اور جوابدہی کی کمی کا مترادف تھا۔ اس نے خاص طور پر مسلم خواتین، غریب اور پسماندہ مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔ پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ قانون شفافیت کو فروغ دیں گے اور لوگوں کے حقوق کا بھی تحفظ کریں گے۔
" بل کی سخت مخالفتاس بل کو اپوزیشن انڈیا بلاک کی جماعتوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے اسے "مسلم مخالف" اور "غیر آئینی" قرار دیا۔
متعدد اراکین پارلیمان اور مسلم رہنماؤں نے اس بل کی منظوری کو 'سیاہ دن، افسوس ناک اور مایوس کن' قرار دیا۔ بیشتر مسلم گروپوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ بل تفریقی، سیاسی طور پر محرک اور مودی کی حکمراں جماعت کی طرف سے اقلیتوں کے حقوق کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔
ان کا الزام ہے کہ اس قانون کو کارپوریٹ مفادات کے لیے مسلمانوں کی جائیدادوں پر قبضے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
بل میں سب سے متنازع باتیں کیا ہیں؟اس میں یہ تجویز بھی ہے کہ غیر مسلم ممبران کو مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں شمولیت کے لیے شامل کیا جائے۔
اس مجوزہ قانون سے وقف بورڈوں میں اب غیرمسلموں کی شمولیت کا راستہ کھل جائے گا اور وقف اراضی پر حکومت کے دعوؤں کو تسلیم کرانا آسان ہو جائے گا۔
حکومت کی دلیل ہے کہ ان تبدیلیوں سے تنوع کو فروغ دیتے ہوئے بدعنوانی اور بدانتظامی سے لڑنے میں مدد ملے گی۔ لیکن ناقدین کو خدشہ ہے کہ اس سے ملک کی مسلم اقلیت کے حقوق مزید مجروح ہوں گے اور اسے تاریخی مساجد اور دیگر املاک کو ضبط کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔اپوزیشن کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ جب ہندو مندروں کے ٹرسٹ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے ٹرسٹ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتے ہیں تو وقف اداروں کو غیر مسلموں کو ممبر بنانے کی اجازت کیوں دی جائے؟
اس بل کے باعث ہونے والی سب سے زیادہ متنازعہ تبدیلیوں میں سے ایک ملکیت کے قوانین ہیں، جو تاریخی مساجد، مزارات اور قبرستانوں وغیرہ کو متاثر کر سکتی ہے۔
ملک میں ایسی بہت سی وقف جائیدادیں ہیں جن کے پاس ملکیت کے رسمی دستاویزات نہیں ہیں، کیونکہ وہ کئی دہائیوں اور صدیوں پہلے قانونی ریکارڈ کے بغیر عطیہ کی گئی تھیں۔بنیاد پرست ہندو گروپوں نے ملک کی متعدد مساجد پر دعویٰ کر رکھا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اہم ہندو مندروں کے کھنڈرات پر تعمیر کی گئی ہیں۔ ایسے کئی کیس عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔
مجوزہ قانون کے تحت وقف بورڈ کو ضلعی سطح کے افسر سے جائیداد کے بارے میں وقف کے دعوؤں کی تصدیق کے لیے منظوری لینے کی ضرورت ہو گی اور یہ افسر لازمی طور پر ہندو ہو گا۔
کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے مطابق "وقف (ترمیمی) بل ایک ہتھیار ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو پسماندہ کرنا اور ان کے ذاتی قوانین اور جائیداد کے حقوق غصب کرنا ہے۔
"حالانکہ پارلیمانی بحث کے دوران وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو صرف انتظامیہ کے مقاصد اور اوقاف کو آسانی سے چلانے میں مدد کے لیے شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ وہاں مذہبی معاملات میں مداخلت کے لیے نہیں ہیں۔
