Express News:
2025-06-09@20:00:57 GMT

اداروں میں سیاست

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

کیا اداروں میں سیاست ہوتی ہے؟ سیاست ہر اس جگہ ہوتی ہے جہاں انسان رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں اور ادارے اس سے مستثنٰی نہیں ہے۔ حالانکہ اداروں میں کام کرنے والے تمام لوگوں کےلیے انسان کا لفظ استعمال کرنا بھی مبالغہ آرائی میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

اگر کوئی شخص نوکری کے سلسلے میں ہونے والی ملاقات (انٹرویو) میں یہ کہے کہ اسے پچھلی نوکری محض اس لیے چھوڑنی پڑی تھی کہ وہ سیاست کا شکار ہوگیا تھا تو اس کا یہ جواب کسی بھی طور پر مثبت انداز میں نہیں لیا جائے گا، چاہے ملاقات کرنے والے خود بھی دفتری سیاست کا شکار کیوں نہ ہوئے ہوں۔

اعلیٰ انتظامی عہدوں پر پہنچنے والے عموماً اپنی نوکری کے ابتدائی دور میں سیاست کا شکار ہوئے ہوتے ہیں اور پھر باقی عمر وہ خود لوگوں کا شکار کھیلتے ہیں۔ جواب دینے والے کا یہ جواب کہ وہ سیاست کا شکار ہوا کیوں مثبت انداز میں نہیں لیا جاتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ دفتری سیاست میں آپ ہمیشہ حزب اقتدار کے ساتھ رہے گے اور دفاتر میں حزب اختلاف کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا چاہے معاملہ یا وجہ اصولی، مالی، تہذیبی، یا اخلاقی ہی کیوں نہ ہو۔

آج کل کاروباری دنیا میں نوکری کے کیا حال ہے؟ اس کو سمجھنے کےلیے کسی اجیر کا یہ جواب کافی ہے جو انھوں نے اپنے آجر کی شان میں دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ میں حاجی رجاق بھائی یعنی آجر کا نوکر نہیں بلکہ ’’چاکر‘‘ ہوں۔ اب جن لوگوں کو نوکر اور چاکر کا فرق معلوم نہ ہو تو انھیں یہ فرق جناب مختار مسعود کی کتاب ’’لوح ایام‘‘ میں صفحہ نمبر اٹھاون پر مل جائے گا۔

ویسے اس وقت پورے ملک میں نوکری کا یہی حال ہے اور اس میں نجی اور سرکاری اداروں میں کوئی خاص تفریق نہیں ہے۔ پہلے یہ صرف سرکاری اداروں میں ہوتا تھا کہ یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ کیا کہا جارہا ہے بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ کون کہہ رہا ہے۔ اگر اپنا آدمی کہہ رہا ہے تو غلط بھی صحیح ہے اور اگر دوسری پارٹی کا آدمی کہہ رہا ہے تو پہلی پارٹی پر لازم ہے کہ اس کی درست بات کو بھی غلط قرار دے اور اس کی پوری قوت سے مخالفت کرے، چاہے اس میں ملک کا دیوالیہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔ یہ جھوٹ ہے کہ اداروں کو قابل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اداروں کی قیادت کو ’’صرف‘‘ مقلدین کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے علاوہ باقی سب خطرہ ہوتے ہیں۔ 

میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ حصہ نجی اداروں میں گزارا ہے اور کچھ حصہ ایسے اداروں میں بھی کام کیا ہے جہاں ریاست کے حصص اکثریت میں تھے۔ نجی اداروں میں تو مزاج نہ ملنے پر ’’سیٹھ‘‘ جنبش ابرو سے ملازم کو ملازمت سے فارغ کر دیتا ہے کیونکہ نجی اداروں میں قابلیت سے زیادہ وفاداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بھی ایسی وفاداری کہ جس کےلیے پطرس کو ایک پورا مضمون لکھنا پڑا تھا، ہرچند کہ وہ اس جاندار کی وفاداری پر نہ تھا۔ جبکہ سرکاری اداروں میں ایسے ملازمین سے نمٹنے کا مجرب نسخہ ’’افسر بکار خاص‘‘ بنایا جانا ہوتا ہے۔ اس میں سب سے دلچسپ کردار ادارے کے دیگر ملازمین کا ہوتا ہے کہ جو بیک وقت افسر بکار خاص بنائے جانے والے افسر سے ہمدردی کرتے ہیں اور نئے آنے والے افسر کو باور کرواتے ہیں کہ پہلی دفعہ انتظامیہ نے کوئی فیصلہ میرٹ پر کیا ہے اور اس عہدے پر ان سے بہتر تقرر کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ غلط کو غلط کہہ سکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں چناؤ سفارش کی جنگ ہوتی ہے اور جو یہ جنگ جیت جائے اس چناؤ کو میرٹ پر چناؤ یا شفافیت کہا جاتا ہے۔

