Express News:
2025-11-04@04:37:45 GMT

اداروں میں سیاست

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

کیا اداروں میں سیاست ہوتی ہے؟ سیاست ہر اس جگہ ہوتی ہے جہاں انسان رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں اور ادارے اس سے مستثنٰی نہیں ہے۔ حالانکہ اداروں میں کام کرنے والے تمام لوگوں کےلیے انسان کا لفظ استعمال کرنا بھی مبالغہ آرائی میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

اگر کوئی شخص نوکری کے سلسلے میں ہونے والی ملاقات (انٹرویو) میں یہ کہے کہ اسے پچھلی نوکری محض اس لیے چھوڑنی پڑی تھی کہ وہ سیاست کا شکار ہوگیا تھا تو اس کا یہ جواب کسی بھی طور پر مثبت انداز میں نہیں لیا جائے گا، چاہے ملاقات کرنے والے خود بھی دفتری سیاست کا شکار کیوں نہ ہوئے ہوں۔

اعلیٰ انتظامی عہدوں پر پہنچنے والے عموماً اپنی نوکری کے ابتدائی دور میں سیاست کا شکار ہوئے ہوتے ہیں اور پھر باقی عمر وہ خود لوگوں کا شکار کھیلتے ہیں۔ جواب دینے والے کا یہ جواب کہ وہ سیاست کا شکار ہوا کیوں مثبت انداز میں نہیں لیا جاتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ دفتری سیاست میں آپ ہمیشہ حزب اقتدار کے ساتھ رہے گے اور دفاتر میں حزب اختلاف کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا چاہے معاملہ یا وجہ اصولی، مالی، تہذیبی، یا اخلاقی ہی کیوں نہ ہو۔

آج کل کاروباری دنیا میں نوکری کے کیا حال ہے؟ اس کو سمجھنے کےلیے کسی اجیر کا یہ جواب کافی ہے جو انھوں نے اپنے آجر کی شان میں دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ میں حاجی رجاق بھائی یعنی آجر کا نوکر نہیں بلکہ ’’چاکر‘‘ ہوں۔ اب جن لوگوں کو نوکر اور چاکر کا فرق معلوم نہ ہو تو انھیں یہ فرق جناب مختار مسعود کی کتاب ’’لوح ایام‘‘ میں صفحہ نمبر اٹھاون پر مل جائے گا۔

ویسے اس وقت پورے ملک میں نوکری کا یہی حال ہے اور اس میں نجی اور سرکاری اداروں میں کوئی خاص تفریق نہیں ہے۔ پہلے یہ صرف سرکاری اداروں میں ہوتا تھا کہ یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ کیا کہا جارہا ہے بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ کون کہہ رہا ہے۔ اگر اپنا آدمی کہہ رہا ہے تو غلط بھی صحیح ہے اور اگر دوسری پارٹی کا آدمی کہہ رہا ہے تو پہلی پارٹی پر لازم ہے کہ اس کی درست بات کو بھی غلط قرار دے اور اس کی پوری قوت سے مخالفت کرے، چاہے اس میں ملک کا دیوالیہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔ یہ جھوٹ ہے کہ اداروں کو قابل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اداروں کی قیادت کو ’’صرف‘‘ مقلدین کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے علاوہ باقی سب خطرہ ہوتے ہیں۔ 

میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ حصہ نجی اداروں میں گزارا ہے اور کچھ حصہ ایسے اداروں میں بھی کام کیا ہے جہاں ریاست کے حصص اکثریت میں تھے۔ نجی اداروں میں تو مزاج نہ ملنے پر ’’سیٹھ‘‘ جنبش ابرو سے ملازم کو ملازمت سے فارغ کر دیتا ہے کیونکہ نجی اداروں میں قابلیت سے زیادہ وفاداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بھی ایسی وفاداری کہ جس کےلیے پطرس کو ایک پورا مضمون لکھنا پڑا تھا، ہرچند کہ وہ اس جاندار کی وفاداری پر نہ تھا۔ جبکہ سرکاری اداروں میں ایسے ملازمین سے نمٹنے کا مجرب نسخہ ’’افسر بکار خاص‘‘ بنایا جانا ہوتا ہے۔ اس میں سب سے دلچسپ کردار ادارے کے دیگر ملازمین کا ہوتا ہے کہ جو بیک وقت افسر بکار خاص بنائے جانے والے افسر سے ہمدردی کرتے ہیں اور نئے آنے والے افسر کو باور کرواتے ہیں کہ پہلی دفعہ انتظامیہ نے کوئی فیصلہ میرٹ پر کیا ہے اور اس عہدے پر ان سے بہتر تقرر کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ غلط کو غلط کہہ سکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں چناؤ سفارش کی جنگ ہوتی ہے اور جو یہ جنگ جیت جائے اس چناؤ کو میرٹ پر چناؤ یا شفافیت کہا جاتا ہے۔

میں نے تمام زندگی وفاداری کے مقابلے میں ایمانداری سے نوکری کرنے کو ترجیح دی اور عمر بھر اس کا پرچار بھی کیا لیکن آج کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ میں نے خود تو اپنے مستقبل سے جو کہ اب ماضی ہوچکا ہے، کھلواڑ ہی کیا بلکہ اوروں کو بھی غلط ہی نصیحت کی، حالانکہ یہ غلطی دانستہ نہیں کی تھی بلکہ اپنی طرف سے تو صحیح نصیحت کی کوشش تھی، بس ملک کی صورتحال کو پیش نظر رکھنا بھول گیا تھا۔ یہ ملک ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کے من و رنجن کےلیے بنا ہے۔ یقین نہ آئے تو کرکٹ ٹیم سے لے کر کوئی بھی ٹیم دیکھ لیجئے، آپ کو وہ ٹیم بھانجے، بھتیجے، داماد اور بیٹوں پر مشتمل نظر آئے گی اور ٹیم میں داخلے کےلیے ہم میرٹ کے اشتہار سے اخبار بھر دیں گے۔

