Islam Times:
2025-11-03@07:47:47 GMT

جولانی کی مجبوریاں

اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT

جولانی کی مجبوریاں

اسلام ٹائمز: اسرائیلی حملوں کے بارے میں جولانی حکومت کی خاموشی کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ علاقائی کھلاڑیوں بالخصوص ترکیہ وغیرہ پر انحصار کر رہی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی بالواسطہ حمایت اسے اسرائیل کیخلاف کچھ کرنے سے روکتی ہے۔ اسکے برعکس عوامی مزاحمت روز بروز جولانی حکومت سے مایوس ہو رہی ہے۔ شامی عوام اپنی سرزمین کے دفاع کی خواہش مند ہے، جبکہ جولانی حکومت کا موقف اسکے برعکس ہے۔ اسکے نتیجے میں شام میں داخلی تناؤ اور کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے، جو خطے میں سلامتی کے توازن کو تبدیل کرسکتا ہے۔ تحریر: سید رضی عمادی

صیہونی حکومت نے جولانی حکومت کی خاموشی کے باعث شام پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شام کے کچھ علاقوں میں لوگوں نے خود ہتھیار اٹھائے ہیں اور اس وقت صیہونی فوجیوں کے ساتھ باقاعدہ جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ شام پر اسرائیل کے حملے سے مغربی ایشیا میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور اس سے خطے میں نئے تنازعات اور عدم استحکام پیدا ہوسکتے ہیں۔ شام کے جنوب میں درعا صوبے میں الجبلیہ ڈیم کے قریب حماہ کے فوجی اڈے پر صیہونی حکومت نے شدید فضائی حملے کیے ہیں۔ اسی طرح اس علاقے میں زمینی فوجی کارروائی بھی جاری ہے۔ مقامی ذرائع نے اسرائیلی حکومت کے ڈرون طیاروں کے علاقے کے اوپر سے گزرنے اور فائرنگ کے مناظر کی بھی اطلاع دی ہے۔ ان حملوں میں اب تک درجنوں شامی شہید ہوچکے ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شام کی مختلف فوجی تنصیبات پر صیہونیوں کی فضائی بمباری کے بعد صیہونی فوجی دسیوں بکتربند گاڑیوں میں صوبہ درعا کے شہر "نوی" میں داخل ہونے کے علاوہ الجبلیہ ڈیم کے اطراف میں واقع جنگلوں تک آگے بڑھ گئے ہیں۔ ان حملوں کی مختلف ممالک کی طرف سے مذمت کی جا رہی ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہر دور میں شام کی ارضی سالمیت، قومی وقار اور اقتدار اعلیٰ کی حمایت کی ہے۔ اسما‏عیل بقائی نے دمشق، حماہ، حمص اور درعا صوبوں میں شام کی فوجی اور شہری، سائنسی اور تحقیقاتی مراکز اور تنصیبات پر صیہونیوں کے فضائی اور زمینی حملوں کی شدید الفاظ مین مذمت کی۔

انہوں نے کہا صیہونیوں کے ہاتھوں شام کے سب سے قیمتی اثاثوں کی تباہی کا ذمہ دار ان ممالک کو بھی ٹھہرانا چاہیئے، جنہوں نے ان جرائم کا راستہ ہموار کیا ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران چند ماہ قبل خبردار کرچکا تھا کہ شام میں خلفشار سے صیہونی حکومت غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے غاصبانہ رویہ کو علاقے کے دیگر ممالک تک بھی پھیلا دے گی۔ انہوں نے کہا کہ تہران ماضی کی طرح شام کے عوام کے قومی وقار اور قدیم تمدن اور اس ملک کی ارضی سالمیت کے تحفظ پر زور دیتا ہے اور عالمی برادری بالخصوص علاقے کے ممالک اور اسلامی تعاون تنظیم سے اپیل کرتا ہے کہ صیہونی حکومت کے باغیانہ رویے کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور اسے قانون کی کھلی خلاف ورزی اور دیگر ممالک پر دراندازی کی خاطر ذمہ دار ٹھہرائیں۔

ادھر سعودی خبر رساں ادارے "ایس پی اے" کے مطابق سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری مذمتی بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی قابض فورسز کی کارروائیاں شام اور خطے کی سلامتی و استحکام کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزیاں ہیں، جنہیں یکسر مسترد کرتے ہیں۔ سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں عالمی برادری بالخصوص سلامتی کونسل کے مستقل ارکان پر زور دیا گیا کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں اور شام و خطے میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں پر سنجیدگی سے حقیقی احتسابی عمل کو تیز کریں۔ جولانی حکومت کا کمزور ردعمل اس وقت سب سے اہم مسئلہ ہے۔ بشار اسد کے دور میں جب بھی شام پر اسرائیل کا حملہ ہوتا تو بشار کی فوج دفاعی میزائلوں کے ذریعے ضرور جواب دیتی، لیکن اب اس کے برعکس جولانی حکومت نے صرف لفظی مذمت پر اکتفا کیا ہوا ہے۔