میں نے تمام زندگی وفاداری کے مقابلے میں ایمانداری سے نوکری کرنے کو ترجیح دی اور عمر بھر اس کا پرچار بھی کیا لیکن آج کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ میں نے خود تو اپنے مستقبل سے جو کہ اب ماضی ہوچکا ہے، کھلواڑ ہی کیا بلکہ اوروں کو بھی غلط ہی نصیحت کی، حالانکہ یہ غلطی دانستہ نہیں کی تھی بلکہ اپنی طرف سے تو صحیح نصیحت کی کوشش تھی، بس ملک کی صورتحال کو پیش نظر رکھنا بھول گیا تھا۔ یہ ملک ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کے من و رنجن کےلیے بنا ہے۔ یقین نہ آئے تو کرکٹ ٹیم سے لے کر کوئی بھی ٹیم دیکھ لیجئے، آپ کو وہ ٹیم بھانجے، بھتیجے، داماد اور بیٹوں پر مشتمل نظر آئے گی اور ٹیم میں داخلے کےلیے ہم میرٹ کے اشتہار سے اخبار بھر دیں گے۔

آخر میں ایک کہانی اور اختتام۔ یہ کہانی بھی باتصویر سماجی ذرائع ابلاغ پر دیکھی اور پڑھی تھی۔ ایک نوکری کےلیے آخر میں دو امیدوار رہ گئے تھے اور ادارے کا دعوٰی ہے کہ وہ اپنے ادارے میں انتخاب شفاف طریقے سے کرتے ہیں۔ دونوں امیدواروں کو ایک تصویر دکھائی جاتی ہے۔ تصویر میں سیکڑوں گاجریں زمین پر پڑی ہوتی ہیں۔ پہلے امیدوار سے پوچھا جاتا ہے کہ تصویر میں کون سی سبزی دکھائی گئی ہے؟ اور دوسرے امیدوار سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کتنی گاجریں ہیں؟ آپ جیسا کہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ادارے کا ریکارڈ کسی بھی داغ سے محفوظ رہتا ہے کہ وہاں صرف میرٹ پر ہی انتخاب ہوتا ہے۔ اس کہانی کی ایک سے زیادہ اداروں سے مماثلت محض اتفاقی ہے اور اس کو سنجیدہ لینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاست کا شکار ہے اور اس نوکری کے ہوتی ہے

پڑھیں:

بلوچستان میں کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور انہیں تعلیمی اداروں میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟ (Eid Story)

بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا مگر تعلیمی لحاظ سے سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ یہاں تعلیمی سہولیات کی کمی، اسکولوں کی ناکافی تعداد، اساتذہ کی غیر حاضری اور والدین میں تعلیم کی اہمیت کا شعور نہ ہونا جیسے عوامل نے تعلیمی ترقی کو سخت متاثر کیا ہے۔ دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں اسکول جانے والے بچوں کی شرح کم اور شرح خواندگی بھی نہایت کم ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ بلوچستان میں اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد کیا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں 85 فیصد غیر فعال اسکولوں میں تدریس کا آغاز

یہ سوال وی نیوز نے اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ، مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن منیر احمد سے کیا جنہوں نے بتایا کہ موجودہ تعلیمی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے، ملک بھر میں 2 کروڑ 62 لاکھ بچے جبکہ بلوچستان میں 29 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر صوبے میں اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں تک لانے کا پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے لیے ہم نے 2 لاکھ 10 ہزار بچوں کو اسکول لانے کا ہدف مقرر کیا جس کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔

ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کے مطابق یہ ٹیمیں ایک سال کے دوران 2 لاکھ 26 ہزار 563 طلبا کو اسکول لانے میں کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کے رواں ماہ کے اختتام تک ہم ڈھائی لاکھ بچوں کو اسکول لانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس دوران جہاں وزیر تعلیم راحیلہ درانی اور محکمہ تعلیم نے دن رات کوششیں کیں وہیں یونیسف کے تعاون کے بغیر یہ سب ناممکن ہوتا۔

ڈائریکٹر نظامت اسکولز اختر محمد کھیتران نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بلوچستان کے تعلیمی نظام میں کئی مسائل موجود تھے لیکن محکمہ تعلیم کی کاوشوں اور یونیسف کے مشکور ہیں جنہوں نے بلوچستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں احسن قردار ادا کیا۔

مزید پڑھیے: محکمہ تعلیم بلوچستان کا 29 لاکھ بچوں کو اسکولوں میں واپس لانے کا عزم، 372 غیر حاضر اساتذہ نوکری سے فارغ

انہوں نے کہا کہ دراصل بلوچستان میں بڑے پیمانے پر بچے اسکولوں سے باہر ہیں جس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں جن میں ایک وجہ فاصلے کا زیادہ ہونا سب سے بڑی وجہ تھا جس پر قابو پانے کے لیے ہم نے صوبے بھر کے لیے 140 بسیں منگوائی ہیں جن میں سے 5 آچکی ہیں جبکہ باقی مرحلہ وار پہنچ جائیں گی۔

یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں بچوں کے اسکولوں سے باہر ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟

 پروگرام منیجر ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن نقیب اللہ نے بتایا کہ بلوچستان میں تعلیمی صورتحال اب بھی کئی چیلنجز سے دوچار ہے، جہاں اندازاً 30 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اس تعلیمی پسماندگی کی کئی اہم وجوہات ہیں جن میں غربت، اسکولوں کا طویل فاصلہ، موسمیاتی تبدیلیاں، کورونا کی وبا، روزگار کے مواقع کی کمی، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، تقریباً 3 ہزار اسکولوں کی بندش اور تعلیمی نظام میں ناقص تدریسی و جانچ کے طریقہ کار شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پرائمری اسکولوں کی تعداد زیادہ جبکہ مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد نسبتاً کم ہے جس سے تعلیمی تسلسل میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ سیکیورٹی کے مسائل، اساتذہ کی کمی اور طلبہ کی کم حاضری بھی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ان مشکلات کے مقابلے کے لیے یونیسف بلوچستان کے تعلیمی شعبے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ یونیسف کی معاونت سے بلوچستان ایجوکیشن سیکٹر پلان تیار کیا گیا، جس کے تحت اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت، اسیسمنٹ میکینزم کی بہتری اور اسکولوں کی بنیادی سہولیات کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔

نقیب اللہ نے بتایا کہ ہم نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ٹرانزیشنل اسکول شیلٹرز قائم کیے گئے اور اسکول مانیٹرنگ کے لیے ریئل ٹائم سسٹم متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متبادل تعلیمی راستے (Alternative Learning Pathways) بھی متعارف کرائے گئے ہیں، جن کے ذریعے ہزاروں بچوں کو دوبارہ تعلیم کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ یونیسف نے اسکل بیسڈ تعلیم کی شروعات کی ہے جس میں مڈل ٹیک اور میٹرک ٹیک کی کلاسز شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں تعلیم کی تنزلی تیزی سے جاری، غیر فعال اسکول ساڑھے 3 ہزار سے متجاوز

ان کا کہنا تھا کہ کمیونٹی کی شمولیت کے لیے والدین اور ٹیچر ایسوسی ایشنز، اسکول مینجمنٹ کمیٹیاں اور لوکل ایجوکیشن کونسلز فعال کی گئی ہیں۔ بچوں میں قیادت پیدا کرنے کے لیے چیمپئن کلبز قائم کیے گئے ہیں اور ماحولیاتی آگاہی و تعلیمی داخلہ مہمات بھی سالانہ بنیاد پر منعقد کی جاتی ہیں۔

نقیب اللہ نے مزید کہا کہ بچوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے لائبریریوں کا قیام، بچیوں کی مخصوص مسائل پر آگاہی اور تعلیمی مواد کی فراہمی جیسے اقدامات بھی جاری ہیں۔ ڈسٹرکٹ سطح پر ایجوکیشن گروپس ماہانہ بنیادوں پر میٹنگز کرتے ہیں جبکہ صوبائی سطح پر لوکل ایجوکیشن گروپ ہر 90 دن بعد تعلیمی اہداف کا جائزہ لیتا ہے۔ حالیہ برسوں میں حکومتی اقدامات، بشمول ٹیچرز کی بھرتی اور بند اسکولوں کی بحالی، تعلیم میں بہتری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن، فیصلہ سازی کے بہتر نظام، اور اسکولوں کی حاضری و سہولیات میں بہتری سے واضح تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اگر موجودہ رفتار سے اقدامات جاری رہے تو بلوچستان کا تعلیمی مستقبل روشن ہونے کی امید ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آؤٹ آف اسکول بلوچستان بلوچستان اسکول سے باہر بچے بلوچستان کے اسکول بلوچستان میں تعلیم کی صورتحال

متعلقہ مضامین

  • گوشت، متوازن غذا کا اہم جزو
  • افسوس بھارت نے سیاست کو مذہب سے جوڑ دیا: رمیش سنگھ اروڑا
  • بلوچستان میں کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور انہیں تعلیمی اداروں میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟ (Eid Story)
  • ٹرمپ اور ایلون مسک آمنے سامنے: سیاست، معیشت اور خلائی پروگرام پر لرزہ طاری
  • پیپلز پارٹی، وزیراعلیٰ، مرتضیٰ وہاب سے درخواست ہے کہ شہریوں کو جینے کا حق دیں، منعم ظفر خان
  • عید پر فلاحی و مذہبی اداروں کی کھالیں جمع کرنے کی سرگرمیاں تیز
  • کرسٹیانو رونالڈو کا فیفا کلب ورلڈ کپ میں کھیلنے سے انکار
  • پی ٹی آئی کی تحریک کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی، وفاق سے ڈائیلاگ کرے: شرجیل میمن
  • بیروزگار نوجوان جعلی نوکری کے لیے کمپنیوں کو یومیہ فیس کیوں دیتے ہیں؟
  • سیاست میں اتار چڑھا آتا رہتا، پی ٹی آئی کی مقبولیت کم نہیں ہوئی، فواد چودھری