Express News:
2025-04-25@02:12:07 GMT

ریڈیو

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

ہر سال کی طرح اِس سال بھی دنیا بھر میں ریڈیو کا عالمی دن منایا گیا۔ جب تک دنیا باقی ہے، مارکونی کا نام باقی رہے گا جس نے ریڈیو ایجاد کر کے کرہ ارض کی طنابیں کھینچ دیں اور فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا۔ اِس سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک آواز آناً فاناً پہنچ جائے گی، جس زمانے میں ریڈیو اپنی ابتدائی شکل میں تھا اسے لوگ بہت حد تک جادوگری خیال کرتے تھے۔

ایک طویل عرصے تک دیہاتی اور ناخواندہ افراد یہی سمجھتے رہے کہ یہ کوئی جادو کی چیز ہے۔ریڈیو پاکستان کی نشریات کا آغاز 15 اگست 1947 کو ہوا۔ قیامِ پاکستان کے وقت آل انڈیا ریڈیو کے جو تین اسٹیشنز پاکستان کے حصہ میں آئے وہ لاہور (1928)، پشاور (1936) اور ڈھاکا (1939) تھے۔ یہ ہی وہ تین ریڈیو اسٹیشن تھے جن پر 14 اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب، بارہ بجے، قیامِ پاکستان کے اعلانات کیے گئے تھے۔ ان ریڈیو اسٹیشنوں کو ’’ پاکستان براڈکاسٹنگ سروس‘‘ کا نام دیا گیا جسے بعد ازاں بابائے نشریات ذوالفقار علی بخاری نے ترک کر کے’’ ریڈیو پاکستان‘‘ کا خوبصورت نام  دیا۔برصغیر میں پہلا ریڈیو اسٹیشن 23 جولائی 1927 میں بمبئی میں قائم ہوا جسے اب ممبئی کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں سب سے پہلے نجی شعبے میں ریڈیو نشریات کا آغاز 1928 میں ایک چھوٹے سے ٹرانسمیٹر کے ذریعے لاہور سے ہوا۔ اپریل 1930میں حکومتِ ہند نے ریڈیو سروس کو براہِ راست سرکاری تحویل میں لے کر اُسے’’ انڈین اسٹیٹ براڈکاسٹنگ سروس‘‘ کا نام دیا جسے بعد ازاں 8 جون 1936 کو تبدیل کر کے ’’آل انڈیا ریڈیو‘‘ رکھ دیا گیا۔ریڈیو پاکستان کا قیام نوزائیدہ مملکت پاکستان کے ساتھ ہی 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب صفر ساعت پر عمل میں آگیا تھا۔

14 اگست 1947 کو رات گیارہ بجے ریڈیو لاہور سے آل انڈیا ریڈیو کا آخری اعلامیہ نشر ہوا۔ رات بارہ بجنے سے کچھ دیر قبل ریڈیو پاکستان کی شناختی دھن بجائی گئی جس کے بعد انگریزی میں ظہور آذرکا یہ اعلان نشر ہوا کہ آدھی رات کے وقت پاکستان کی آزاد اور خود مختار ریاست معرضِ وجود میں آجائے گی۔ٹھیک بارہ بجے یعنی 15 اگست 1947 کو پشاور سے آفتاب احمد بسملؔ نے اردو میں اور عبداللہ جان مغمومؔ نے پشتو میں جب کہ لاہور سے مصطفیٰ علی ہمدانی نے اردو میں اور ظہور آذر نے انگریزی میں’’ یہ پاکستان براڈکاسٹنگ سروس ہے‘‘ کہہ کر نشریات کا آغازکیا اور قوم کو ایک نئی مملکت کی نوید سنائی۔ اِس طرح ریڈیو لاہور، ریڈیو پاکستان لاہور بنا۔روایت ہے کہ صوبہ سرحد کے معروف سیاستدان خان عبدالقیوم خان جب 1931 میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو وہاں اُن کی ملاقات ریڈیو کے موجد اٹلی نژاد مارکونی سے ہوئی۔

خان صاحب کی خواہش پر مارکونی نے انھیں ایک ٹرانسمیٹر اور تیس ریڈیو سیٹ تحفہ کے  طور پر دیے جنھیں پشاور کے سیکریٹریٹ کی عمارت میں نصب کیا گیا۔ اِس ریڈیو ٹرانسمیٹر کا سنگِ بنیاد یکم جنوری 1935کو اُس وقت صوبہ کے انگریز گورنر نے رکھا۔ 16 جولائی 1936 کو تجرباتی بنیادوں پر نشریات کی ابتدا ہوئی جب کہ باضابطہ آغاز 16جولائی 1942 کو ہوا۔ تقسیمِ کے بعد شہرِ قائد،کراچی کو پاکستان کا دارالخلافہ منتخب کیا گیا۔ اُس وقت تک وہاں کوئی ریڈیو اسٹیشن موجود نہیں تھا۔

حکومتِ پاکستان نے ترجیحی بنیادوں پر سب سے پہلے امریکا سے ساڑھے سات کلو کا ایک اور دس کلو واٹس کے دو ٹرانسمیٹرز خریدے جنھیں کوئنز روڈ (مولوی تمیزالدین روڈ) اور لانڈھی کے علاقے میں نصب کیا گیا۔ پاکستان کی پہلی سالگرہ (14 اگست 1948) کے موقع پر اُس وقت کے وزیرِ اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین نے’’ ریڈیو پاکستان کراچی‘‘ کا افتتاح کیا۔ یکم نومبر 1948کو کراچی کے میڈئیم ویو ٹرانسمیٹر کا افتتاح بھی خواجہ صاحب ہی نے کیا تھا۔ 16 جولائی 1951 کو اُس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے بندر روڈ پر (جو اب ایم اے جناح کہلاتا ہے) ریڈیو پاکستان کراچی کے نئے براڈ کاسٹنگ ہاؤس کا افتتاح کیا۔ ریڈیو پاکستان کے انتہائی معروف و مقبول گلوکار احمد رُشدی (مرحوم) کے پہلے مقبول ترین ریڈیو گانے ’’ بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ میں اِس کا ذکرکیا گیا ہے۔

ریڈیو پاکستان کی نشریات کا دائرہ انتہائی وسیع رہا ہے، جس میں تیس مختلف زبانیں شامل ہیں جن میں قومی زبان اردو کے علاوہ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں سندھی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی، کشمیری، پوٹھاری، ہندکو، کوہستانی، دری، کھوار، گوجری، بروشاسکی، بلتی، شینا، واخی، ہزارگی، براہوی، گجراتی اور بنگالی) کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی، ہندی، تامل، سنہالی، نیپالی، چینی، روسی اور تُرکی زبانیں شامل ہیں۔جولائی 1947 میں حکومت نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر حضور نبی کریم کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو لازمی قرار دیا۔ 1977 میں خبرناموں کے آغاز پر اللہ تعالیٰ کا بابرکت نام لینا اور سامعین کو مخاطب کرنے سے پہلے السلام علیکم کہنا لازمی قرار پایا۔ ریڈیو پاکستان کا نصب العین اگست 1951 میں ’’ قولوا للناس حسنا‘‘ ( لوگوں سے بھلی بات کہو، سورہ بقرہ آیت 83) قرار پایا۔ اس کا نشانِ امتیاز مشہورِ زمانہ مصور عبدالرحٰمن چغتائی کا تخلیق کردہ ہے جس میں’’ ریڈیو پاکستان‘‘ لکھا ہوا ہے اور جسے 1951 میں قرآنی الفاظ’’ قولوا للناس حسنا‘‘ سے تبدیل کردیا گیا۔ اس میں ایک شاہین محوِ پرواز ہے گویا نشریات کی روح کو اقبالؔ کے شاہین سے ہم آہنگ کردیا گیا ہے۔

ریڈیو پاکستان نے 12 رمضان المبارک 1418 بمطابق پیر 26 جنوری 1998 کو صوت القرآن چینل کا آغاز کر کے ملک کے ممتاز قاریوں کی آواز میں قرآنِ کریم کی تلاوت اور اس کا ترجمہ روزانہ صبح سوا سات بجے سے دوپہر بارہ بجے تک نشر کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ریڈیو پاکستان کراچی کا طویل ترین پروگرام’’ حامد میاں کے ہاں‘‘ 3 جون 1956 سے یکم جنوری 1992 تک جاری رہا۔ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون دو سُروں’’ رے‘‘ اور’’ پا‘‘ کی بنیاد پر تخلیق کی گئی۔ ریڈیو پاکستان کے ابتدائی دو حروف بھی یہی ہیں۔ پاکستان کا بلند ترین ریڈیو اسٹیشن ریڈیو پاکستان اسکردو ہے جس کی اونچائی سطح سمندر سے ساڑھے سات ہزار فٹ ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب ریڈیو کا طوطی بولتا تھا اور ریڈیو گھریلو تفریح و طبع کا واحد اور موثر ذریعہ تھا۔

گھر کے تمام افراد روزانہ اکٹھے بیٹھ کر باقاعدگی سے ریڈیو کی نشریات سنتے اور محظوظ ہوا کرتے تھے۔ریڈیو ایک ایسا ذریعہ رہا ہے جہاں بصارت کی جگہ متخیلہ لے لیتا ہے۔ خبریں ہوں، ڈرامہ ہو یا ادبی نشست سامع تک ہر قسم کا تاثر پہچانے کے لیے مکالموں کے علاوہ صوتی اثرات کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ فی زمانہ ڈش، کیبل، انٹرنیٹ اور دیگر جدید ذرایع ابلاغ کی ایجاد نے ریڈیو کی شہرت کو بظاہر گہنا دیا ہے لیکن اس کی افادیت آج بھی ایک مسلمہ امر ہے۔ آج بھی دور افتادہ علاقوں میں جہاں بجلی نہیں ہے ریڈیو ہی واحد ذریعہ ابلاغ ہے جس کے ذریعے لوگ اپنے گرد و پیش کے حالات سے با خبر رہتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں ریڈیو کی پہنچ 100 فیصد علاقے تک ہے۔ پاکستان کی 67 فیصد دیہی آبادی کے دکھ سکھ کا ساتھی ریڈیو ہی ہے۔ریڈیو پاکستان نے تفریحی، مذہبی، تعلیمی، سماجی، خبروں اور حالاتِ حاضرہ کے موضوعات پر بہترین پروگرام نشرکیے ہیں۔

ریڈیو پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے وطن عزیز کے لوگوں کو 14 اگست 1947 کی شب ٹھیک بارہ بجے یہ تاریخی اعلان ’’ صبح آزادی مبارک ہو‘‘ کر کے پوری قوم کو قیام پاکستان کی نوید سنائی۔ ریڈیو پاکستان کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اس نے ہر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ اپنے سامعین کے لیے منفرد اور دلچسپ پروگرام ترتیب دے کر ہر لمحہ ان کی خدمت کی ہے۔ جنگ ہو یا امن، سیلاب ہو یا زلزلہ، دکھ کے لمحے ہوں یا خوشی کی ساعتیں ریڈیو پاکستان نے کبھی بھی اپنے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑا لیکن آج ریڈیو پاکستان عرصہ دراز سے مسلسل بے توجہی کا شکار ہے جس میں مالی مسائل سر ِفہرست ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریڈیو پاکستان کی ریڈیو اسٹیشن پاکستان کا پاکستان کے پاکستان نے میں ریڈیو نشریات کا نے ریڈیو کا ا غاز سے پہلے کیا گیا اگست 1947 دیا گیا

پڑھیں:

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت ویران اور ناقابل کاشت تھا‘ دور دور تک بیابانی اور دھول ہوتی تھی یا پھر جنگل ہوتے تھے اور ان میں درندے پھرتے رہتے تھے‘ امیر تیمور نے 1398 میں ہندوستان پر حملہ کیا تھا‘ اس زمانے میں دیپال پور سے دہلی تک گھنے جنگل اور دلدلیں تھیں اور ان میں ہاتھیوں کے جھنڈ پھرتے تھے‘ امیر تیمور جیسا بے خوف شخص بھی ان گھنے جنگلوں سے گزرتے ہوئے خوف محسوس کر رہا تھا‘ یہ 6 سو سال پہلے تک پنجاب کی صورت حال تھی‘ انگریز اسے فتح کر کے پریشان ہو گیا‘ اس کی دو وجوہات تھیں‘ پنجاب لینڈ لاکڈ ہے۔

 اس کے ساتھ کوئی سمندر نہیں لہٰذا حکومت کے پاس ریونیو کا کوئی بڑا سورس نہیں تھا اور دوسرا پنجاب کی فتح کے بعد دہلی میں 1857 کی جنگ آزادی شروع ہو گئی اور دہلی سے لے کر کولکتہ تک انگریز افسروں کو بچانے کی ذمے داری پنجاب پر آ پڑی‘ انگریز نے لاہور سے فوج بھجوائی اور اس نے انگریز سرکار اور اہلکاروں کی جان بچائی‘ 1857 کی جنگ نے انگریز کو مالی لحاظ سے کم زور کر دیا‘ ان حالات میں سرچارلس ایچی سن لیفٹیننٹ گورنر بن کر پنجاب آیا‘ وہ لاہور کا ڈپٹی کمشنر اور کمشنر بھی رہا‘ اس نے پورے پنجاب کا دورہ کیا اوروہ اس نتیجے پر پہنچا اگر پنجاب میں نئی نہریں بنا دی جائیں تو ہزاروں میل زمینیں کاشت ہو سکتی ہیں جس سے سرکار کا ریونیو بھی بڑھے گا اور پنجاب میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

 پنجاب میں اس سے قبل فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں نہریں بنی تھیں‘ وہ 1351 سے 1388 تک ہندوستان کا بادشاہ رہا اور اس نے تاریخ میں پہلی بار ہندوستان میں نہریں بنائیں‘ وہ اس وجہ سے تاریخ میں فادر آف کینالز کے نام سے مشہور ہوا ‘ بہرحال قصہ مختصر چارلس ایچی سن کی اسٹڈی پر انگریز نے 1882 میں نہروں کے تین منصوبے شروع کیے‘ 1892 میں لوئر چناب کینال شروع ہوئی‘ گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ میں خانکی ہیڈ ورکس بنا اور اس نے گوجرانوالہ ڈویژن کو ہریالہ کر دیا ‘ 1906میں اپر چناب کا منصوبہ شروع ہوا اور یہ 1917میں مکمل ہو ئی‘ ہیڈ مرالہ اسی پراجیکٹ کا حصہ تھا‘ اس نہر نے پنجاب کی چھ لاکھ 48 ہزار ایکڑ زمین سیراب کر دی‘ اپر جہلم تیسرا پراجیکٹ تھا‘یہ 1915 میں شروع ہوئی اور 1917میں مکمل ہو گئی‘ یہ دریائے جہلم سے نکل کر دریائے چناب میں گرتی ہے اور اس سے ضلع گجرات کی بنجر زمینیں آباد ہوئیں‘ انگریز نے ان نہروں پر 9 کالونیاں بنائیں۔

 ان میں 10 لاکھ لوگ آباد کیے‘ انھیں سرکاری زمینیں دیں اور یہ لوگ انھیں آباد کرتے چلے گئے‘ سندیانی کالونی ملتان میں تھی‘ سوہاگ کالونی ساہیوال میں تھی جب کہ چونیاں‘ لائل پور اور سرگودھا بھی انگریزوں کی کالونیوں پر آباد ہوئے‘ پنجاب میں اس وقت ایسے 50 شہر ہیں جنھوں نے ان نہروں کی وجہ سے جنم لیا تھا‘ یہ تین نہریں آگے چل کر دنیا میں آب پاشی کا سب سے بڑا نظام بنیں اور ان کی وجہ سے چھ ہزار چار سو 73 میل کا رقبہ کاشت کاری کے قابل ہوا اور اس سے مشرقی اور مغربی دونوں پنجاب کے کروڑوں لوگ مستفید ہوئے‘ اب سوال یہ ہے اگر انگریز 1892 میں یہ قدم نہ اٹھاتا یا اس زمانے کے لوگ نہروں کے خلاف مظاہرے شروع کر دیتے تو کیا آب پاشی کا یہ نظام بنتا اور اگر یہ نہ بنتا تو آج پاکستان میں کیا صورت حال ہوتی! کیا ہم 25کروڑ لوگوں کی ضروریات زندگی پوری کر پاتے؟۔

میں مزید آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں دنیا میں میٹھے پانی کے سب سے بڑے سورس قطب شمالی اور قطب جنوبی ہیں‘ دونوں قطبوں پر لاکھوں میل لمبے گلیشیئرز ہیں‘ سردیوں میں ان پر برفیں پڑتی ہیں اور گرمیوں میں یہ گلیشیئرز تھوڑے تھوڑے پگھل کر زیرزمین پانی میں بھی اضافہ کرتے ہیں اور دریاؤں میں بھی پانی بڑھاتے ہیں‘ پانی کا تیسرا بڑا سورس ہمالیہ‘ قراقرم اور کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے ہیں‘ یہ تینوں سلسلے خوش قسمتی سے پاکستان میں جگلوٹ کے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں‘ قدرت کے اس عظیم جغرافیائی معجزے کی وجہ سے شمالی اور جنوبی قطبوں کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں‘ بیافو (Biafo) گلیشیئر پاکستان کا طویل ترین گلیشیئر ہے‘ اس کی لمبائی 67 کلومیٹر ہے اور یہ گلگت بلتستان میں قراقرم کے سلسلے میں واقع ہے۔

 دریائے سندھ ہزاروں سال سے ان گلیشیئرز سے پانی لیتا ہے اور یہ پاکستان کی لائف لائین ہے‘ دریائے سندھ کے پانی کا سب سے بڑا سورس سیاچن گلیشیئر ہے‘ یہ 22 ہزار فٹ کی بلندی پر دنیا کا بلند ترین میدان جنگ ہے‘ اس پر 1984 سے بھارت اور پاکستان کی فوجیں موجود ہیں‘ سیاچن کی برفیں 2000 تک سخت ترین ہوتی تھیں لیکن فوجوں کی موجودگی‘ مسلسل گولہ باری اوربرف پر چولہے جلانے‘ کیمپس بنانے اور ہیلی کاپٹروں اوربھاری مشینری کی آمدورفت کی وجہ سے گلیشیئر نرم پڑ رہا ہے وہاں اب باقاعدہ پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب بن رہے ہیں اور گلیشیئر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے یہاں تک کہ 2012ء میںگیاری کے مقام پر برف کا بہت بڑا تودہ فوجی کیمپ پر گر گیا اور 140 جوان شہید ہو گئے‘ سیاچن پاکستان کے لیے پانی کا بہت بڑا سورس ہے‘ ہمیں فوری طور پر اسے بھی بچانا ہو گا اور اس کے لیے سیاچن کی جنگ روکنا ہوگی۔

یہ یاد رکھیں پانی آنے والے وقتوں میں دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہو گا اور اس کی بنیاد پر جنگیں ہوں گی اور پاکستان کا شمار پانی کی کمی کے شکار پہلے دس ملکوں میں ہوتا ہے‘ ہم نے اگر خشک سالی سے بچنا ہے تو پھر ہمیں جنگی پیمانے پر پانی بچانے کی حکمت عملی بنانا ہو گی لیکن آپ المیہ دیکھیے‘ ہم سال کے آٹھ ماہ پانی کی کمی کا شکار رہتے ہیں اور مون سون کے چار مہینے ہم سیلابوں کا لقمہ بنتے ہیں یعنی ہم پانی کی کمی اور زیادتی دونوں کا شکار ہیں‘اب سوال یہ ہے ہم اس پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟ ہم پانی کے ذخائر کیوں نہیں بناتے اور ہم سیلاب کے پانی کو محفوظ کیوں نہیں کرتے؟یہ بلین ڈالر کا سوال ہے‘ہمیں چاہیے ہم فوری طور پر آبی گزر گاہوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز‘ تالاب اور خشک نہریں بنائیں تاکہ سیلاب کے دنوں میں پانی ان ذخائر کی طرف موڑ دیاجائے‘ اس سے زیر زمین پانی کی سطح بھی بلند ہو جائے گی اور خشک اور ویران علاقے بھی کاشت کے قابل ہو جائیں گے۔

 دوسرا ہم مدت سے نئی نہروں کے منصوبے بنا رہے ہیں لیکن سیاسی افراتفری کی وجہ سے حکومتیں ان پر توجہ نہیں دے سکیں‘ 2023 میں آرمی چیف نے گرین پاکستان کا منصوبہ شروع کیا‘ اس کے تحت پاکستان میں چھ نہریں بن رہی ہیں اور ان نہروں سے ہزاروں میل کا علاقہ کاشت کے قابل بن رہا ہے لیکن یہ منصوبہ بھی اب سیاست کی نذر ہو رہا ہے‘ سندھ میں احتجاج شروع ہو گیا ہے‘ لوگ سڑکیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں‘ ان کا کہنا ہے پنجاب سندھ کا پانی چوری کر رہا ہے‘آپ اندازہ کریں انگریز نے 1892 سے 1917 تک موجودہ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بنا دیا لیکن ہم 2025 میں ایک نہر کے لیے ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر بیٹھے ہیں‘ ملک ایک طرف پانی کی شدید قلت کا شکار ہے اور دوسری طرف ہم نہریں روکنے کے لیے سڑکیں بند کر رہے ہیں‘کیا یہ عقل مندی ہے؟ آپ تین ماہ بعد تماشا دیکھ لیجیے گا۔

 جولائی اگست میں بارشیں شروع ہوں گی اور نہروں کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ سیلاب میں غوطے کھا رہے ہوں گے اور اسی فوج سے مدد کی اپیل کر رہے ہوں گے جس پر یہ اس وقت نہر بنانے کا الزام لگا رہے ہیں‘ یہ کھیل آخر کب تک چلے گا‘ ہم کب تک بنیادی ایشوز پر سیاست کرتے رہیں گے؟ پانی‘ نہریں اور ڈیمز ماہرین کے کام ہیں‘ عوام ان کی حساسیت نہیں سمجھ سکتے چناں چہ حکومتوں کو چاہیے یہ فوری طور پر ماہرین اکٹھے کریں‘ ملک کے لیے جامع واٹر پالیسی بنائیں اور ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کریں تاکہ ہم کم از کم پانی کے مسئلے سے تو نکل سکیں‘ پنجاب‘ سندھ‘ کے پی‘ بلوچستان اور کشمیر یہ سب پاکستان ہیں‘ کسی ایک صوبے کا فائدہ یا نقصان پورے ملک کا نقصان یا فائدہ ہو گا‘ ہم یہ حقیقت کیوں نہیں سمجھتے‘ ہم آخر کب تک حماقتوں کے جنگلوں میں بھٹکتے رہیں گے اور کب تک نفرت کے گندے تالاب میں غوطے کھاتے رہیں گے؟ ڈھلوانوں کا یہ سفر اب تو رک جانا چاہیے۔

نوٹ:کراچی کی ایک بزرگ خاتون کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی‘ خواب میں روضہ رسولؐ سے متعلق ایک پیغام ہے‘ خاتون گھریلو عورت ہیں‘ عبادت گزار ہیں‘ ان کا سعودی حکومت کے ساتھ کوئی رابط نہیں اگر کسی صاحب کی سعودی ولی عہد تک رسائی ہو تو یہ مہربانی فرما کر خاتون کا خط ان تک پہنچا دیں‘ اس میں خاتون کی کوئی ذاتی حاجت شامل نہیں ‘ اگر کوئی صاحب اس سلسلے میں ان کی مدد کر سکتے ہوں تو وہ مہربانی فرما کر میرے نمبر 0300-8543103 پر واٹس ایپ کر دیں‘ میں ان کا خاتون سے رابطہ کرا دوں گا۔

متعلقہ مضامین

  • ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
  • صیہونی فوج کی وحشیانہ بمباری، فلسطینی صحافی خاندان سمیت شہید
  • سندھ طاس معاہدے پر ایک نظر
  • رجب بٹ پاکستان واپس کب آئیں گے؟ یوٹیوبر نے خاموشی توڑ دی
  • پاکستان باضابطہ طور پر چین کے قمری مشن چانگ 8 کا حصہ بن گیا
  • بھارت نے پاکستان کا پانی بند کیا تو کیا ہوگا؟
  • پاکستان دنیا کا 5 واں سب سے زیادہ آب و ہوا کا شکار ملک قرار
  • پانی‘ پانی اور پانی
  • آئی ایم ایف نے پاکستان کی شرح نمو پیشگوئی 3 فیصد سے کم کر کے 2.6 فیصد کر دی
  • ارتھ ڈے اور پاکستان