اسرائیل کی مغربی حمایت بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ امریکہ اور مغرب کی حمایت سے اسرائیل نے ہمیشہ استفادہ کیا ہے۔ اسی طرح سلامتی کونسل کی اسرائیل کے خلاف غیر فعال حیثیت سے بھی اس غاصب حکومت نے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ بہرحال اس وقت درعا اور نوئی جیسے علاقوں میں لوگوں نے اپنے طور پر  مسلح ہو کر اسرائیلی فورسز کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ درعا کی مسجدوں سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ عوام اسرائیلی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں۔

اسرائیلی حملوں کے بارے میں جولانی حکومت کی خاموشی کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ علاقائی کھلاڑیوں بالخصوص ترکیہ وغیرہ پر انحصار کر رہی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی بالواسطہ حمایت اسے اسرائیل کے خلاف کچھ کرنے سے روکتی ہے۔ اس کے برعکس عوامی مزاحمت روز بروز جولانی حکومت سے مایوس ہو رہی ہے۔ شامی عوام اپنی سرزمین کے دفاع کی خواہش مند ہے، جبکہ جولانی حکومت کا موقف  اسکے برعکس ہے۔ اس کے نتیجے میں شام میں داخلی تناؤ اور کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے، جو خطے میں سلامتی کے توازن کو تبدیل کرسکتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صیہونی حکومت جولانی حکومت میں اضافہ کے برعکس حکومت نے رہی ہے نے کہا شام کے اور اس

پڑھیں:

ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی

یہودیوں کی پوری تاریخ ظلم و جبر، عیاری مکاری، خود غرضی اور احسان فراموشی سے بھری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بے حد احسانات کیے اور انعام و اکرام کی بارش کی مگر انھوں نے اپنے کرتوتوں سے ثابت کیا کہ یہ کبھی راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں۔ خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کے نزول کے باوجود بھی نافرمان رہے۔

آج کی دنیا میں بھی یہ بدنام ہیں اور کوئی انھیں عزت نہیں دیتا، یہ جس ملک میں بھی رہے اس کی جڑیں کاٹتے رہے۔ یہی کھیل انھوں نے جرمنی میں بھی کھیلا۔

یہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران مغربی ممالک کے مخبر بن گئے اور پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا سبب بنے۔

انھوں نے جرمنی کے ساتھ بھی غداری کی اور جرمنی کو ہرانے کے لیے مغربی ممالک کی خفیہ طرف داری ہی نہیں کی بلکہ جرمنی کی خفیہ معلومات ان تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے لگے تو ہٹلر کو ان کے اس گھناؤنے کردار نے آگ بگولہ کر دیا اور پھر اس نے ان کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔

ہٹلر نے انھیں جو سزا دی وہ یقینا بہت سخت تھی مگر ان کا جرم بھی تو ایسا سخت تھا جو اس سانحہ کا باعث بنا۔ اس سانحے کو آج ’’ ہولوکاسٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد مغربی ممالک نے جرمنی سے غداری اور مغربی ممالک سے وفاداری کرنے کے صلے میں انعام کے طور پر اس بے وطن قوم کو مشرق وسطیٰ میں بسا دیا۔

یہ فلسطینیوں کی سرزمین تھی مگر اسے ان کا وطن قرار دے دیا گیا جو آج اسرائیل کہلاتا ہے۔ اس ظالم قوم کو ایک وطن تو حاصل ہوگیا تھا مگر یہ تو پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے کیونکہ نمک حرامی اور احسان فراموشی ان کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔

گوکہ یہ عربوں کی سرزمین ہے اور مغربی ممالک کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ انھیں یہاں آباد کرتے۔ دراصل پہلی جنگ عظیم میں انھوں نے اسے ترکوں سے چھین لیا تھا لہٰذا انھوں نے اپنی مرضی سے جو کرنا چاہا وہ کیا۔

بہرحال انھوں نے اسرائیل کو قائم کرکے عربوں کے قلب میں خنجر پیوست کر دیا اور انھیں اسرائیل کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھنے کا بندوبست کر لیا اور ان کی یہ حکمت عملی آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔

امریکا نے اسرائیل کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ تمام ہی عرب ممالک اس سے مرعوب ہیں۔ اسرائیل آئے دن عربوں کے خلاف کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہتا ہے مگر وہ اسے جواب دیتے ہوئے کتراتے ہیں کہ کہیں امریکا ان سے ناراض نہ ہو جائے۔

