Express News:
2025-11-03@09:06:45 GMT

ریڈیو

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

ہر سال کی طرح اِس سال بھی دنیا بھر میں ریڈیو کا عالمی دن منایا گیا۔ جب تک دنیا باقی ہے، مارکونی کا نام باقی رہے گا جس نے ریڈیو ایجاد کر کے کرہ ارض کی طنابیں کھینچ دیں اور فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا۔ اِس سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک آواز آناً فاناً پہنچ جائے گی، جس زمانے میں ریڈیو اپنی ابتدائی شکل میں تھا اسے لوگ بہت حد تک جادوگری خیال کرتے تھے۔

ایک طویل عرصے تک دیہاتی اور ناخواندہ افراد یہی سمجھتے رہے کہ یہ کوئی جادو کی چیز ہے۔ریڈیو پاکستان کی نشریات کا آغاز 15 اگست 1947 کو ہوا۔ قیامِ پاکستان کے وقت آل انڈیا ریڈیو کے جو تین اسٹیشنز پاکستان کے حصہ میں آئے وہ لاہور (1928)، پشاور (1936) اور ڈھاکا (1939) تھے۔ یہ ہی وہ تین ریڈیو اسٹیشن تھے جن پر 14 اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب، بارہ بجے، قیامِ پاکستان کے اعلانات کیے گئے تھے۔ ان ریڈیو اسٹیشنوں کو ’’ پاکستان براڈکاسٹنگ سروس‘‘ کا نام دیا گیا جسے بعد ازاں بابائے نشریات ذوالفقار علی بخاری نے ترک کر کے’’ ریڈیو پاکستان‘‘ کا خوبصورت نام  دیا۔برصغیر میں پہلا ریڈیو اسٹیشن 23 جولائی 1927 میں بمبئی میں قائم ہوا جسے اب ممبئی کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں سب سے پہلے نجی شعبے میں ریڈیو نشریات کا آغاز 1928 میں ایک چھوٹے سے ٹرانسمیٹر کے ذریعے لاہور سے ہوا۔ اپریل 1930میں حکومتِ ہند نے ریڈیو سروس کو براہِ راست سرکاری تحویل میں لے کر اُسے’’ انڈین اسٹیٹ براڈکاسٹنگ سروس‘‘ کا نام دیا جسے بعد ازاں 8 جون 1936 کو تبدیل کر کے ’’آل انڈیا ریڈیو‘‘ رکھ دیا گیا۔ریڈیو پاکستان کا قیام نوزائیدہ مملکت پاکستان کے ساتھ ہی 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب صفر ساعت پر عمل میں آگیا تھا۔

14 اگست 1947 کو رات گیارہ بجے ریڈیو لاہور سے آل انڈیا ریڈیو کا آخری اعلامیہ نشر ہوا۔ رات بارہ بجنے سے کچھ دیر قبل ریڈیو پاکستان کی شناختی دھن بجائی گئی جس کے بعد انگریزی میں ظہور آذرکا یہ اعلان نشر ہوا کہ آدھی رات کے وقت پاکستان کی آزاد اور خود مختار ریاست معرضِ وجود میں آجائے گی۔ٹھیک بارہ بجے یعنی 15 اگست 1947 کو پشاور سے آفتاب احمد بسملؔ نے اردو میں اور عبداللہ جان مغمومؔ نے پشتو میں جب کہ لاہور سے مصطفیٰ علی ہمدانی نے اردو میں اور ظہور آذر نے انگریزی میں’’ یہ پاکستان براڈکاسٹنگ سروس ہے‘‘ کہہ کر نشریات کا آغازکیا اور قوم کو ایک نئی مملکت کی نوید سنائی۔ اِس طرح ریڈیو لاہور، ریڈیو پاکستان لاہور بنا۔روایت ہے کہ صوبہ سرحد کے معروف سیاستدان خان عبدالقیوم خان جب 1931 میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو وہاں اُن کی ملاقات ریڈیو کے موجد اٹلی نژاد مارکونی سے ہوئی۔

خان صاحب کی خواہش پر مارکونی نے انھیں ایک ٹرانسمیٹر اور تیس ریڈیو سیٹ تحفہ کے  طور پر دیے جنھیں پشاور کے سیکریٹریٹ کی عمارت میں نصب کیا گیا۔ اِس ریڈیو ٹرانسمیٹر کا سنگِ بنیاد یکم جنوری 1935کو اُس وقت صوبہ کے انگریز گورنر نے رکھا۔ 16 جولائی 1936 کو تجرباتی بنیادوں پر نشریات کی ابتدا ہوئی جب کہ باضابطہ آغاز 16جولائی 1942 کو ہوا۔ تقسیمِ کے بعد شہرِ قائد،کراچی کو پاکستان کا دارالخلافہ منتخب کیا گیا۔ اُس وقت تک وہاں کوئی ریڈیو اسٹیشن موجود نہیں تھا۔

حکومتِ پاکستان نے ترجیحی بنیادوں پر سب سے پہلے امریکا سے ساڑھے سات کلو کا ایک اور دس کلو واٹس کے دو ٹرانسمیٹرز خریدے جنھیں کوئنز روڈ (مولوی تمیزالدین روڈ) اور لانڈھی کے علاقے میں نصب کیا گیا۔ پاکستان کی پہلی سالگرہ (14 اگست 1948) کے موقع پر اُس وقت کے وزیرِ اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین نے’’ ریڈیو پاکستان کراچی‘‘ کا افتتاح کیا۔ یکم نومبر 1948کو کراچی کے میڈئیم ویو ٹرانسمیٹر کا افتتاح بھی خواجہ صاحب ہی نے کیا تھا۔ 16 جولائی 1951 کو اُس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے بندر روڈ پر (جو اب ایم اے جناح کہلاتا ہے) ریڈیو پاکستان کراچی کے نئے براڈ کاسٹنگ ہاؤس کا افتتاح کیا۔ ریڈیو پاکستان کے انتہائی معروف و مقبول گلوکار احمد رُشدی (مرحوم) کے پہلے مقبول ترین ریڈیو گانے ’’ بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ میں اِس کا ذکرکیا گیا ہے۔

ریڈیو پاکستان کی نشریات کا دائرہ انتہائی وسیع رہا ہے، جس میں تیس مختلف زبانیں شامل ہیں جن میں قومی زبان اردو کے علاوہ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں سندھی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی، کشمیری، پوٹھاری، ہندکو، کوہستانی، دری، کھوار، گوجری، بروشاسکی، بلتی، شینا، واخی، ہزارگی، براہوی، گجراتی اور بنگالی) کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی، ہندی، تامل، سنہالی، نیپالی، چینی، روسی اور تُرکی زبانیں شامل ہیں۔جولائی 1947 میں حکومت نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر حضور نبی کریم کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو لازمی قرار دیا۔ 1977 میں خبرناموں کے آغاز پر اللہ تعالیٰ کا بابرکت نام لینا اور سامعین کو مخاطب کرنے سے پہلے السلام علیکم کہنا لازمی قرار پایا۔ ریڈیو پاکستان کا نصب العین اگست 1951 میں ’’ قولوا للناس حسنا‘‘ ( لوگوں سے بھلی بات کہو، سورہ بقرہ آیت 83) قرار پایا۔ اس کا نشانِ امتیاز مشہورِ زمانہ مصور عبدالرحٰمن چغتائی کا تخلیق کردہ ہے جس میں’’ ریڈیو پاکستان‘‘ لکھا ہوا ہے اور جسے 1951 میں قرآنی الفاظ’’ قولوا للناس حسنا‘‘ سے تبدیل کردیا گیا۔ اس میں ایک شاہین محوِ پرواز ہے گویا نشریات کی روح کو اقبالؔ کے شاہین سے ہم آہنگ کردیا گیا ہے۔

ریڈیو پاکستان نے 12 رمضان المبارک 1418 بمطابق پیر 26 جنوری 1998 کو صوت القرآن چینل کا آغاز کر کے ملک کے ممتاز قاریوں کی آواز میں قرآنِ کریم کی تلاوت اور اس کا ترجمہ روزانہ صبح سوا سات بجے سے دوپہر بارہ بجے تک نشر کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ریڈیو پاکستان کراچی کا طویل ترین پروگرام’’ حامد میاں کے ہاں‘‘ 3 جون 1956 سے یکم جنوری 1992 تک جاری رہا۔ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون دو سُروں’’ رے‘‘ اور’’ پا‘‘ کی بنیاد پر تخلیق کی گئی۔ ریڈیو پاکستان کے ابتدائی دو حروف بھی یہی ہیں۔ پاکستان کا بلند ترین ریڈیو اسٹیشن ریڈیو پاکستان اسکردو ہے جس کی اونچائی سطح سمندر سے ساڑھے سات ہزار فٹ ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب ریڈیو کا طوطی بولتا تھا اور ریڈیو گھریلو تفریح و طبع کا واحد اور موثر ذریعہ تھا۔

گھر کے تمام افراد روزانہ اکٹھے بیٹھ کر باقاعدگی سے ریڈیو کی نشریات سنتے اور محظوظ ہوا کرتے تھے۔ریڈیو ایک ایسا ذریعہ رہا ہے جہاں بصارت کی جگہ متخیلہ لے لیتا ہے۔ خبریں ہوں، ڈرامہ ہو یا ادبی نشست سامع تک ہر قسم کا تاثر پہچانے کے لیے مکالموں کے علاوہ صوتی اثرات کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ فی زمانہ ڈش، کیبل، انٹرنیٹ اور دیگر جدید ذرایع ابلاغ کی ایجاد نے ریڈیو کی شہرت کو بظاہر گہنا دیا ہے لیکن اس کی افادیت آج بھی ایک مسلمہ امر ہے۔ آج بھی دور افتادہ علاقوں میں جہاں بجلی نہیں ہے ریڈیو ہی واحد ذریعہ ابلاغ ہے جس کے ذریعے لوگ اپنے گرد و پیش کے حالات سے با خبر رہتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں ریڈیو کی پہنچ 100 فیصد علاقے تک ہے۔ پاکستان کی 67 فیصد دیہی آبادی کے دکھ سکھ کا ساتھی ریڈیو ہی ہے۔ریڈیو پاکستان نے تفریحی، مذہبی، تعلیمی، سماجی، خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے موضوعات پر بہترین پروگرام نشرکیے ہیں۔

ریڈیو پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے وطن عزیز کے لوگوں کو 14 اگست 1947 کی شب ٹھیک بارہ بجے یہ تاریخی اعلان ’’ صبح آزادی مبارک ہو‘‘ کر کے پوری قوم کو قیام پاکستان کی نوید سنائی۔ ریڈیو پاکستان کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اس نے ہر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ اپنے سامعین کے لیے منفرد اور دلچسپ پروگرام ترتیب دے کر ہر لمحہ ان کی خدمت کی ہے۔ جنگ ہو یا امن، سیلاب ہو یا زلزلہ، دکھ کے لمحے ہوں یا خوشی کی ساعتیں ریڈیو پاکستان نے کبھی بھی اپنے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑا لیکن آج ریڈیو پاکستان عرصہ دراز سے مسلسل بے توجہی کا شکار ہے جس میں مالی مسائل سر ِفہرست ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریڈیو پاکستان کی ریڈیو اسٹیشن پاکستان کا پاکستان کے پاکستان نے میں ریڈیو نشریات کا نے ریڈیو کا ا غاز سے پہلے کیا گیا اگست 1947 دیا گیا

پڑھیں:

ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل

 

