Daily Ausaf:
2025-11-03@07:01:08 GMT

خاموش لابی۔۔۔۔۔بلندسازشیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
کینیڈی کااسرائیلی نیوکلیئرپروگرام کی بین الاقوامی نگرانی پرزوردینامحض ایک سفارتی معاملہ نہیں تھابلکہ اس دورکی سردجنگ کی سیاسی وتزویراتی حقیقت کاحصہ تھا۔1963ء میں جان ایف کینیڈی نے اسرائیل کوخطوط لکھے،جن میں دیموناتنصیبات کامعائنہ کرنے کا سخت مطالبہ کیا۔ اسرائیلی قیادت نے امریکی دباؤکومستردکرتے ہوئے اس معاملے کو’’قومی بقا‘‘کاحصہ قراردیا۔
بعض محققین کاخیال ہے کہ اسرائیلی لابی اور کینیڈی انتظامیہ کاتناؤمحض پالیسی کامعاملہ نہیں، بلکہ اس تاریخی تناؤنے امریکی سیاسی کلچراورخارجہ پالیسی پردوررس اثرات ڈالے۔
نیشنل سیکیورٹی آرکائیو2006ء میں ’’ اسرائیل حدعبور کرتا ہے‘‘میں ایونرکوہن اورولیم برکے مطابق کس طرح جان ایف کینیڈی کے ساتھ تناؤاورمبہم حالات میں قتل،لابی اورخارجی پالیسی کی یوں سیاہ گٹھ جوڑکی ایسی یادگارمثال ہمارے سامنے ہے کہ آج تک کینیڈی کی موت ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
2018میں امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی،اورگولان کی پہاڑیوں پراسرائیلی حاکمیت کی توثیق گویاٹرمپ کے سابقہ دورمیں اسرائیل اور امریکا کاتعلق بظاہرعروج پردکھائی دیتاتھاتاہم حالیہ برسوں میں بعض امورپردونوں کانقطہ نظر متصادم دکھائی دیالیکن ایران کے ایٹمی پلانٹ پر خوفناک حملہ کے جواب میں جب ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں کواپنے میزائلوں کانشانہ بنایاتواس کے فوری بعدایک مرتبہ پھرٹرمپ کی طرف سے سیزفائرکااعلان کردیاگیااورپہلی مرتبہ ٹرمپ کے بیانات سے اسرائیل کے ساتھ تناؤکی کیفیت کااظہارسامنے آیاجس کی وجہ ایران پرحملے کے طریقہ کارپراسرائیل نے اپنے تحفظات کااظہارکیاجس کے بعداسرائیل کی سکیورٹی پالیسی اورامریکی مفادات کاتفاوت یعنی بعض حساس خفیہ معلومات کااسرائیل کی جانب سے مبینہ افشاکا انکشاف بھی سامنے آیا۔
حالیہ دنوں میں،ٹرمپ کارویہ بعض اسرائیلی پالیسیوں اوراقدامات پرشدید ناراضگی کاعکاس نظر آرہا ہے۔ اس کابنیادی سبب عسکری پالیسیوں میں اختلاف یعنی اسرائیل کاایران اوردیگرہمسایہ ممالک پرجارحانہ مؤقف،جوامریکی امن منصوبوں اور ’’ڈی، اسکلیشن ‘‘ پالیسیوں سے ہم آہنگ نہیں۔اسرائیل کی جانب سے بعض حساس خفیہ معلومات کالیک ہونا یا امریکی توقعات پرپورانہ اترنا، معاہدہ شکنی اوراعتماد کا فقدان بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ٹرمپ کامزاج،ذاتی سیاسی تناؤاور اسرائیلی قیادت کارویہ بعض مواقع پرٹکراؤکا باعث بن گیا۔
سوال یہ ہے کہ کیاٹرمپ کی حالیہ ناراضگی یہودی لابی کومتحرک کرسکتی ہے؟امریکامیں اسرائیلی لابی روایتی طورپرری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں پارٹیوں میں ہمہ گیراثرورسوخ رکھتی ہے۔حالیہ برسوں میں اس لابی نے ٹرمپ کواسرائیل نواز پالیسیوں،جیسے امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی اورگولان کی پہاڑیوں کواسرائیلی حصہ تسلیم کرنے جیسے اقدامات پر سراہا۔تاہم،حالیہ ناراضگی اورتنقید اس لابی میں بے چینی کاباعث بن رہی ہے۔اس کاممکنہ نتیجہ ہوسکتاہے۔
