اسرائیل پر حملے روکنے کی قیمت، کروڑوں ڈالرز
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
اسرائیل کے دفاع میں نصب میزائل ڈیفنس کے لیے امریکی اور اسرائیلی سسٹمز کے استعمال پر یومیہ لاکھوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔
دفاعی ماہرین کے مطابق، اسرائیلی دفاع کیلئے مختلف دفاعی نظام نصب کئے گئے ہیں اور ایران کے اسرائیل پر حملوں کے بعد اسرائیلی دفاعی نظام کو مزید مضبوط کیا گیا ہے مگر اس کیلئے کروڑوں ڈالرز خرچ کئے جاچکے ہیں۔
اسرائیل میں استعمال ہونے والا امریکا کا تیار کردہ جدید فضائی دفاعی نظام”آئرن ڈوم“ ہے، یہ راکٹ اور میزائل حملوں کو روکنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، اس نظام کا مقصد مختصر فاصلے سے داغے گئے راکٹوں اور مارٹر گولوں کو فضا میں ہی تباہ کرنا ہوتا ہے۔
یہ نظام زیادہ تر غزہ اور لبنان سے داغے گئے راکٹوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور یہ نظام اسرائیل کے بڑے شہروں تل ابیب، اشدود، اشکیلون اور حیفہ میں نصب کئے گئے ہیں۔
دفاعی نظام “آئرن ڈوم“ ہر حملہ روکنے کے لیے ایک انٹرسیپٹر میزائل استعمال کرتا ہے، جس کی قیمت تقریباً 40 ہزار سے 1 لاکھ امریکی ڈالر تک ہوتی ہے۔
دوسری جانب، جو راکٹ عام طور پر حماس یا حزب اللّٰہ کی جانب سے داغے جاتے ہیں ان کی قیمت صرف 300 سے 800 ڈالر کے درمیان ہوتی ہے۔
یہ نظام اپنی کارکردگی کے باوجود مالی لحاظ سے مہنگا اور طویل مدتی تنازعات میں ایک بڑا چیلنج سمجھا جاتا ہے۔
تھاڈ (ٹرمینل ہائی آلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس THAAD) امریکی فوج کے لیے امریکی دفاعی ادارے لاک ہیڈ مارٹن نے تیار کیا تھا جس کی تیاری 1991 کی خلیجی جنگ کے بعد شروع ہوئی اور 2008 میں آپریشنل کیا گیا، یہ سسٹم بیلسٹک میزائلوں کو فضاء میں ہی تباہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
یمن اور ایران کی جانب سے آنے والے میزائل روکنے کیلئے اسرائیلی دفاع کیلئے تھاڈ یا ایرو میزائل نصب کئے گئے ہیں جو بڑے میزائل کو فضا میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں البتہ اسرائیلی حکام کے مطابق ایک میزائل یا راکٹ روکنے کی لاگت 2 سے 3 ملین ڈالر کے درمیان ہے۔
اسرائیلی ایرو میزائل ڈیفنس سسٹم کو اسرائیل فضائیہ کے تحقیقاتی ادارے ایرو اسپیس انڈسٹریز (IAI) نے امریکی مالی امداد سے تیار کیا تھا۔ اس کا پہلا ورژن 1998 میں اسرائیلی ایئرفورس کو دیا گیا اور 2000 میں آپریشنل ہوا۔ حال ہی میں اسرائیل نے ایرو 2 اور ایرو 3 کو مزید جدید بنایا ہے، جبکہ ایرو 4 اور 5 کی تیاری جاری ہے، جو کم قیمت میں زیادہ تعداد میں میزائل انٹرسیپٹرز فراہم کرسکے گا۔
گزشتہ دنوں یمن سے داغے گئے دو بیلسٹک میزائلوں کو اسرائیلی ایرو اور امریکی تھاڈ ( THAAD) میزائلوں نے تباہ کیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب امریکی تھاڈ اور اسرائیلی ایرو ایک ساتھ کسی بیلسٹک میزائل کو روکنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ اس کے ملبے کے ٹکڑے اسرائیلی شہر ہیبرون ( الخلیل ) میں ملے، جس سے دونوں دفاعی نظام کے ایک ساتھ کام کرنے کی تصدیق ہوئی۔
پیٹریاٹ سسٹم بھی اسرائیل کے دفاع کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جو اصل میں امریکی فضائی دفاع کے لیے بنایا گیا تھا، بعد میں میزائل انٹرسیپٹر کے طور پر اپ گریڈ کیا گیا۔ یہ اب بھی استعمال ہو رہا ہے، ہر پیٹریاٹ انٹرسیپٹر کی قیمت تقریباً 4 ملین ڈالر تک ہے۔ تاہم اس کی کارکردگی جدید ایرو اور تھاڈ سے کم سمجھی جاتی ہے۔
اگر روزانہ اسرائیل پر کئی راکٹ اور میزائل داغے جائیں تو ان کے دفاع پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جبکہ ماہانہ لاگت 200 سے 300 ملین ڈالر تک جا سکتی ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دفاعی نظام کی قیمت کیا گیا کے لیے
پڑھیں:
