کیا اداروں میں سیاست ہوتی ہے؟ سیاست ہر اس جگہ ہوتی ہے جہاں انسان رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں اور ادارے اس سے مستثنٰی نہیں ہے۔ حالانکہ اداروں میں کام کرنے والے تمام لوگوں کےلیے انسان کا لفظ استعمال کرنا بھی مبالغہ آرائی میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
اگر کوئی شخص نوکری کے سلسلے میں ہونے والی ملاقات (انٹرویو) میں یہ کہے کہ اسے پچھلی نوکری محض اس لیے چھوڑنی پڑی تھی کہ وہ سیاست کا شکار ہوگیا تھا تو اس کا یہ جواب کسی بھی طور پر مثبت انداز میں نہیں لیا جائے گا، چاہے ملاقات کرنے والے خود بھی دفتری سیاست کا شکار کیوں نہ ہوئے ہوں۔
اعلیٰ انتظامی عہدوں پر پہنچنے والے عموماً اپنی نوکری کے ابتدائی دور میں سیاست کا شکار ہوئے ہوتے ہیں اور پھر باقی عمر وہ خود لوگوں کا شکار کھیلتے ہیں۔ جواب دینے والے کا یہ جواب کہ وہ سیاست کا شکار ہوا کیوں مثبت انداز میں نہیں لیا جاتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ دفتری سیاست میں آپ ہمیشہ حزب اقتدار کے ساتھ رہے گے اور دفاتر میں حزب اختلاف کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا چاہے معاملہ یا وجہ اصولی، مالی، تہذیبی، یا اخلاقی ہی کیوں نہ ہو۔
آج کل کاروباری دنیا میں نوکری کے کیا حال ہے؟ اس کو سمجھنے کےلیے کسی اجیر کا یہ جواب کافی ہے جو انھوں نے اپنے آجر کی شان میں دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ میں حاجی رجاق بھائی یعنی آجر کا نوکر نہیں بلکہ ’’چاکر‘‘ ہوں۔ اب جن لوگوں کو نوکر اور چاکر کا فرق معلوم نہ ہو تو انھیں یہ فرق جناب مختار مسعود کی کتاب ’’لوح ایام‘‘ میں صفحہ نمبر اٹھاون پر مل جائے گا۔
ویسے اس وقت پورے ملک میں نوکری کا یہی حال ہے اور اس میں نجی اور سرکاری اداروں میں کوئی خاص تفریق نہیں ہے۔ پہلے یہ صرف سرکاری اداروں میں ہوتا تھا کہ یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ کیا کہا جارہا ہے بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ کون کہہ رہا ہے۔ اگر اپنا آدمی کہہ رہا ہے تو غلط بھی صحیح ہے اور اگر دوسری پارٹی کا آدمی کہہ رہا ہے تو پہلی پارٹی پر لازم ہے کہ اس کی درست بات کو بھی غلط قرار دے اور اس کی پوری قوت سے مخالفت کرے، چاہے اس میں ملک کا دیوالیہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔ یہ جھوٹ ہے کہ اداروں کو قابل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اداروں کی قیادت کو ’’صرف‘‘ مقلدین کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے علاوہ باقی سب خطرہ ہوتے ہیں۔
میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ حصہ نجی اداروں میں گزارا ہے اور کچھ حصہ ایسے اداروں میں بھی کام کیا ہے جہاں ریاست کے حصص اکثریت میں تھے۔ نجی اداروں میں تو مزاج نہ ملنے پر ’’سیٹھ‘‘ جنبش ابرو سے ملازم کو ملازمت سے فارغ کر دیتا ہے کیونکہ نجی اداروں میں قابلیت سے زیادہ وفاداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بھی ایسی وفاداری کہ جس کےلیے پطرس کو ایک پورا مضمون لکھنا پڑا تھا، ہرچند کہ وہ اس جاندار کی وفاداری پر نہ تھا۔ جبکہ سرکاری اداروں میں ایسے ملازمین سے نمٹنے کا مجرب نسخہ ’’افسر بکار خاص‘‘ بنایا جانا ہوتا ہے۔ اس میں سب سے دلچسپ کردار ادارے کے دیگر ملازمین کا ہوتا ہے کہ جو بیک وقت افسر بکار خاص بنائے جانے والے افسر سے ہمدردی کرتے ہیں اور نئے آنے والے افسر کو باور کرواتے ہیں کہ پہلی دفعہ انتظامیہ نے کوئی فیصلہ میرٹ پر کیا ہے اور اس عہدے پر ان سے بہتر تقرر کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ غلط کو غلط کہہ سکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں چناؤ سفارش کی جنگ ہوتی ہے اور جو یہ جنگ جیت جائے اس چناؤ کو میرٹ پر چناؤ یا شفافیت کہا جاتا ہے۔
میں نے تمام زندگی وفاداری کے مقابلے میں ایمانداری سے نوکری کرنے کو ترجیح دی اور عمر بھر اس کا پرچار بھی کیا لیکن آج کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ میں نے خود تو اپنے مستقبل سے جو کہ اب ماضی ہوچکا ہے، کھلواڑ ہی کیا بلکہ اوروں کو بھی غلط ہی نصیحت کی، حالانکہ یہ غلطی دانستہ نہیں کی تھی بلکہ اپنی طرف سے تو صحیح نصیحت کی کوشش تھی، بس ملک کی صورتحال کو پیش نظر رکھنا بھول گیا تھا۔ یہ ملک ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کے من و رنجن کےلیے بنا ہے۔ یقین نہ آئے تو کرکٹ ٹیم سے لے کر کوئی بھی ٹیم دیکھ لیجئے، آپ کو وہ ٹیم بھانجے، بھتیجے، داماد اور بیٹوں پر مشتمل نظر آئے گی اور ٹیم میں داخلے کےلیے ہم میرٹ کے اشتہار سے اخبار بھر دیں گے۔
آخر میں ایک کہانی اور اختتام۔ یہ کہانی بھی باتصویر سماجی ذرائع ابلاغ پر دیکھی اور پڑھی تھی۔ ایک نوکری کےلیے آخر میں دو امیدوار رہ گئے تھے اور ادارے کا دعوٰی ہے کہ وہ اپنے ادارے میں انتخاب شفاف طریقے سے کرتے ہیں۔ دونوں امیدواروں کو ایک تصویر دکھائی جاتی ہے۔ تصویر میں سیکڑوں گاجریں زمین پر پڑی ہوتی ہیں۔ پہلے امیدوار سے پوچھا جاتا ہے کہ تصویر میں کون سی سبزی دکھائی گئی ہے؟ اور دوسرے امیدوار سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کتنی گاجریں ہیں؟ آپ جیسا کہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ادارے کا ریکارڈ کسی بھی داغ سے محفوظ رہتا ہے کہ وہاں صرف میرٹ پر ہی انتخاب ہوتا ہے۔ اس کہانی کی ایک سے زیادہ اداروں سے مماثلت محض اتفاقی ہے اور اس کو سنجیدہ لینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیاست کا شکار ہے اور اس نوکری کے ہوتی ہے
پڑھیں:
بلدیاتی ادارے اور پارلیمنٹ
بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری قرار دیے جاتے ہیں مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ جمہوریت کی یہ نرسری ہمیشہ پاکستان میںغیر سول حکومتوں میں پروان چڑھی اور آمر کہلانے والے حکمرانوں نے ملک کو منتخب بلدیاتی نمایندے دیے اور جمہوری کہلانے والے سیاسی حکمرانوں نے آمروں کے دیے گئے بلدیاتی ادارے پروان چڑھانے کی بجائے انھیں ختم کیا اور اگر برقرار رکھا تو ان کا وجود نہ ہونے کے برابر اور اختیارات برائے نام تھے۔
غیر سول حکومتوں میں منتخب بلدیاتی اداروں کی حوصلہ افزائی کیگئی مگر سیاسی حکومتوں نے سب سے پہلا وار منتخب بلدیاتی اداروں پر کیا اور انھیں توڑ کر ان کے منتخب عہدیداروں کو برطرف کر کے سرکاری افسروں کو بطور ایڈمنسٹریٹر ان پر مسلط کیا۔
قیام پاکستان کے بعد سیاسی حکومت میں 1956 میں ملک کے لیے ایک آئین ملا تھا مگر گورنر جنرلوں کے بعد غلام محمد اور اسکندر مرزا جو بیورو کریٹ اور مکمل اختیارات کے حامل تھے، انھوں نے سیاسی حکومتوں کو ہی چلنے نہیں دیا تو وہ ملک میں بلدیاتی اداروں کو کیوں فروغ دیتے حالانکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں سے زیادہ جمہوری ہمیشہ عوام کے منتخب ادارے ہوتے ہیں جن سے عوام کا سب سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔
اسمبلیوں کی طرح عوام کے ذریعے ہی بلدیاتی اداروں کے پہلے کونسلر منتخب ہوتے ہیں جو بعد میں اپنے اداروں کا اسی طرح انتخاب کرتے ہیں جس طرح ارکان قومی اسمبلی وزیر اعظم کا اور ارکان صوبائی اسمبلی وزرائے اعلیٰ کا کرتے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے ملک میں سب سے پہلے بی ڈی نظام دیا تھا جس کے تحت بی ڈی ممبر منتخب کیے جاتے تھے جو اپنی یوسی کی سربراہی کے لیے یوسی چیئرمین منتخب کرتے تھے جو اپنے شہر کی بلدیہ کے لیے وائس چیئرمین منتخب کرتے تھے جب کہ سرکاری طور پر چیئرمین کا تقررکیا جاتا تھا اور بلدیہ کونسل میں منتخب کونسلروں کے منتخب چیئرمین ممبر ہوتے تھے۔
ان کونسلوں میں چیئرمینوں کے اختیارات زیادہ ہوتے تھے اور ان بلدیاتی کونسلوں کے باقاعدہ اجلاس ہوتے تھے جن میں شہر کے مسائل کے حل اور تعمیری و ترقیاتی کاموں کی منظوری دی جاتی تھی۔ صدر جنرل ایوب خان نے ملک کے 80 ہزار یوسی چیئرمینوں کے ذریعے خود کو صدر منتخب کرایا تھا اور محترمہ فاطمہ جناح نے ان کا مقابلہ کیا تھا مگر برسر اقتدار صدر جنرل ایوب نے سرکاری وسائل کے ذریعے دھاندلی کرا کر محترمہ کو شکست دلائی تھی۔ ایوب خان ملک کے پہلے آمر تھے جنھوں نے ملک میں جمہوریت قائم نہیں ہونے دی تھی جن کے پوتے عمر ایوب موجودہ اپوزیشن لیڈر ہیں اور قومی اسمبلی میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو 1958 میں سیاسی جمہوری حکومت ختم کرکے ملک میں مارشل لا لگانے والے ان کے دادا کے حوالے سے ان پر کڑی تنقید ہوتی ہے۔
جنرل ایوب کے بعد جنرل یحییٰ نے اقتدار سنبھالا تھا جن کے اقتدار میں ملک دولخت ہوا تھا۔ 1970 کے الیکشن کے نتیجے میں باقی پاکستان کے بھٹو صاحب وزیر اعظم بنے تھے جنھوں نے ملک کو 1973 کا جو متفقہ آئین دیا تھا۔ اس میں عوام کے منتخب بلدیاتی اداروں کا قیام بھی ہونا تھا مگر بھٹو دور میں ملک میں کوئی بلدیاتی الیکشن نہیں ہوا تھا۔ 1977 میں ملک میں جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگانے کے بعد 1979 میں ملک کو نیا بلدیاتی نظام دیا تھا جس کے تحت ہر چار سال بعد باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات ہوئے جن میں کونسلر ٹاؤن، شہر، ضلع کونسلوں کے لیے چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کا انتخاب کرتے تھے جو ہر ماہ اپنے بلدیاتی اداروں کے اجلاس منعقد کرتے جن میں اہم فیصلے ہوتے جن سے بلدیاتی مسائل حل ہوتے تھے اور بلدیاتی اداروں کے سربراہوں تک سے لوگ مل کر اپنے علاقوں کے بنیادی مسائل حل کراتے تھے مگر جنرل ضیا کے بلدیاتی نظام میں کمشنروں، ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنروں کو ان بلدیاتی اداروں پر کنٹرولنگ اتھارٹی کے اختیارات حاصل ہوا کرتے تھے اور منظور شدہ بجٹ کی منظوری ان کے ذریعے اور توثیق محکمہ بلدیات کرتا تھا اور جنرل ضیا کا بلدیاتی نظام بااختیار نہیں تھا۔
جنرل پرویز مشرف مسلم لیگ اور پی پی کے مخالف تھے انھوں نے نواز شریف کو ہٹا کر خود اقتدار سنبھالا تھا اور انھوں نے قومی تعمیر نو بیورو بنایا تھا جس کے تحت انھوں نے 2001 میں ملک کو ایک مکمل بااختیار نظام ضلعی حکومتوں کی شکل میں دیا تھا جس سے ملک بھر میں ضلعی حکومتیں قائم ہوئیں جن کے منتخب ناظمین کو مکمل مالی و انتظامی اختیارات دیے گئے تھے اور ملک سے کمشنری نظام ختم کر دیا گیا تھا اور ہر صوبے میں محکمہ بلدیات برائے نام رہ گیا تھا جس کی جنرل ضیا کے دور میں بلدیاتی اداروں پر مکمل گرفت ہوتی تھی۔
ضلعی حکومتوں میں صوبائی سیکریٹریوں، کمشنر و ڈپٹی کمشنروں کو بطور ڈی سی اور ہر ضلعی ناظم کا ماتحت کر دیا تھا اور بلدیاتی اداروں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مداخلت ختم ہوئی جن کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز ضلعی حکومتوں کو ملے اور ضلعی حکومتوں نے بہترین کارکردگی دکھائی جس کی واضح مثال کراچی کی سٹی حکومت تھی جس کے سٹی ناظمین نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال نے کراچی کی کایا پلٹ دی تھی اور دیگر اضلاع میں بھی ضلعی حکومتوں نے بہترین ترقیاتی کام کرائے جس کی وجہ سے ارکان اسمبلی کی اہمیت ختم ہوئی اور ناظمین کی اتنی اہمیت بڑھی تھی کہ متعدد ارکان اسمبلی نے اسمبلیاں چھوڑ کر ناظمین کا الیکشن لڑا تھا اور بیورو کریسی بھی ضلعی نظام کے خلاف تھی اور دونوں نے مل کر ضلعی حکومتی نظام ختم کرایا تھا۔
2002 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ق) کی حکومتیں تھیں اور 2005 میں وزرائے اعلیٰ نے ارکان اسمبلی اور بیورو کریسی کی خوشنودی کے لیے ضلعی حکومتوں کے اختیارات کم کرانے پر جنرل پرویز کو راضی کیا تھا تاکہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی اہمیت بڑھے کیونکہ ضلعی حکومتوں کی وجہ سے پارلیمنٹ اور اسمبلیاں قانون سازی تک محدود ہو گئی تھیں جو ان کا اصل کام تھا مگر اسمبلی ارکان و ارکان پارلیمنٹ بلدیاتی اداروں کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز سے محروم ہو گئے تھے جو ان کی کمائی، اثر و رسوخ اور کرپشن کا ذریعہ تھا۔ 2008 میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے 2009 میں بااختیار ضلعی نظام ختم کرکے جنرل ضیا کا 1979 کا بے اختیار بلدیاتی نظام بحال کر دیا تھا جو مزید بے اختیار ہو کر محکمہ بلدیات کے تحت محکوم ہو کر رہ گیا ہے اور پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان بلدیاتی اداروں پر حاوی ہیں۔