آئندہ انتخابی مہم اوردیگرسیاسی حمایت میں لابی کی جانب سے سردمہری کے طورپرمالی امدادمیں کمی ہوسکتی ہے۔
اسرائیل نوازمیڈیاپلیٹ فارمزاورتھنک ٹینکس کی جانب سے ٹرمپ مخالف بیانیے کافروغ کاامکان بھی ہوسکتاہے جس سے امریکی رائے عامہ میں ٹرمپ کے خلاف مہم شروع کی جاسکتی ہے۔
قانون سازایوانوں میں اسرائیل کی حمایت کرنے والے سینیٹرزاورارکانِ کانگریس کی مخالفت کی شکل میں سیاسی محاذآرائی شروع ہوسکتی ہے۔
اندرونی بیوروکریسی اوراسٹیبلشمنٹ میں لابی کااستعمال کرتے ہوئے خارجہ پالیسی میں ٹرمپ کو غیرمؤثرکرنے کی کوششیں اور خفیہ دباؤکا امکان بھی ہے۔
امریکی سیاسی تاریخ شاہدہے کہ اسرائیل کی لابی محض خارجی پالیسی کاحصہ نہیں،بلکہ امریکی سیاسی عمل کاحصہ ہے۔ماضی میں جان ایف کینیڈی اوردیگر رہنمائوں کی مثال یہ باورکراتی ہے کہ اسرائیل کی لابی محض’’مشیر‘‘یا’’حامی‘‘نہیں، بلکہ بعض مواقع پر پالیسی سازی کی سمت اوربعض اوقات تقدیرِسیاست تک متعین کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔تاہم ٹرمپ اور اسرائیل کاحالیہ تنامحض وقتی اختلافِ رائے نہیں بلکہ امریکی داخلی سیاسی امتحان ہے۔اسرائیلی لابی،ماضی کی روایات اورتاریخی مثالوں کی بنیادپر،اس پوزیشن میں ہے کہ اگرٹرمپ اسرائیل مخالف یااس کی مرضی سے ہٹ کرکوئی راہ اختیارکرتے ہیں تویہ لابی محض تنقیدتک محدود نہیں رہے گی۔یہ لابی،ماضی کی مانند،سیاسی،ابلاغی اورمالی محاذوں پرمتحرک ہوکر امریکی صدرکیلئے ایسے چیلنج کھڑے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے،جن کاتاریخی باب جان ایف کینیڈی کی داستان کاحصہ بن چکاہے۔
اس صورتحال میں کیاامریکااسرائیل کی پالیسی کایرغمال بن چکاہے؟محققین کی اس کے متعلق کیارائے ہے؟آئیے دیکھتے ہیں!
جان مؤئرشائمراوراسٹیفن والٹ’’دی اسرائیل لابی اوریوایس فارن پالیسی،2007‘‘ کی رپورٹ میں اسرائیلی لابی اوراس کی امریکی پالیسی پرگرفت کاتفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کونمایاں کرتے ہیں کہ امریکااسرائیل کی حمایت محض اسٹریٹجک ضرورتوں تک محدودنہیں بلکہ داخلی سیاسی وانتخابی مصلحتوں کاحصہ ہے۔ نوم چومسکی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکااسرائیل کومحض امدادنہیں دیتابلکہ اس کی دفاعی صنعت اورخطے میں جارحانہ پالیسیوں کاحصہ بن کراس سے مادی، تزویراتی اورسیاسی فوائدسمیٹتاہے۔
امریکاکی اسرائیل سے بے پناہ حمایت محض’’ہمدردی‘‘یا’’مذہبی ہم آہنگی‘‘کامظہر نہیں۔ یہ تاریخی، سیاسی اوراقتصادی مصلحتوں کا مرکب ہے ۔ اسرائیل،امریکی اسلحہ سازکمپنیوں اورسیاسی لابیوں کانقطہ اتصال بن چکاہے۔یوں واشنگٹن اور تل ابیب کارشتہ محض دو ریاستوں کامعاملہ نہیں، بلکہ عالمی طاقت اورمصلحت کامعرکہ ہے۔امریکاکی اس ’’مجبوری‘‘ کو محض اقتصادی یافوجی تناظرتک محدود نہیں رکھاجا سکتا۔ یہ ایک ہمہ جہت،تاریخی اور تہذیبی تعلق ہے،جوحال اورمستقبل کی عالمی سیاست کی راہ متعین کرتاہے۔