سکیورٹی سختمودی کی حکومت کا کہنا ہے کہ بھارت مساوات کے جمہوری اصولوں پر چل رہا ہے اور ملک میں کسی کے ساتھ کوئی تفریق نہیں ہے۔
مسلمان، جو کہ بھارت کی 1.4 بلین آبادی کا 14 فیصد ہیں، ہندو اکثریتی ملک میں سب سے بڑا اقلیتی گروہ ہیں لیکن 2013 کے ایک سرکاری سروے کے مطابق وہ سب سے غریب بھی ہیں۔
دریں اثنا وقف بل کی منظوری کے بعد ملک کے بیشتر حصوں میں سکیورٹی سخت کردی گئی ہے۔ بالخصوص اترپردیش اور دہلی کے مختلف علاقوں میں نیم فوجی دستے گشت کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ مسلم تنظیموں نے اس بل کے خلاف ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے وہ اس 'غیر آئینی' بل کے خلاف اپنے تمام آئینی اور جمہوری حقوق کا استعمال کریں گے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی منظوری جائے گا کے ساتھ کے حقوق کا کہنا کے لیے
پڑھیں:
جموں قتل ِ عام اور الحاقِ کشمیر کے متنازع قانونی پس منظر کا جائزہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251105-03-5
جاوید الرحمن ترابی
برصغیر کی تقسیم ِ ہند 1947ء کے دوران جہاں آزادی کا سورج طلوع ہوا، وہیں برصغیر کے کئی خطوں میں انسانی المیے نے جنم لیا۔ ان میں سب سے المناک سانحہ ریاست جموں و کشمیر کے صوبہ جموں میں اکتوبر۔ نومبر 1947ء کے دوران پیش آیا، جسے تاریخ میں ’’جموں قتل ِ عام‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس المیے میں لاکھوں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے ظلم و درندگی کا نشانہ بنے، اور ریاست کی مسلم اکثریت کو منظم منصوبے کے تحت اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی گئی۔
تاریخی پس ِ منظر: ریاستی ساخت اور تقسیم ِ ہند کا تناظر؛ ریاست جموں و کشمیر 1846ء میں ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت وجود میں آئی، جب برطانوی راج نے یہ خطہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کیا۔ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں تھی، مگر سیاسی و انتظامی طاقت ڈوگرہ ہندو اشرافیہ کے پاس تھی۔ (ڈاکٹر عبد الواحد وانی، Kashmir: Struggle for Freedom, 1989)
تقسیم برصغیر کے وقت جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس، نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد (19 جولائی 1947ء) منظور کی۔ جو مسلمانان جموں و کشمیر اور تقسیم کشمیر کے اصول کے عین مطابق تھی لیکن بھارت نے برطانیہ کی ملی بھگت سے ایک جعلی دستاویز کے ذریعہ کشمیر پر اپنا ناجائز تسلط قائم کرنا چاہا اور کشمیر پر قبضہ کیا جس کے بارے میں پروفیسر الیف الدین ترابی اپنی کتاب ’’مسئلہ کشمیر کی نظریاتی اور آئینی بنیادیں اور کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کا بھارتی دعویٰ‘‘ میں لکھتے ہیں: بھارت کے ساتھ ریاست ِ جموں و کشمیر کے الحاق کی دستاویز (Instrument of Accession) جعلی تھی۔ مہاراجا ہری سنگھ اس وقت جموں سے فرار ہو چکے تھے، اور دستخط شدہ دستاویز کا کوئی اصلی ریکارڈ دستیاب نہیں‘‘۔ (ص 156–155 اور ان کا یہ موقف برطانوی مورخ پروفیسر السٹر لیمب) کی کتاب ’’Kashmir: The Disputed Legacy‘‘ سے بھی تقویت پاتا ہے: 26 اکتوبر 1947ء کی الحاقی دستاویز کبھی اصلی شکل میں موجود نہیں تھی۔ یہ بعد میں بھارت نے گھڑی تاکہ فوجی قبضے کو قانونی رنگ دیا جا سکے‘‘۔ (Lamb, 1994, pp. 42-45) پروفیسر ترابی لکھتے ہیں: ’’یہ اقدام نہ صرف تقسیم ِ ہند کے فارمولے کی خلاف ورزی تھی بلکہ برطانوی نوآبادیاتی اثر کے زیر ِ سایہ تیار کی گئی سیاسی سازش تھی جس کا مقصد کشمیر میں مسلم اکثریت کو حقِ خودارادیت سے محروم کرنا تھا‘‘۔ (ص 158) جموں قتل ِ عام 1947 ایک منظم انسانی المیہ، اکتوبر اور نومبر 1947ء کے دوران ریاست کے مختلف علاقوں، خصوصاً جموں، اکھنور، راجوری، کٹھوعہ، سانبہ اور میرپور میں مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہوا۔
ڈوگرہ فوج، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اکالی دل کے عسکری جتھوں نے مسلمانوں کے گھروں کو نذرِ آتش کیا، عورتوں اور بچوں کو قتل کیا، اور ہزاروں خاندانوں کو پاکستان کی سرحدوں کی طرف بھاگنے پر مجبور کیا۔ جے کے ریڈی (ایڈیٹر، Kashmir Times) کی شہادت کے مطابق: ’’میں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان کی طرف جانے والے مہاجرین پر ڈوگرہ سپاہیوں کی فائرنگ دیکھی۔ جموں کے جس ہوٹل میں میں ٹھیرا تھا، وہاں سے ایک رات میں سینتالیس گاؤں جلتے دیکھے۔ ہر طرف چیخ و پکار اور آگ تھی‘‘۔ (اویس بلال، جموں کے روشن ستارے, ص 41)
پریم ناتھ بزاز لکھتے ہیں: ’’ریاست کے کسی ایک حصے میں نہیں بلکہ پورے جموں میں مسلمانوں کے صفایا کی کوشش کی گئی۔ حکومت ِ ریاست اس منصوبے کی شریک تھی‘‘۔ (Inside Kashmir, 1951, p. 290)
اخبار ’’The Statesman‘‘ (نومبر 1947) کے مطابق: ’’جموں کی مسلمان آبادی تقریباً پانچ لاکھ تھی۔ نومبر کے آخر تک اس کا بڑا حصہ ختم ہو چکا تھا، اور دو لاکھ افراد کا نام و نشان مٹ گیا‘‘۔ 26 اکتوبر 1947ء کے بعد بھارت نے ریاست میں فوجی مداخلت کی اور اسے ’’عارضی الحاق‘‘ قرار دیا۔ اقوامِ متحدہ نے 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کو متنازع خطہ تسلیم کیا، اور سلامتی کونسل کی قرارداد 47 (1948) کے ذریعے کشمیری عوام کے حق ِ خود ارادیت کا وعدہ کیا — جو آج تک پورا نہیں ہو سکا۔
آئینی بحران: بھارت نے ریاستی قبضے کو آئینی رنگ دینے کے لیے آئین میں آرٹیکل 370 شامل کیا، جس کے تحت کشمیر کو محدود خودمختاری ملی۔ مگر 5 اگست 2019ء کو بھارت نے یکطرفہ طور پر اسے بھی ختم کر دیا اور کشمیر کو عملی طور پر ایک جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ 1947 کے بعد سے آج تک کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ ہے جہاں آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق ریاست میں قتل ِ عام، جبری گمشدگیاں، اجتماعی قبریں، اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم عام ہیں۔ (UN OHCHR Report on Kashmir, 2018) بین الاقوامی تحقیق اور قانونی تناظرمیں ڈاکٹر جوزف کوربیل (Danger in Kashmir, 1954) کے مطابق: ’’جموں میں ہونے والا قتل ِ عام ایک منظم ریاستی جرم تھا۔ جس نے جنوبی ایشیا میں دائمی بحران کی بنیاد رکھی‘‘۔
رحمان، جہانگیر اور گردازی (Global Legal Studies Review, 2021): ’’جموں کا قتل ِ عام Genocide Convention (1948) کے آرٹیکل II کے مطابق نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے‘‘۔ ISSI Issue Brief (2023) میں کہا گیا: ’’یہ سانحہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کا سب سے کم یاد رکھا جانے والا مگر سب سے زیادہ منظم نسل کشی کا واقعہ ہے‘‘۔