ابھی گزشتہ دنوں پورے دو سال تک غزہ اسرائیل خونی حملوں کی زد میں رہا جس میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو گئے مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی مداخلت کرتا۔ اسرائیل 1967 میں اردن، شام اور مصر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا اور بعد میں شام کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکا ہے۔

مسجد اقصیٰ جیسی مقدس مسجد بھی اس کے قبضے میں ہے۔ وہ ان کا قبضہ چھوڑنے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ اب وہ غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں کو ہڑپ کرکے فلسطینی ریاست کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔

گوکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امریکا بھی مثبت سگنل دے چکا ہے تمام عرب ممالک بھی اس پر متفق ہیں مگر اسرائیل اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

گوکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اب رک چکی ہے اور اب قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جا رہی ہے ایسے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے کے ایک بڑے حصے کو اسرائیل میں شامل کرنے کی قرارداد پاس کر لی ہے۔

اسرائیلی پارلیمنٹ میں سخت گیر یہودیوں کا غلبہ ہے۔ نیتن یاہو اگرچہ ظاہری طور پر ان سخت گیر ممبران کے خلاف ہے مگر اندرونی طور پر وہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے، لگتا ہے اسی کے اشارے پر پہلے سخت گیر عناصر جنگ بندی کو ناکام بناتے رہے اور اب فلسطینی ریاست کا راستہ روکنے کے لیے غیر قانونی یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔

ایسے میں ایک سخت گیر یہودی بزلل جو نیتن یاہو حکومت کا وزیر خزانہ ہے نے عربوں کے خلاف ایک سخت بیان دیا ہے۔ بزلل نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عرب کے ریگستانوں میں اونٹوں پر سواری کرتے رہیں اور ہم سماجی و معاشی ترقی کی منزلیں طے کرتے رہیں گے۔

یہ واقعی ایک سخت بیان ہے جس سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہودی ایک ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہیں جب کہ عرب پہلے بھی ریگستانوں میں اونٹوں پر گھومتے پھرتے تھے اور اب بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔

اس بیان پر سعودی عرب ہی نہیں تمام عرب ممالک نے سخت تنقید کی ہے۔ خود اسرائیل میں بھی بزلل کے اس بیان پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ نیتن یاہو نے بھی اپنے وزیر کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کی ہے چنانچہ بزلل کو سعودی عرب سے معافی مانگنا پڑی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل میں اس وقت بھارت کی طرح عاقبت نااندیش سخت گیر جنونیوں کی حکومت قائم ہے جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور اسی مناسبت سے اس وقت اسرائیل کے بھارت سے گہرے روابط قائم ہیں۔

بدقسمتی سے اس وقت اسرائیل بھارت کی طرح جنونی قاتلوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ جنونی یہودی سعودی عرب کیا کسی مسلم ملک کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں وہ خود کو مہذب اور ترقی یافتہ جب کہ مسلمانوں کو غیر مہذب اور پسماندہ خیال کر رہے ہیں مگر انھیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی ساری طاقت اور ترقی امریکا اور مغربی ممالک کی مرہون منت ہے۔

آج وہ جس ملک کے مالک ہیں کیا وہ انھوں نے خود حاصل کیا ہے؟ یہ انھیں مغربی ممالک نے تحفے کے طور پر پیش کیا تھا، ان کی جرمنی سے غداری کے صلے میں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آج بھی امریکا کے غلام ہیں وہ کسی وقت بھی ان سے یہ زمین چھین سکتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی معیشت اور جدید اسلحہ امریکا کا دیا ہوا ہے، اگر وہ ہاتھ کھینچ لے یا اسرائیل کی حفاظت نہ کرے تو یہ ملک کسی وقت بھی اپنا وجود کھو سکتا ہے، چنانچہ اسرائیلی وزیر مسٹر بزلل کو ہرگز اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسرائیلی ایک آزاد قوم ہیں اور اسرائیل ایک آزاد خود مختار ملک ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے
  • مقبوضہ فلسطین کا علاقہ نقب صیہونی مافیا گروہوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکا ہے، عبری ذرائع
  • جنگ بندی کے باوجود غزہ میں صیہونی فوج کے حملے، مزید 5 فلسطینی شہید
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • غزہ کی امداد روکنے کیلئے "بنی اسرائیل" والے بہانے
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • قیدیوں کیساتھ صیہونی وزیر داخلہ کے نسل پرستانہ برتاو پر حماس اور جہاد اسلامی کا ردعمل
  • تل ابیب میں ایک اور صہیونی فوجی کی خود سوزی
  • غزہ میں 10 ہزار سے زائد اسرائیلی فوجی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں، عبری میڈیا کا انکشاف