کراچی سے کتنے افغان واپس بھیجے جا رہے ہیں، حراست میں کتنے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
کراچی سے تقریباً 16 ہزار 138 افغان سٹیزن شپ کارڈز (اے سی سی) رکھنے والوں کی وطن واپسی شروع کا آغاز ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا اے سی کارڈ والے افغانوں کو ملک چھوڑنے کا حکم، افغان سٹیزن کارڈ کیا ہے؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق انتظامیہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے کارروائی شروع کی ہے جس کے دوران اب تک 150 سے زائد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
وفاقی کابینہ کے فیصلے کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی کا منصوبہ (آئی ایف آر پی) یکم نومبر 2023 سے جاری ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے یعنی تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کی تکمیل کے بعد اب وزیر داخلہ نے وزیر اعظم کی ہدایت سے سندھ حکومت کو آگاہ کیا کہ وہ تمام اے سی سی ہولڈرز کو ان کے آبائی ملک میں واپس بھیجیں۔
رضاکارانہ واپسی کی مدت تمام15 فروری سے 31 مارچ 2025 تک افغان شہریوں کی رضاکارانہ واپسی کی مدت ختم ہو چکی ہے اور اب یکم اپریل 2025 سے ’جبری‘ وطن واپسی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: افغان سیٹزن کارڈ والے باشندوں کی واپسی:اب تک کتنے افغان باشندے واپس جاچکے ہیں؟
افغان شہریوں کی وطن واپسی کے لیے مرکزی کیمپ امین ہاؤس سلطان آباد، کیماڑی میں قائم کیا گیا ہے۔
پولیس اور سماجی ورکرز کے اعدادوشماردریں اثنا ڈان کے مطابق ڈی آئی جی جنوبی سید اسد رضا نے بتایا ہے کہ کراچی میں مجموعی طور پر اے سی سی رکھنے والے افغانیوں کی تعداد 16 ہزار 138 ہے جن کی تعداد مشرقی اور مغربی اضلاع میں سب سے زیادہ ہے۔
ڈی آئی جی جنوبی سید اسد رضا کا کہنا ہے کہ اب تک 162 اے سی سی ہولڈرز کو کیمپ میں لایا گیا ہے جبکہ ان میں سے کچھ کو پی او آر (رجسٹریشن کا ثبوت) ہونے پر چھوڑ دیا گیا۔
مزید پڑھیں: مختلف ادوار میں پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد، اب کتنے رہ گئے؟
ڈان کے مطابق دوسری جانب’جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے مہاجرین‘ کی بانی رکن مونیزا کاکڑ ان کے پاس اطلاعات ہیں کہ اب تک شہر کے مختلف علاقوں میں ’کریک ڈاؤن‘ میں 500 سے 600 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
دریں اثنا کراچی کے کچھ سماجی کارکنان نے پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اس کارروائی کی آڑ میں شہر میں قانونی طور پر آباد افغان شہریوں کو بھی تنگ کر رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان انخلا افغان سٹیزن کارڈ افغان شہریوں کی واپسی کراچی کراچی میں افغان شہری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان انخلا افغان سٹیزن کارڈ افغان شہریوں کی واپسی کراچی کراچی میں افغان شہری افغان شہریوں کی وطن واپسی کے مطابق اے سی سی گیا ہے
پڑھیں:
ماحول دوست توانائی کی طرف سفر سے واپسی ناممکن، یو این چیف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے حکومتوں پر نئے موسمیاتی منصوبے جلد از جلد پیش کرنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے ایسے مرحلے میں پہنچ گئی ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں اور معدنی ایندھن کا دور اب اختتام پذیر ہے۔
اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ماحول دوست توانائی کے موضوع پر منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قابل تجدید توانائی پر سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور شمسی و ہوائی توانائی کی قیمتیں معدنی ایندھن کو پیچھے چھوڑ رہی ہیں۔
Tweet URLماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کو روکا نہیں جا سکتا لیکن فی الوقت یہ تبدیلی نہ تو بہت تیزرفتار ہے اور نہ ہی اسے منصفانہ کہا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)
حکومتوں کو چاہیے کہ وہ آئندہ سال برازیل میں ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 30) سے قبل اپنے موسمیاتی منصوبے پیش کریں۔سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ گزشتہ سال ماحول دوست توانائی کے لیے 2 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جو اس عرصہ میں معدنی ایندھن پر ہونے والی سرمایہ کاری سے 800 ارب ڈالر زیادہ تھی۔
قابل تجدید توانائی کا انقلابانتونیو گوتیرش نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کے عالمی ادارے (آئی آر ای این اے) کی فراہم کردہ معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب شمسی توانائی کا حصول معدنی ایندھن سے حاصل ہونے والی توانائی کے مقابلے میں 41 فیصد سستا ہے۔
اسی طرح، ساحل سمندر کے قریب ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی معدنی ایندھن کی توانائی سے 53 فیصد سستی ہے۔اس وقت دنیا بھر میں قابل تجدید توانائی کے حصول کی استعداد معدنی ایندھن کی توانائی کے برابر ہے اور گزشتہ سال تقریباً تمام تر نئی توانائی قابل تجدید ذرائع سے حاصل ہوئی جبکہ ہر براعظم نے معدنی ایندھن کے مقابلے میں کہیں زیادہ قابل تجدید توانائی کو اپنے نظام کا حصہ بنایا۔
ناقابل واپسی پیش رفتسیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ ماحول دوست توانائی اب وعدہ نہیں رہا بلکہ اس نے حقیقت کا روپ دھار لیا ہے۔ اب کوئی حکومت، کوئی صنعت اور کوئی خاص مفاد اسے روک نہیں سکتا۔ یقیناً معدنی ایندھن کا ادارہ اپنی کوشش کرے گا لیکن انہیں ناکامی ہو گی کیونکہ قابل تجدید توانائی کا شعبہ جس قدر ترقی کر چکا ہے وہاں سے واپسی نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی کے دوران صاف توانائی میں خرچ ہونے والے ہر پانچ ڈالر میں سے صرف ایک ڈالر چین کے علاوہ ابھرتی اور ترقی پذیر معیشتوں کو ملا۔ 1.5 ڈگری کے ہدف کو قابل رسائی رکھنے اور دنیا بھر میں تمام لوگوں کی توانائی تک پہنچ کو یقینی بنانے کے لیے 2030 تک یہ مالی معاونت پانچ گنا سے زیادہ بڑھانا ہو گی۔
انتونیو گوتیرش نے دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا کہ وہ آئندہ چند ماہ میں اپنے قومی موسمیاتی منصوبے پیش کریں اور جی 20 ممالک عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری کی حد میں رکھنے سے متعلق اپنے نئے منصوبے ستمبر میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں جمع کروائیں۔
سیکرٹری جنرل نے معدنی ایندھن پر انحصار کے جغرافیائی سیاسی خدشات کے بارے میں بھی بات کی اور یوکرین پر روس کا حملہ ہونے کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معدنی ایندھن آج توانائی کے تحفظ کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے۔
اس کے بجائے، سورج کی روشنی کی قیمت نہیں بڑھ سکتی اور ہوا پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ قابل تجدید توانائی کا مطلب توانائی کا حقیقی تحفظ ہے۔انہوں نے قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کی رفتار تیز کرنے کے لیے چھ اہم اقدامات کی اہمیت کو واضح کیا۔ ان میں پرعزم قومی موسمیاتی منصوبے، جدید گرڈ اور توانائی جمع کرنے کی صلاحیت، بجلی کی بڑھتی طلب کو پائیدار طریقے سے پورا کرنا، کارکنوں اور مقامی لوگوں کی قابل تجدید توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی، ماحول دوست توانائی کی ٹیکنالوجی کی ترسیل کے نظام کو وسعت دینے کے لیے تجارتی اصلاحات اور نئی منڈیوں کے لیے مالی وسائل کی دستیابی شامل ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات لانے، کثیرفریقی ترقیاتی بینکوں کو مضبوط بنانے، ترقی پذیر ممالک کو قرضوں میں سہولت دینے اور موسمیاتی اقدامات کے عوض قرض معاف کرنے جیسے اقدامات کے لیے بھی زور دیا۔