گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعیناتی سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور ایڈوکیٹ جنرل گلگت بلتستان عدالت میں پیش ہوئے۔

ایڈوکیٹ جنرل گلگت بلتستان آرڈر 2018 پڑھ کر سنایا اور عدالت سے مشروط طورپر اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آرڈر 2018 کے تحت تو ججز کی تعیناتی وزیر اعلیٰ اور گورنر کی مشاورت سے کرنے کا ذکر ہے، گلگت بلتستان میں ججز تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم گورنر کی ایڈوائز ماننے کا پابند نہیں ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ اس کا مطلب ہے وزیر اعظم جو کرنا چاہے کرسکتے ہیں تو ون مین شو بنا دیں۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ انکی آئینی حیثیت کیا ہے، چیف جسٹس پاکستان

ایڈوکیٹ جنرل گلگت بلتستان کا موقف تھا کہ اسٹے آرڈر کی وجہ سے ججز کی تعیناتی کے معاملہ رکا ہوا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اسٹے آرڈر ختم کردیتے ہیں آپ مشاورت سے ججز تعینات کریں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر کے اس معاملے کو حل کیوں نہیں کرتی، اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ مجوزہ آرڈر 2019 کو ترمیم کر کے ججز تعیناتی کروا سکتی ہے، اس موقع پر اسد اللہ خان ایڈووکیٹ کا موقف تھا کہ آرڈر 2018 کو نہیں مانتے کیونکہ سپریم کورٹ کے 7 رکنی بنچ نے 2020 میں جو فیصلہ دیا اس پر عملدرآمد کریں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو گلگت بلتستان میں ججز کی تعیناتی سے روک دیا

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ2019 کا مجوزہ آرڈر ہے اسے پارلیمنٹ لے جائیں اور قانون سازی کریں، جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ ہم نے مجوزہ آرڈر 2019 نہ بنایا نہ اسے اون کرتے ہیں۔

اسد اللہ خان ایڈووکیٹ نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں نگراں حکومت کے لیے تو یہ مانتے ہیں لیکن ججز تعیناتی کے لیے نہیں مانتے، ایڈوکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے بتایا کہ ججزکی عدم تعیناتی کے باعث گلگت بلتستان کی سپریم اپیلیٹ کورٹ میں 8 ہزار کیسز زیر التوا ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ اس وقت گلگت بلتستان میں آرڈر 2108 ان فیلڈ ہے، اگر وفاق کو مجوزہ آرڈر 2019 پسند نہیں تو دوسرا بنا لے لیکن کچھ تو کرے، مجوزہ آرڈر 2019 مجھے تو مناسب لگا اس پر قانون سازی کرے یا پھر دوسرا مرتب کرلیں۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان میں ججوں کی تقرری، وفاقی حکومت اور اٹارنی جنرل کونوٹس

جسٹس امین الدین خان نے آرڈر 2018 کے تحت ججز تعینات کرنے کا مشورہ دیا جس پر اٹارنی جنرل نے گلگت بلتستان میں مشروط طور پر ججز کی تعیناتی کی مخالفت کی۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں انصاف کی فراہمی میں تعطل ہے ہم چاہتے ہیں ججز تعینات ہوں، اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ مستقبل میں 2018 کے تحت ججز تعیناتی وفاقی حکومت کو سوٹ کرتی ہے،

اسد اللہ خان ایڈووکیٹ کا موقف تھا کہ گلگت بلتستان میں 5 میں سے 4 ججز کی تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن ایک جج کی تعیناتی سیکشن 34 کے تحت نہ ہونے پر ہمیں اعتراض ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کیس کی میرٹ پر سماعت کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئینی بینچ اپیلیٹ کورٹ اٹارنی جنرل اسد اللہ خان ایڈووکیٹ پارلیمنٹ جسٹس امین الدین خان سپریم کورٹ قانون سازی گلگت بلتستان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اپیلیٹ کورٹ اٹارنی جنرل اسد اللہ خان ایڈووکیٹ پارلیمنٹ جسٹس امین الدین خان سپریم کورٹ گلگت بلتستان جسٹس جمال مندوخیل گلگت بلتستان میں ججز کی تعیناتی اٹارنی جنرل ججز تعیناتی سپریم کورٹ تھا کہ کے تحت کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ

ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، جج نے غصے میں فیصلہ دیا
اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ، جسٹس ہاشم کاکڑ

صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے ۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے ۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے ؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے ۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • 138قیمتی گاڑیوں کی خریداری کا معاملہ: سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج
  • سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایسٹر کی تقریب، مسیحی برادری کی خدمات کا اعتراف
  • عمر سرفراز چیمہ وہی ہیں جو گورنر تھے؟ سپریم کورٹ کا استفسار
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • یہ عمر سرفراز چیمہ  وہ ہے جو گورنر رہے ہیں؟سپریم کورٹ کا استفسار
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ
  • 9 مئی کیسز: صنم جاوید کی بریت کیخلاف سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے تبادلے کیخلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