امریکا اوراسرائیل کارشتہ محض دوریاستوں کاسفارتی یااقتصادی لین دین نہیں،بلکہ تاریخی، اسٹریٹجک،تہذیبی اورسیاسی مصلحتوں کا گہراامتزاج ہے۔مغرب میں تہذیبی ہم آہنگی اور امریکی سیاست میں عیسائی-یہودی روایت،بائبل اور ’’وعدہ کی گئی سرزمین‘‘جیسے تاریخی بیانیے کااثر غالب ہے۔اسرائیل کومشرقِ وسطی کا’’ناقابلِ تسخیر قلعہ‘‘بناتے ہوئے امریکا نے خطے میں روس،چین اورایران جیسے حریفوں کاراستہ روکنے کی حکمت عملی اختیارکررکھی ہے۔
اسرائیل امریکی دفاعی صنعت کاسب سے بڑاگاہک ہے۔اس لیے یہ محض’’امداد‘‘نہیں بلکہ ایک مربوط اقتصادی چکرہے۔اسرائیل نواز لابیاں اور دیگر گروہ امریکی انتخابی میدان اورقانون سازی پر گہر ا اثررکھتے ہیں۔نوم چومسکی نے کئی دہائیوں تک امریکی پالیسی اورجارحیت پربے لاگ تنقید کی ہے۔چومسکی کی تحریریں امریکی سامراج،اسرائیل کی حمایت اورمڈل ایسٹ میں فوجی مداخلت کاپردہ چاک کرتے ہوئے واشنگٹن اورتل ابیب کی ہمہ گیرہم آہنگی کوعریاں کرتی ہیں۔چومسکی اپنی کتاب’’تسلط یابقا‘‘میں لکھتے ہیں:امریکا اسرائیل کو محض مشرقِ وسطی کاگڑھ تصورنہیں کرتابلکہ اپنی پالیسی کا حصہ بناچکاہے۔اسرائیل اورامریکاکاتعلق محض دوستانہ یا اتحادی نہیں،بلکہ دونوں کاسامراجی مقصدمیں شراکت کارشتہ ہے۔امریکاکااسرائیل کی بے پناہ حمایت کرنا محض ’’دوست ریاستوں‘‘کامعاملہ نہیں،یہ طاقت اور اسلحے کاکھیل ہے۔اسٹریٹجک قبضے اور وسائل پر کنٹرول کی داستان ہے۔اندرونی لابیوں اورعالمی بینکنگ سسٹمزکی کارفرمائی ہے۔تہذیبی،تاریخی اور سیاسی ہم آہنگی کاحصہ ہے اورسب سے بڑھ کر، ’’عالمی بالادستی‘‘اور’’نئے سامراجی عہد‘‘کاتسلسل ہے۔نوم چومسکی جیسے محققین نے اس تعلق کومحض دوستانہ یااتحادی اندازمیں نہیں،بلکہ اس دورکا سب سے طاقتور’’استعماری گٹھ جوڑ‘‘قراردیاہے۔
امریکااسرائیل کی حمایت محض اس لیے نہیں کرتاکہ اسرائیل اس کااتحادی ہے،بلکہ اس لیے کرتاہے کہ اسرائیل عالمی سیاست اور اقتصادیات کامرکزبن چکاہے۔عرب ریاستوں، ایران اوردیگرعلاقائی طاقتوں کومعتدل یامحدودرکھنے کاامریکی عزم اسرائیل کی طاقت اوربقاء سے جڑاہے۔ان دوریاستوں کاتعلق یہ ہے کہ یہ ’’عالمی اقتدار،جدیداستعماراور اقتصادی جارحیت‘‘ کا حصہ ہیں۔ چومسکی جیسے محققین اس ربط کو تاریخی تناظر میں محض اتحاد یا دوستی کی صورت میں قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسرائیل کواس مقصد کا محوری ستون کہتے ہیں۔
یہ کہانی صرف ایران،امریکااوراسرائیل کی نہیں،یہ دراصل طاقت،مفادات اورحکمتِ عملی کی اس بازیگری کانام ہے جس میں انسانیت کی بقاباربارسوال بن کرابھرتی ہے۔مشرقِ وسطی کی دھرتی پرامن کی صبح طلوع کب ہوگی،اس کاجواب فی الحال تاریخ کے اوراق منتظرہیں۔مگریہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک طاقتوراپنے مفادات کی بھینٹ کمزوروں کو چڑھاتے رہیں گے، جنگ کاشعلہ کبھی بجھ نہ پائے گا۔یہ سارامنظر محض دو یا تین ریاستوں کاتنازعہ نہیں،بلکہ عالمی طاقت،تاریخی جدوجہد اور تہذیبی بقاکاحصہ ہے۔مشرقِ وسطیٰ کی ویران بستیوں اورخستہ حال ملبے میں یہ سبق بھی مضمرہے کہ تاریخ محض عہدوں کانام نہیں،یہ عبرت اوربصیرت کاچراغ بھی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیل کی حمایت جان ایف کینیڈی اسرائیلی لابی ہے کہ اسرائیل میں اسرائیل اسرائیل کو ہے اسرائیل کی جانب سے نہیں بلکہ کرتے ہوئے پالیسی کا ہم آہنگی کاحصہ ہے کی سیاسی لابی اور بلکہ اس

پڑھیں:

جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے

جن لوگوں کو فلسطینیوں سے اسرائیل کے بے رحمانہ سلوک پر حیرت ہے۔انھیں یہ سن کے شاید مزید حیرت ہو کہ اسرائیل گزشتہ اٹھاون برس میں چونتیس فوجیوں سمیت چالیس امریکی شہریوں کو ہلاک اور لگ بھگ دو سو کو زخمی اور درجنوں کو گرفتار کر کے ٹارچر کر چکا ہے۔مگر آج تک کسی امریکی انتظامیہ نے چوں تک نہیں کی اور ہر ہلاکت خیز واقعہ کے بارے میں اسرائیلی معذرت اور موقف کو من و عن تسلیم کر کے معاملات پر مٹی ڈال دی۔

گویا جہاں اسرائیل کی دل جوئی کا سوال ہو وہاں کسی بھی امریکی انتظامیہ کے لیے اپنے ہی شہریوں کی جانوں کی کوئی اوقات نہیں۔ہم مرحلہ وار ان وارداتوں کا جائزہ لیں گے تاکہ آپ کے ذہن میں اسرائیل امریکا ریاستی گٹھ جوڑ کے بارے میں اگر کوئی ابہام اب تک ہے تو وہ بھی صاف ہو جائے۔

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ امریکا کا چھٹا بحری بیڑہ مستقل بحیرہ روم میں تعینات رہتا ہے اور اس کا ہیڈکوارٹر اطالوی بندرگاہ نیپلز ہے۔ اس بیڑے کو یونان ، قبرص اور مالٹا سمیت علاقے کے ناٹو رکن ممالک کی بحری سہولتیں بھی حاصل ہیں۔

انیس سو تریسٹھ میں جاسوسی آلات سے لیس ایک بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی چھٹے بحری بیڑے میں شامل ہوا۔مئی انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیل اور مصر کے مابین انتہائی کشیدگی کے سبب یو ایس ایس لبرٹی کو برقیاتی سن گن لینے کے لیے مصری بحری حدود میں تعیناتی کا حکم ملا۔پانچ جون کو اسرائیلی فضائیہ نے مصری اور شامی ایرفورس کو ایک اچانک شب خون میں زمین پر ہی تباہ کر کے بے دست و پا کر دیا۔

یو ایس ایس لبرٹی مصر کے جزیرہ نما سینا کے ساحل سے بیس کلومیٹر اور اسرائیلی بحری حدود سے گیارہ کلومیٹر پرے گشت پر تھا۔آٹھ جون کی صبح دو اسرائیلی میراج طیاروں نے یو ایس ایس لبرٹی کے اوپر دو نچلی نگراں پروازیں کیں۔موسم صاف تھا اور فضا سے جہاز پر لہراتا امریکی پرچم اور جہاز کے ڈھانچے پر لکھا نمبر ( جی ٹی آر فائیو ) صاف پڑھا جا سکتا تھا۔

دوپہر بارہ بجے چھٹے امریکی بیڑے کے کمانڈر ولیم میکگناگلے نے لبرٹی کو پیغام بجھوایا کہ وہ موجودہ پوزیشن سے ایک سو ساٹھ کلومیٹر پیچھے ہٹ کے بین الاقوامی سمندری حدود میں آ جائے۔یہ پیغام بروقت جہاز تک نہ پہنچ سکا۔

تین بجے سہہ پہر دو اسرائیلی طیاروں نے جہاز کے کپتان سے مواصلاتی شناخت مانگے بغیر نیپام بم گرائے اور مشین گنوں سے فائرنگ کی۔جہاز میں آگ لگ گئی۔پچیس منٹ بعد تین اسرائیلی کشتیوں میں سے دو نے تارپیڈو فائر کیے۔ جہاز میں دو بڑے شگاف پڑ گئے اور وہ ڈوبنے لگا۔اس حملے کے آدھے گھنٹے بعد بقول اسرائیلی فوجی ہائی کمان احساس ہوگیا کہ ہم جسے مصری جہاز سمجھے تھے وہ دراصل امریکی تھا۔ چھٹے بیڑے کے کمانڈر نے چند سو ناٹیکل میل دور موجود دو طیارہ بردار جہازوں یو ایس ایس واشنگٹن اور ساراٹوگا سے چھ لڑاکا طیاروں اور بیڑے کے دو ڈیسٹرائرز ( تباہ کن جنگی جہاز ) کو یو ایس ایس لبرٹی کی مدد کے لیے روانہ کیا۔

مگر کچھ دیر بعد واشنگٹن سے وزیرِ دفاع رابرٹ میکنامارا کے کہنے پر امریکی طیاروں کو بیس پر واپسی کا حکم ملا کیونکہ تب تک میکنامارا کی ڈیسک پر اسرائیل کا ’’ معذرت نامہ ‘‘ پہنچ چکا تھا۔البتہ دو ڈیسٹرائرز نے موقع پر پہنچ کر تباہ حال یو ایس ایس لبرٹی کو کسی نہ کسی طور مالٹا کی بندرگاہ تک پہنچا دیا۔ قریب موجود سوویت بحریہ کے دو جہازوں نے بھی مدد کی۔

اس واردات میں یو ایس ایس لبرٹی پر موجود دو سو چورانوے کے عملے میں سے چونتیس جان سے گئے اور ایک سو اکہتر زخمی ہوئے۔امریکا بحریہ نے ایک بورڈ آف انکوائری تشکیل دیا۔ اللہ جانے اس انکوائری کا کیا ہوا۔

اسرائیلی حکومت کی اپنی اندرونی انکوائری اس نتیجے پر پہنچی کہ نیول کمان کو حملے سے تین گھنٹے پہلے اطلاع مل چکی تھی کہ یہ امریکی بحری جہاز ہے مگر یہ معلومات ’’ بروقت ‘‘ اس کمانڈر تک نہ پہنچائی جا سکیں جس نے غلط فہمی میں حملے کا حکم دیا۔

امریکی صدر جانسن لنڈن بی جانسن نے حملے کے چند دن بعد نیوزویک کو انٹرویو میں کہا کہ یہ جانا بوجھا حملہ تھا کیونکہ اسرائیل نہیں چاہتا تھا کہ ہم دورانِ جنگ حساس فوجی کمیونیکیشن سے مسلسل آگاہ رہیں۔البتہ چار برس بعد جانسن نے اپنی سوانح عمری میں یو ایس ایس لبرٹی کے بارے میں اسرائیلی تاویل کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ اس دلخراش واقعہ کا اسرائیل کو بھی شدید صدمہ ہے ‘‘۔