کراچی (اسٹاف رپورٹر)سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے کہا ہے کہ حال ہی میں کچھ لوگ ہماری سیاسی کوششوں کو ’مائنس فارمولے‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جیسے یہ عمران خان کو کمزور کرنے یا پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر قبضہ کرنے کی سازش ہو، واضح رہے کہ پی ٹی آئی عمران خان کے بغیر ممکن ہی نہیں، وہ اس کے بانی، چہرہ اور قوت ہیں۔سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ محمود مولوی، فواد چوہدری اور میں نے جو کاوش کی ہے یہ کسی سازش کا حصہ نہیں بلکہ ایک شعوری کوشش ہے کہ جس کے تحت پاکستانی سیاست کو ٹکراؤ سے نکال کر مفاہمت کی طرف واپس لایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ مزاحمت اور مسلسل احتجاج کی سیاست نے پی ٹی آئی کے لیے صرف گرتی ہوئی سیاسی گنجائش، گرفتاریوں اور تھکن کے سوا کچھ نہیں چھوڑا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم رک کر سوچیں، جائزہ لیں اور دوبارہ تعمیر کریں۔ہم نے ذاتی طور پر پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں سے مشاورت کی، تقریبا سب نے تسلیم کیا کہ محاذ آرائی ناکام ہو چکی ہے اور مفاہمت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔مزید لکھا کہ جب ہم نے کوٹ لکھپت جیل میں چوہدری اعجاز سے اور پی کے ایل آئی ہسپتال میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی، تو دونوں نے عمران خان کے ساتھ اپنی پختہ وابستگی برقرار رکھتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ جمود ختم ہونا چاہیے، ان کا مطالبہ سیاسی سانس لینے کی معمول کی گنجائش تھا، سرنڈر نہیں۔

بدقسمتی سے رابطوں کی کمی، خوف اور سوشل میڈیا کی مسلسل گرمی نے پی ٹی آئی کے اندر کسی مکالمے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔سابق گورنر کا کہنا تھا کہ دوسری طرف بیرونِ ملک بیٹھے کچھ خودساختہ اینکرز نے دشمنی اور انتشار کو ہوا دے کر اسے ذاتی مفاد کا کاروبار بنا لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بڑھتی ہوئی سفارتی ساکھ نے پاکستان کے بارے میں دنیا کے تاثر کو بدل دیا، یہ توقع کہ غیر ملکی طاقتیں خود بخود عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوں گی، پوری نہیں ہوئی۔یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر کوئی پی ٹی آئی رہنما سمجھتا ہے کہ تصادم اور احتجاج ہی درست راستہ ہے، تو وہ آگے بڑھے اور ہم میں سے ان لوگوں کو قائل کرے جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں، بحث و مباحثہ خوش آئند ہے مگر اندھی محاذ آرائی مستقل سیاسی حکمتِ عملی نہیں بن سکتی۔

ہماری کوشش آزاد، مخلص اور صرف ضمیر کی آواز پر مبنی ہے، ہم چاہتے ہیں معمول کی سیاست بحال ہو، ادارے اپنا کردار ادا کریں اور سیاسی درجہ حرارت نیچے آئے۔اگر مفاہمت کو غداری سمجھا جاتا ہے، تو ٹھیک ہے، ہم دل سے پی ٹی آئی کی بقا اور پاکستان کے استحکام کے لیے سوچ رہے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما فواد چوہدری نے بھی یکم نومبر کو کہا تھا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں سب سے اہم یہ ہے کہ سیاسی درجہ حرارت نیچے لایا جائے اور وہ اس وقت تک کم نہیں ہو سکتا جب تک دونوں سائیڈ یہ فیصلہ نہ کریں کہ انہوں نے ایک قدم پیچھے ہٹنا اور ایک نے قدم بڑھانا ہے۔

سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں میں سابق پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایک قدم بڑھانا اور پی ٹی آئی نے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے، تاکہ ان دونوں کو جگہ مل سکے، پاکستان نے جو موجودہ بین الاقوامی کامیابیاں حاصل کیں، سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔لہذا جب تک یہ درجہ حرارت کم نہیں ہوتا، اُس وقت تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔اس سے قبل 31 اکتوبر کو فواد چوہدری، عمران اسمٰعیل اور محمود مولوی نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے لاہور میں اہم ملاقات کی تھی۔

 

متعلقہ مضامین

  • ترکیہ کے رنگ میں رنگا پاکستان
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • ہوم بیسڈ ورکرز کے عالمی دن پرہوم نیٹ پاکستان کے تحت اجلاس
  • پاکستان کے سمندر سے توانائی کی نئی اْمید
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • تاریخ کی نئی سمت
  • پی ایف یو جے کے وفد کا ایس این جے ہیڈکوارٹر پیرس کا دورہ
  • مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی