امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرف پر ان کی اپنی کابینہ میں بھی لڑائیاں شروع ہوگئیں، ایلون مسک نے وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر نیرو کو احمق قرار دیتے ہوئے کہا کہ اینٹوں کا ڈھیر بھی اس سے زیادہ عقلمند ہوتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں، خصوصاً ٹیرف (درآمدی محصولات) کے معاملے پر اُن کی اپنی کابینہ میں شدید اختلافات کھل کر سامنے آ گئے، مشہور صنعت کار اور ٹیسلا کے بانی ایلون مسک اور وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر نیرو کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، جس نے واشنگٹن کی سیاسی فضا کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔

ایلون مسک جو ماضی میں ٹرمپ حکومت کے مشیرانہ اجلاسوں میں بھی شرکت کر چکے ہیں، انہوں نے پیٹر نیرو پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں ”احمق“ قرار دیا۔

ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ”اینٹوں کا ڈھیر بھی پیٹر نیرو سے زیادہ عقلمند ہو سکتا ہے۔“ ان کا کہنا تھا کہ پیٹر نیرو کی پالیسیاں امریکی صنعت کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور وہ عالمی تجارت کے بنیادی اصولوں کو بھی نہیں سمجھتے۔

جواب میں پیٹر نیرو نے ایلون مسک کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ”ایلون صرف گاڑیاں بیچتے ہیں، انہیں صرف اپنے کاروبار کی فکر ہے، انہیں ٹیرف یا بین الاقوامی تجارت کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں۔“

یہ معاملہ اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب ٹرمپ انتظامیہ نے چین، یورپ اور دیگر ممالک سے درآمد ہونے والی اشیا پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا، جس کا مقصد امریکی صنعت کو تحفظ دینا بتایا گیا تاہم اس پالیسی کے خلاف کئی امریکی صنعت کاروں، بالخصوص ٹیکنالوجی اور آٹوموبائل سیکٹر کے بڑے ناموں نے آواز اٹھائی، جن میں ایلون مسک بھی شامل ہیں۔

ایلون مسک کا اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے؟
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کے بعد ایلون مسک کا ٹرمپ انتظامیہ پر اثر و رسوخ تیزی سے کم ہو رہا ہے، کئی تجزیہ کاروں کے مطابق، ایلون مسک کی کھلی تنقید سے ان کے اور حکومت کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایلون مسک نے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں پر تنقید کی ہو، مگر اس بار معاملہ ذاتی الزامات تک پہنچ گیا ہے، جو مستقبل میں امریکی صنعتی پالیسی پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔

تجزیہ نگار کیا کہتے ہیں؟
سیاسی اور معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی اندرونی لڑائیاں حکومت کی پالیسیوں پر عدم اتفاق اور مستقبل کے لیے غیر یقینی صورتحال کو ظاہر کرتی ہیں۔ اگرچہ ایلون مسک کا موقف بعض حلقوں میں مقبول ہو سکتا ہے، مگر ان کی زبان کی سختی اور پیٹر نیرو پر ذاتی حملے ان کے لیے سیاسی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: امریکی صنعت پیٹر نیرو ایلون مسک

پڑھیں:

کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔

بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔

صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔

طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔

ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔

یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ سے تجارتی کشیدگی کے باعث چینی برآمدات متاثر
  • کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
  • ٹرمپ اور ایلون مسک کی دوستی ختم، امریکی صدر کی سخت نتائج کی دھمکی
  • طاقتور شخصیات کی جنگ، ٹرمپ کی مسک کو ڈیموکریٹس کی حمایت پر سنگین نتائج کی دھمکی
  • ٹرمپ بمقابلہ مسک: ڈیموکریٹس کی حمایت کی تو سنگین نتائج کیلئے تیار رہو،امریکی صدر
  • ایلون مسک کیساتھ تعلقات ختم ہوچکے، اب اس سے بات کرنیکا کوئی ارادہ نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ نے مسک کو خبردار کر دیا، ڈیموکریٹس کی حمایت کی تو سنگین نتائج کیلیے تیار رہو
  • چین امریکا تجارتی مذاکرات پیر کو لندن میں ہوں گے
  • امریکی صدر اور ایلون مسک جھگڑا،’ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں’
  • امریکی صدر اور ایلون مسک جھگڑا،'ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں'