Daily Ausaf:
2025-07-11@15:07:17 GMT

خاموش لابی۔۔۔۔۔بلندسازشیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
کینیڈی کااسرائیلی نیوکلیئرپروگرام کی بین الاقوامی نگرانی پرزوردینامحض ایک سفارتی معاملہ نہیں تھابلکہ اس دورکی سردجنگ کی سیاسی وتزویراتی حقیقت کاحصہ تھا۔1963ء میں جان ایف کینیڈی نے اسرائیل کوخطوط لکھے،جن میں دیموناتنصیبات کامعائنہ کرنے کا سخت مطالبہ کیا۔ اسرائیلی قیادت نے امریکی دباؤکومستردکرتے ہوئے اس معاملے کو’’قومی بقا‘‘کاحصہ قراردیا۔
بعض محققین کاخیال ہے کہ اسرائیلی لابی اور کینیڈی انتظامیہ کاتناؤمحض پالیسی کامعاملہ نہیں، بلکہ اس تاریخی تناؤنے امریکی سیاسی کلچراورخارجہ پالیسی پردوررس اثرات ڈالے۔
نیشنل سیکیورٹی آرکائیو2006ء میں ’’ اسرائیل حدعبور کرتا ہے‘‘میں ایونرکوہن اورولیم برکے مطابق کس طرح جان ایف کینیڈی کے ساتھ تناؤاورمبہم حالات میں قتل،لابی اورخارجی پالیسی کی یوں سیاہ گٹھ جوڑکی ایسی یادگارمثال ہمارے سامنے ہے کہ آج تک کینیڈی کی موت ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
2018میں امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی،اورگولان کی پہاڑیوں پراسرائیلی حاکمیت کی توثیق گویاٹرمپ کے سابقہ دورمیں اسرائیل اور امریکا کاتعلق بظاہرعروج پردکھائی دیتاتھاتاہم حالیہ برسوں میں بعض امورپردونوں کانقطہ نظر متصادم دکھائی دیالیکن ایران کے ایٹمی پلانٹ پر خوفناک حملہ کے جواب میں جب ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں کواپنے میزائلوں کانشانہ بنایاتواس کے فوری بعدایک مرتبہ پھرٹرمپ کی طرف سے سیزفائرکااعلان کردیاگیااورپہلی مرتبہ ٹرمپ کے بیانات سے اسرائیل کے ساتھ تناؤکی کیفیت کااظہارسامنے آیاجس کی وجہ ایران پرحملے کے طریقہ کارپراسرائیل نے اپنے تحفظات کااظہارکیاجس کے بعداسرائیل کی سکیورٹی پالیسی اورامریکی مفادات کاتفاوت یعنی بعض حساس خفیہ معلومات کااسرائیل کی جانب سے مبینہ افشاکا انکشاف بھی سامنے آیا۔
حالیہ دنوں میں،ٹرمپ کارویہ بعض اسرائیلی پالیسیوں اوراقدامات پرشدید ناراضگی کاعکاس نظر آرہا ہے۔ اس کابنیادی سبب عسکری پالیسیوں میں اختلاف یعنی اسرائیل کاایران اوردیگرہمسایہ ممالک پرجارحانہ مؤقف،جوامریکی امن منصوبوں اور ’’ڈی، اسکلیشن ‘‘ پالیسیوں سے ہم آہنگ نہیں۔اسرائیل کی جانب سے بعض حساس خفیہ معلومات کالیک ہونا یا امریکی توقعات پرپورانہ اترنا، معاہدہ شکنی اوراعتماد کا فقدان بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ٹرمپ کامزاج،ذاتی سیاسی تناؤاور اسرائیلی قیادت کارویہ بعض مواقع پرٹکراؤکا باعث بن گیا۔
سوال یہ ہے کہ کیاٹرمپ کی حالیہ ناراضگی یہودی لابی کومتحرک کرسکتی ہے؟امریکامیں اسرائیلی لابی روایتی طورپرری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں پارٹیوں میں ہمہ گیراثرورسوخ رکھتی ہے۔حالیہ برسوں میں اس لابی نے ٹرمپ کواسرائیل نواز پالیسیوں،جیسے امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی اورگولان کی پہاڑیوں کواسرائیلی حصہ تسلیم کرنے جیسے اقدامات پر سراہا۔تاہم،حالیہ ناراضگی اورتنقید اس لابی میں بے چینی کاباعث بن رہی ہے۔اس کاممکنہ نتیجہ ہوسکتاہے۔
آئندہ انتخابی مہم اوردیگرسیاسی حمایت میں لابی کی جانب سے سردمہری کے طورپرمالی امدادمیں کمی ہوسکتی ہے۔
اسرائیل نوازمیڈیاپلیٹ فارمزاورتھنک ٹینکس کی جانب سے ٹرمپ مخالف بیانیے کافروغ کاامکان بھی ہوسکتاہے جس سے امریکی رائے عامہ میں ٹرمپ کے خلاف مہم شروع کی جاسکتی ہے۔
قانون سازایوانوں میں اسرائیل کی حمایت کرنے والے سینیٹرزاورارکانِ کانگریس کی مخالفت کی شکل میں سیاسی محاذآرائی شروع ہوسکتی ہے۔
اندرونی بیوروکریسی اوراسٹیبلشمنٹ میں لابی کااستعمال کرتے ہوئے خارجہ پالیسی میں ٹرمپ کو غیرمؤثرکرنے کی کوششیں اور خفیہ دباؤکا امکان بھی ہے۔
امریکی سیاسی تاریخ شاہدہے کہ اسرائیل کی لابی محض خارجی پالیسی کاحصہ نہیں،بلکہ امریکی سیاسی عمل کاحصہ ہے۔ماضی میں جان ایف کینیڈی اوردیگر رہنمائوں کی مثال یہ باورکراتی ہے کہ اسرائیل کی لابی محض’’مشیر‘‘یا’’حامی‘‘نہیں، بلکہ بعض مواقع پر پالیسی سازی کی سمت اوربعض اوقات تقدیرِسیاست تک متعین کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔تاہم ٹرمپ اور اسرائیل کاحالیہ تنامحض وقتی اختلافِ رائے نہیں بلکہ امریکی داخلی سیاسی امتحان ہے۔اسرائیلی لابی،ماضی کی روایات اورتاریخی مثالوں کی بنیادپر،اس پوزیشن میں ہے کہ اگرٹرمپ اسرائیل مخالف یااس کی مرضی سے ہٹ کرکوئی راہ اختیارکرتے ہیں تویہ لابی محض تنقیدتک محدود نہیں رہے گی۔یہ لابی،ماضی کی مانند،سیاسی،ابلاغی اورمالی محاذوں پرمتحرک ہوکر امریکی صدرکیلئے ایسے چیلنج کھڑے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے،جن کاتاریخی باب جان ایف کینیڈی کی داستان کاحصہ بن چکاہے۔
اس صورتحال میں کیاامریکااسرائیل کی پالیسی کایرغمال بن چکاہے؟محققین کی اس کے متعلق کیارائے ہے؟آئیے دیکھتے ہیں!
جان مؤئرشائمراوراسٹیفن والٹ’’دی اسرائیل لابی اوریوایس فارن پالیسی،2007‘‘ کی رپورٹ میں اسرائیلی لابی اوراس کی امریکی پالیسی پرگرفت کاتفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کونمایاں کرتے ہیں کہ امریکااسرائیل کی حمایت محض اسٹریٹجک ضرورتوں تک محدودنہیں بلکہ داخلی سیاسی وانتخابی مصلحتوں کاحصہ ہے۔ نوم چومسکی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکااسرائیل کومحض امدادنہیں دیتابلکہ اس کی دفاعی صنعت اورخطے میں جارحانہ پالیسیوں کاحصہ بن کراس سے مادی، تزویراتی اورسیاسی فوائدسمیٹتاہے۔
امریکاکی اسرائیل سے بے پناہ حمایت محض’’ہمدردی‘‘یا’’مذہبی ہم آہنگی‘‘کامظہر نہیں۔ یہ تاریخی، سیاسی اوراقتصادی مصلحتوں کا مرکب ہے ۔ اسرائیل،امریکی اسلحہ سازکمپنیوں اورسیاسی لابیوں کانقطہ اتصال بن چکاہے۔یوں واشنگٹن اور تل ابیب کارشتہ محض دو ریاستوں کامعاملہ نہیں، بلکہ عالمی طاقت اورمصلحت کامعرکہ ہے۔امریکاکی اس ’’مجبوری‘‘ کو محض اقتصادی یافوجی تناظرتک محدود نہیں رکھاجا سکتا۔ یہ ایک ہمہ جہت،تاریخی اور تہذیبی تعلق ہے،جوحال اورمستقبل کی عالمی سیاست کی راہ متعین کرتاہے۔
امریکا اوراسرائیل کارشتہ محض دوریاستوں کاسفارتی یااقتصادی لین دین نہیں،بلکہ تاریخی، اسٹریٹجک،تہذیبی اورسیاسی مصلحتوں کا گہراامتزاج ہے۔مغرب میں تہذیبی ہم آہنگی اور امریکی سیاست میں عیسائی-یہودی روایت،بائبل اور ’’وعدہ کی گئی سرزمین‘‘جیسے تاریخی بیانیے کااثر غالب ہے۔اسرائیل کومشرقِ وسطی کا’’ناقابلِ تسخیر قلعہ‘‘بناتے ہوئے امریکا نے خطے میں روس،چین اورایران جیسے حریفوں کاراستہ روکنے کی حکمت عملی اختیارکررکھی ہے۔
اسرائیل امریکی دفاعی صنعت کاسب سے بڑاگاہک ہے۔اس لیے یہ محض’’امداد‘‘نہیں بلکہ ایک مربوط اقتصادی چکرہے۔اسرائیل نواز لابیاں اور دیگر گروہ امریکی انتخابی میدان اورقانون سازی پر گہر ا اثررکھتے ہیں۔نوم چومسکی نے کئی دہائیوں تک امریکی پالیسی اورجارحیت پربے لاگ تنقید کی ہے۔چومسکی کی تحریریں امریکی سامراج،اسرائیل کی حمایت اورمڈل ایسٹ میں فوجی مداخلت کاپردہ چاک کرتے ہوئے واشنگٹن اورتل ابیب کی ہمہ گیرہم آہنگی کوعریاں کرتی ہیں۔چومسکی اپنی کتاب’’تسلط یابقا‘‘میں لکھتے ہیں:امریکا اسرائیل کو محض مشرقِ وسطی کاگڑھ تصورنہیں کرتابلکہ اپنی پالیسی کا حصہ بناچکاہے۔اسرائیل اورامریکاکاتعلق محض دوستانہ یا اتحادی نہیں،بلکہ دونوں کاسامراجی مقصدمیں شراکت کارشتہ ہے۔امریکاکااسرائیل کی بے پناہ حمایت کرنا محض ’’دوست ریاستوں‘‘کامعاملہ نہیں،یہ طاقت اور اسلحے کاکھیل ہے۔اسٹریٹجک قبضے اور وسائل پر کنٹرول کی داستان ہے۔اندرونی لابیوں اورعالمی بینکنگ سسٹمزکی کارفرمائی ہے۔تہذیبی،تاریخی اور سیاسی ہم آہنگی کاحصہ ہے اورسب سے بڑھ کر، ’’عالمی بالادستی‘‘اور’’نئے سامراجی عہد‘‘کاتسلسل ہے۔نوم چومسکی جیسے محققین نے اس تعلق کومحض دوستانہ یااتحادی اندازمیں نہیں،بلکہ اس دورکا سب سے طاقتور’’استعماری گٹھ جوڑ‘‘قراردیاہے۔
امریکااسرائیل کی حمایت محض اس لیے نہیں کرتاکہ اسرائیل اس کااتحادی ہے،بلکہ اس لیے کرتاہے کہ اسرائیل عالمی سیاست اور اقتصادیات کامرکزبن چکاہے۔عرب ریاستوں، ایران اوردیگرعلاقائی طاقتوں کومعتدل یامحدودرکھنے کاامریکی عزم اسرائیل کی طاقت اوربقاء سے جڑاہے۔ان دوریاستوں کاتعلق یہ ہے کہ یہ ’’عالمی اقتدار،جدیداستعماراور اقتصادی جارحیت‘‘ کا حصہ ہیں۔ چومسکی جیسے محققین اس ربط کو تاریخی تناظر میں محض اتحاد یا دوستی کی صورت میں قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسرائیل کواس مقصد کا محوری ستون کہتے ہیں۔
یہ کہانی صرف ایران،امریکااوراسرائیل کی نہیں،یہ دراصل طاقت،مفادات اورحکمتِ عملی کی اس بازیگری کانام ہے جس میں انسانیت کی بقاباربارسوال بن کرابھرتی ہے۔مشرقِ وسطی کی دھرتی پرامن کی صبح طلوع کب ہوگی،اس کاجواب فی الحال تاریخ کے اوراق منتظرہیں۔مگریہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک طاقتوراپنے مفادات کی بھینٹ کمزوروں کو چڑھاتے رہیں گے، جنگ کاشعلہ کبھی بجھ نہ پائے گا۔یہ سارامنظر محض دو یا تین ریاستوں کاتنازعہ نہیں،بلکہ عالمی طاقت،تاریخی جدوجہد اور تہذیبی بقاکاحصہ ہے۔مشرقِ وسطیٰ کی ویران بستیوں اورخستہ حال ملبے میں یہ سبق بھی مضمرہے کہ تاریخ محض عہدوں کانام نہیں،یہ عبرت اوربصیرت کاچراغ بھی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیل کی حمایت جان ایف کینیڈی اسرائیلی لابی ہے کہ اسرائیل میں اسرائیل اسرائیل کو ہے اسرائیل کی جانب سے نہیں بلکہ کرتے ہوئے پالیسی کا ہم آہنگی کاحصہ ہے کی سیاسی لابی اور بلکہ اس

پڑھیں:

انڈوپیسیفک خطے سے جڑے رہنا امریکی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون ہے، امریکی وزیر خارجہ

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے 10 جولائی کو اپنے پہلے ایشیائی دورے کے دوران جنوب مشرقی ایشیا میں اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کی ہے اور انہیں یقین دہانی کروائی ہے کہ واشنگٹن اس خطے کو ترجیح دیتا ہے حالانکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں نے اس دورے پر منفی اثر ڈالا ہے۔
برطانوی     خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزیرخارجہ مارکوروبیو کی وضاحت نے کی ہے کہ انڈوپیسیفک خطے سے جڑے رہنا امریکی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون ہے، امریکا آسیان کا قابل اعتماد شراکت دار ہےاور واشنگٹن اپنے شراکت داریوں کوترک نہیں بلکہ مزید مضبوط کرناچاہتا ہے۔
مارکو روبیو نے مزید کہا کہ آسیان خود مختار ریاستوں پر مشتمل ہے، امریکا آسیان ممالک کے ساتھ طویل المدتی تعلقات کو کسی تیسرے فریق کی منظوری کے بغیر آگے بڑھائے گا۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کوالالمپور میں 10 رکنی آسیان تنظیم (ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز) کے وزرائے خارجہ سے بھی ملاقات کی، جس میں آسٹریلیا، چین، یورپی یونین، جاپان، روس، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک بھی شریک تھے۔
اس موقع پر مارکو روبیو نے کہا کہ ممکن ہے وہ ملائیشیا میں آسیان کانفرنس کے موقع پر اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کریں، یہ دورہ انڈو پیسیفک پر امریکی توجہ کی تجدید کا حصہ ہے تاکہ مشرق وسطیٰ اور یورپ کے تنازعات سے ہٹ کر توجہ اس اہم خطے پر مرکوز کی جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ 50 سال کی کہانی کا بڑا حصہ اسی خطے میں لکھا جائے گا۔ تاہم صدر ٹرمپ کی عالمی ٹیرف حکمت عملی نے اس دورے پر منفی اثر ڈالا ہے، جنہوں نے یکم اگست 2025 سے 7 آسیان ممالک بشمول ملائیشیا، جاپان اور جنوبی کوریا پر بھاری محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پیر کو ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بتایا کہ مارکو روبیو کی ترجیحات میں سیکیورٹی تعاون، جنوبی چین کا سمندر، منشیات، جرائم اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف مشترکہ حکمت عملی شامل ہے۔
امریکی حکومت نے جاپان اور جنوبی کوریا پر 25 فیصد ٹیرف، ملائیشیا پر 25 فیصد، انڈونیشیا پر 32 فیصد، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ پر 36 فیصد، جبکہ لاؤس اور میانمار پر 40 فیصد ٹیرف عائد کیے ہیں۔
واشنگٹن کی جانب سے فلپائن پر ٹیرف 17 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا گیا ہے حالانکہ فلپائن امریکہ کا اتحادی ہے۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • امریکا نے بھارت پر 10فیصد ٹیرف لگا دیا، مودی سرکار کو ٹرمپ کا زبردست جھٹکا
  • مودی حکومت کو جھٹکا، امریکا نے تجارتی رعایت واپس لے لی
  • امریکا نے بھارت پر 10 فیصد ٹیرف لگا دیا، مودی سرکار کو ٹرمپ کا زبردست جھٹکا
  • انڈوپیسیفک خطے سے جڑے رہنا امریکی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون ہے، امریکی وزیر خارجہ
  • ابراہم ایکارڈ معاہدہ دو ریاستی حل کسی صورت منظور نہیں‘ باقر عباس
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں جنگ بندی معاہدے کے باوجود خصوصی آپریشنز، حزب اللہ خاموش
  • نیتن یاہو کی غزہ پر کسی بڑے پیشرفت کے بغیر امریکا سے واپسی؛ اعلامیہ بھی جاری نہیں ہوا
  • امریکی ٹیرف پالیسی عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے نقصان دہ
  • پاک بھارت جنگ بندی میں امریکی کردار سے انکار  پر بھارت جھوٹا قرار