عید الاضحی کے روز مزید سولہ فلسطینی ہلاک، حماس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2025ء) غزہ میں حماس کے طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ جمعے کے دن اسرائیلی فورسز نے غزہ پٹی کے تین علاقوں میں جیٹ طیاروں سے بمباری کی، جس کے نتیجے میں کم از کم سولہ افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔
اسرائیل کی جانب سے حماس کی طرف سے ہلاکتوں کی ان رپورٹس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر بتایا کہ اسرائیلی فوج نے جمعہ کے روز شمالی غزہ کے مخصوص بلاکس کے رہائشیوں کو انخلا کے احکامات جاری کیے تھے۔
عینی شاہدین اور طبی عملے نے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے جبالیہ اور بیت ہانون پر جمعے کی صبح سے حملے تیز کر دیے ہیں۔
(جاری ہے)
امدادی کی بحالی شروعامریکی حمایت یافتہ 'غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن‘ جی ایچ ایف نے روئٹرز کو ای میل کے ذریعے بتایا ہے کہ اس نے جمعے کو امداد کی فراہمی کا سلسلہ بحال کر دیا ہے حالانکہ اس نے اپنی آفیشل فیس بک پوسٹ میں اعلان کیا تھا کہ اس کے امدادی مراکز تا حکم ثانی بند رہیں گے۔
اس تنظیم نے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ اپنی حفاظت کے پیش نظر امدادی مراکز کے قریب نہ آئیں کیونکہ حالیہ دنوں میں فائرنگ کے مہلک واقعات پیش آ چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے جمعے کو ایکس پر لکھا کہ فلسطینیوں کو صبح چھ بجے سے شام چھ بجے تک امدادی مراکز کی جانب 'آزادانہ نقل و حرکت‘ کی اجازت ہو گی لیکن اس کے بعد وہاں نقل و حرکت جان کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
اسرائیل نے دو ماہ تک جاری رہنے والی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد وسط مارچ سے غزہ پٹی پر قابض حماس تنظیم کے خلاف دوبارہ شدید کارروائیاں شروع کی تھیں۔
جنگ بندی کے مطالبات میں شدتحالیہ ہفتوں کے دوران عالمی رہنماؤں کی طرف سے اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی کسی ڈیل کو حتمی شکل دی جائے۔
حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ نے جمعرات کو کہا کہ فلسطینی تنظیم حماس غزہ میں مستقل جنگ بندی کے قیام کے لیے مذاکرات کے ایک نئے دور کے لیے تیار ہے۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں اسرائیل اور حماس ایک معاہدے کے قریب دکھائی دیے تھے لیکن کوئی معاہدہ طے نہ پا سکا۔ امریکی حمایت یافتہ اس تجویز کی ناکامی کے لیے دونوں فریقین ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
ساتھ ہی اسرائیل پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ غزہ میں زیادہ امداد پہنچانے کی اجازت دی جائے کیونکہ دو ماہ سے زیادہ کے محاصرہ کے بعد وہاں خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی شدید قلت ہو چکی ہے۔
حال ہی میں اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی میں کچھ نرمی کی ہے اور امریکی حمایت یافتہ قائم کردہ نئی تنظیم 'غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن‘ کے ساتھ مل کر جنوب اور وسطی غزہ میں چند مراکز کے ذریعے امداد کی تقسیم کا نیا نظام نافذ کیا ہے۔
یہ تنازعہ شروع کیسے ہوا؟غزہ پٹی میں مسلح تنازعہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے علاوہ حماس کے جنگجو 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔
اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف فضائی، زمینی اور بحری حملے کرنا شروع کر دیے تھے، جو جنگ بندی ڈیل تک جاری رہے۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اٹھارہ مارچ کو جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک کم از کم 4,402 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس مسلح تنازعہ میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 54,677 سے زائد بتائی جاتی ہے، جن میں اکثریت شہریوں کی ہے۔حماس کے زیر انتظام غزہ پٹی میں اسرائیلی کارروائیوں کی وجہ سے تقریباً پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ غزہ پٹی کا زیادہ تر علاقہ کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔
ادارت: رابعہ بگٹی، عدنان اسحاق