آخر میں ایک کہانی اور اختتام۔ یہ کہانی بھی باتصویر سماجی ذرائع ابلاغ پر دیکھی اور پڑھی تھی۔ ایک نوکری کےلیے آخر میں دو امیدوار رہ گئے تھے اور ادارے کا دعوٰی ہے کہ وہ اپنے ادارے میں انتخاب شفاف طریقے سے کرتے ہیں۔ دونوں امیدواروں کو ایک تصویر دکھائی جاتی ہے۔ تصویر میں سیکڑوں گاجریں زمین پر پڑی ہوتی ہیں۔ پہلے امیدوار سے پوچھا جاتا ہے کہ تصویر میں کون سی سبزی دکھائی گئی ہے؟ اور دوسرے امیدوار سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کتنی گاجریں ہیں؟ آپ جیسا کہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ادارے کا ریکارڈ کسی بھی داغ سے محفوظ رہتا ہے کہ وہاں صرف میرٹ پر ہی انتخاب ہوتا ہے۔ اس کہانی کی ایک سے زیادہ اداروں سے مماثلت محض اتفاقی ہے اور اس کو سنجیدہ لینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاست کا شکار ہے اور اس نوکری کے ہوتی ہے

پڑھیں:

فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-01-21

 

پشاور(خبرایجنسیاں) پاک فوج کے ترجمان  لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی، اسے سیاست سے دور رکھا جائے اور غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔پشاور میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھاکہ بس بہت ہوگیا افغانستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، افغان طالبان سے سیکورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے، طاقت کے بل بوتے پر امن قائم کرینگے، افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے یا ہمارے حوالے کرے جب کہ افغانستان میں نمائندہ حکومت نہیں، ہم افغانستان میں عوامی نمائندہ حکومت کے حامی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت اس بار سمندر کے راستے کارروائی کی تیاری کر رہا ہے تاہم مکمل الرٹ اورنظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت کوجو بھی کرنا ہے کرلے، اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا۔ان کاکہنا تھاکہ افغانستان سے کوئی حملہ ہوا تو جنگ بندی ختم تصور کی جائے گی اور دراندازی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔پاک فوج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں افغانستان میں ڈرون حملوں کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ہمارا امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔انہوں نے امریکی ڈرونز کے پاکستان سے افغان فضائی حدود میں جانے کے الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم نے خود اب تک کوئی باضابطہ شکایت بھی نہیں کی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز ہے، افغانستان میں ہرقسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور افغانستان دہشت گردی پیدا کررہا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیلا رہا ہے۔فوجی ترجمان نے کہا کہ افغانستان کی طرف سے رکھی گئی شرائط کی کوئی اہمیت نہیں، اصل مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کی ضامن پاک فوج ہے، افغانستان نہیں اور یہ بھی واضح کیا کہ اسلام آباد نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ استنبول میں افغان طالبان کو واضح طور پر کہا گیا کہ وہ دہشت گردی کو کنٹرول کریں، یہ ان کا کام ہے کہ وہ کیسے کریں۔ان کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی آپریشن کے دوران دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے، انہیں ہمارے حوالے کریں، ہم آئین و قانون کے مطابق ان سے نمٹیں گے۔ ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا نارکو اکنامی سے تعلق ہے، جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان گٹھ جوڑ موجود ہے، خیبرپختونخوا میں 12 ہزار ایکڑ پر پوست کاشت کی گئی ہے، فی ایکڑ پوست پر منافع 18 لاکھ سے 32 لاکھ روپے بتایا جاتا ہے،مقامی سیاستدان اور لوگ بھی پوست کی کاشت میں ملوث ہیں، افغان طالبان اس لیے ان کو تحفظ دیتے ہیں کہ یہ پوست افغانستان جاتی ہے، افغانستان میں پھر اس پوست سے آئس اور دیگر منشات بنائی جاتی ہیں، تیراہ میں آپریشن کی وجہ سے یہاں افیون کی فصل تباہ کی گئی، وادی میں ڈرونز، اے این ایف اور ایف سی کے ذریعے پوست تلف کی گئی۔ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ میں پبلک سرونٹ ہوں کسی پر الزام نہیں لگا سکتا، سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے چیف منسٹر ہیں، ان سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا، کورکمانڈر پشاور نے بھی ریاستی اور سرکاری تعلق کے تحت ملاقات کی جب کہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ تصوراتی ہے، یہ فیصلہ ہمیں نہیں وفاقی حکومت کوکرنا ہے۔ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ ملک میں 2025ء کے دوران 62 ہزار سے زاید آپریشنز کیے گئے، اس دوران آپریشنز میں 1667 دہشت گرد مارے گئے جب کہ دہشت گرد حملوں میں 206 سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے، سیکورٹی فورسز نے جھڑپوں میں 206 افغان طالبان اور 100 سے فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔

خبر ایجنسی

متعلقہ مضامین

  • فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
  • فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی:ڈی جی آئی ایس پی آر
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریگی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • بلیاں بھی انسانوں کی طرح مختلف مزاج رکھتی ہیں، ہر بلی دوست کیوں نہیں بنتی؟
  • صرف بیانات سے بات نہیں بنتی، سیاست میں بات چیت ہونی چاہیے: عطاء تارڑ
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • نوکری سے نکالنے پر ملازم نے بریانی سینٹر کے مالک پر فائرنگ کردی
  • اسپینش فٹبال اسٹار لامین یامال ناقابل علاج انجری کا شکار