جب لبرٹی پر حملہ ہوا تو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل مارشل کارٹر تھے۔انھوں نے اکیس برس بعد ( انیس سو اٹھاسی ) ایک انٹرویو میں زبان کھولی کہ یہ کوئی بے ساختہ یا اتفاقی نہیں بلکہ سوچی سمجھی غلطی تھی۔انیس سو ستانوے میں اس واقعہ کی بیسویں برسی کے موقع پر یو ایس ایس لبرٹی کے ریٹائرڈ کپتان ولیم میکگناگلے نے کہا کہ یہ نہ تو اتفاقی تھا اور نہ ہی حادثہ۔اس واقعہ کی بھرپور غیر جانبدار تحقیق اب بھی ہو سکتی ہے مگر نہیں ہو گی۔

سن دو ہزار میں اسرائیلی سیاستداں اور مورخ مائیکل اورین نے کہا کہ لبرٹی کی فائل بند ہو چکی ہے۔ مگر دو ہزار سات میں متعدد امریکی انٹیلی جینس اور عسکری اہلکاروں نے اخبار شکاگو ٹریبون کو بتایا کہ وہ خفیہ فائلیں پڑھنے کے بعد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل کو ابتدا سے علم تھا کہ لبرٹی امریکی جہاز ہے۔نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر اولیور کربی نے انٹرویو میں کہا کہ میں انجیل پر ہاتھ رکھ کے کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں روزِ اول سے یقین تھا کہ انھیں ( اسرائیلیوں کو ) سب معلوم ہے۔

اگر یو ایس ایس لبرٹی سے ایک چوتھائی کم واردات بھی کوئی اور ملک کرتا تو امریکا شاید پوری طاقت سے چڑھ دوڑتا۔اور ایسا ہی ہوا۔

یو ایس ایس لبرٹی پر حملے سے صرف تین برس پہلے دو اگست انیس سو چونسٹھ کو ویتنام کی خلیج ٹونکن میں گشت کرنے والے ایک جاسوس جنگی جہاز یو ایس ایس میڈوکس پر شمالی ویتنام کی تین تارپیڈو کشتیوں نے حملے کی کوشش کی۔دو روز بعد میڈوکس کے کپتان نے پھر پیغام بھیجا کہ اسے متعدد کشتیوں نے گھیر لیا ہے۔اس پیغام کا واشنگٹن میں یہ مطلب لیا گیا کہ میڈوکس پر دو روز میں ایک اور حملہ ہو گیا ہے۔

چنانچہ مزید چھان بین کے بغیر جانسن انتظامیہ نے امریکی کانگریس سے بعجلت ایک قرار داد منظور کروا کے جنگ کا اختیار حاصل کر لیا۔ یوں اس گیارہ سالہ جنگ کا آغاز ہوا جس میں تیس لاکھ ویتنامی اور پچاس ہزار امریکی جانیں گئیں۔حالانکہ خلیج ٹونکن کے واقعہ کی چند روز بعد تفصیلی تحقیق کے سبب یہ بات امریکیوں پر کھل چکی تھی کہ دو اگست کو جو ویتنامی حملہ ہوا اس میں یو ایس ایس میڈوکس کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔جب کہ چار اگست کو میڈوکس کا ریڈار فنی خرابی کے سبب ایسے سگنلز دینے لگا جیسے چاروں طرف سے حملہ ہو گیا ہو مگر درحقیقت چار اگست کو کوئی حملہ ہوا ہی نہیں۔

جب خلیج ٹونکن کے واقعہ کو جنگ کا بہانہ بنایا گیا تب بھی رابرٹ میکنامارا امریکی وزیرِ دفاع تھے۔جب یو ایس ایس لبرٹی تباہ ہوا تب بھی وہی وزیرِ دفاع تھے۔ایک واقعہ جو ہوا ہی نہیں اس پر اعلانِ جنگ ہو گیا۔اور ایک واقعہ جس میں لگ بھگ تین درجن امریکی فوجی مارے گئے اسے غلطی کہہ کر درگذر کر دیا گیا۔

اس واقعہ پر امریکا کے معذرت خواہانہ رویے کے بعد اسرائیل کی ہر حکومت کو یقین ہوتا چلا گیا کہ وہ کچھ بھی کر گذرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہے۔اس دیدہ دلیری کے آیندہ نتائج ہم اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • مسیحیوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہیں گے، ٹرمپ کی نائیجیریا کو فوجی کارروائی کی دھمکی
  • امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • وائٹ ہائوس میں میڈیا کے داخلے پر پابندی
  • مصری رہنما کی اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور