ماحولیات سے متعلق انہی معاہدوں پر دستخط کریں گے، جن سے پاکستان کو فائدہ ہو، مصدق ملک
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک نے کہا ہے کہ کمزور پوزیشن میں اب کسی ملک سے بات نہیں کریں گے، ہم پیرس ایگریمنٹ یا کسی اور ماحول کو محفوظ بنانے کی کوششوں کے دیگر فنڈز کے حامی ہیں، لیکن اب ہم صرف انہی معاہدوں پر دستخط کریں گے، جن سے ہمیں بھی فائدہ ہو۔
نجی ٹی وی کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ یورپ نے ’سی بیم‘ نامی قانون بنادیا ہے، امریکا کی طرز پر یہ قانون تقاضا کرتا ہے کہ آپ کی ٹیکسٹائل مصنوعات ’گرین‘ نہیں ہوں گی، تو آپ پر مزید ٹیکس لگائیں گے، آج میں نے ان ملکوں سے کہا ہے کہ آپ جو ترقی پذیر ملکوں سے گرین ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں، تو ہمارے پاس فنڈز کہاں ہیں؟۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ تو اسی طرح کا ٹیکس ہے، جس طرح امریکا لگا رہا ہے، جب آپ خود ترقی پذیر ملکوں پر ٹیکس لگارہے ہیں، اور گرین ہونے کے فنڈز خود لے جارہے ہیں، تو پھر امریکا سے ٹیکس لگانے پر شکوہ کیوں کر رہے ہیں؟، سی بیم کے تحت 85 فیصد گرین فنڈز امریکا، چین اور مغربی یورپی ممالک کو جا رہا ہے۔
مصدق ملک نے کہا کہ ہم پاکستان کے مفاد میں، اس ملک بچوں کے مفاد میں اپنا کام جاری رکھیں گے، خواہ کوئی عالمی مدد ہو یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی ہم کسی ترقی پذیر ملک کا ذکر کرتے ہیں، بالخصوص پاکستان کا ذکر کیا جاتا ہے، بات کو ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جیسے سارے گلیشئرز پگھل جائیں گے، سیلاب سے سب کچھ ختم ہوجائے گا، لیکن ایسا کچھ نہیں، ہم نے بالخصوص ہمارے غریب عوام کے علاقوں میں قدرتی آفات آئیں، اور ہم نے ان کا مقابلہ کیا، کئی بار تعمیر نو کی ہے، آئندہ بھی ہم اپنا کام جاری رکھیں گے۔
مصدق ملک نے کہا کہ میں جب بھی کسی دورے پر بیرون ملک جاتا ہوں، تو کہا جاتا ہے کہ آپ کا ملک موسمیاتی تبدیلی کے بڑے خطرات سے دو چار ہے، تو میں سب سے پہلے عالمی اداروں کی مدد پر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ ہم پاکستان اور اس ملک کے بچوں کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے کام کرتے رہیں گے، کوئی مدد نا بھی کرے، تو ہم اپنے وسائل سے اپنے ملک کو بچائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ گرین فنڈز دستیاب ہوگا تو ہم گرین ہوسکیں گے، ورنہ آپ ہم سے مطالبہ نہ کریں کہ آپ اتنا گرین ہوجائیں، جب عالمی سطح کے لوگوں کے ساتھ یہ بات کی تو کچھ مثبت رسپانس ملا، پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے، الیکٹرک گاڑیوں سمیت گرین انڈسٹری کے شعبے سے وابستہ ہمارے بچوں کے لیے بھاری فنڈنگ کے وعدے کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ جب آپ ہم پر صرف ٹیکس لگائیں گے، اور فنانس نہیں کریں گے تو یہ نہیں ہوسکتا، آپ کو ٹیکس واپس لینا ہوگا، جرمن حکام سے بھی یہی بات کی ہے، آپ گرین پروجیکٹ میں ہمارے پاس انویسٹمنٹ کریں ، پھر ٹیکس لیں، باکو میں انٹر منسٹری فنانسنگ اجلاس میں وزیراعظم یہ اینٹ لگاکر آئے تھے۔
انہوں نے کہاکہ گرین کلائمیٹ فنڈ کے تمام خدوخال وضع کرچکے ہیں، بہت جلد آپ کو آگاہ کریں گے کہ یہ کس طرح کام کرے گا، اور اس میں کتنا پیسہ آئے گا، پاکستان ماحول کو زیادہ آلودہ نہیں کرتا، ترقی یافتہ ممالک ماحول کو آلودہ کرتے ہیں، ہمیں جو ٹارگٹ دیا گیا تھا، اس سے ہم نے خود کو 40 فیصد نیچے رکھا ہوا ہے، جب کہ دیگر ممالک اپنے اہداف سے 50 فیصد زائد ماحولیاتی آلودگی پھیلا رہے ہیں، ان میں ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے کہا ہے کہ ایسے ترقی یافتہ ممالک پاکستان سے کاربن کریڈٹ خریدیں گے، کیا قیامت ہے کہ ہم اسلام آباد میں بیٹھ کر ہم نلکے سے پانی نہیں پی سکتے، تو سوچیں کہ یہاں بہت سے مڈل کلاس ہیں، جو بوتلوں کا پانی خرید کر پی لیتے ہیں، تو وہ پسماندہ علاقے جہاں غریبوں کی بڑی تعداد رہتی ہے، اور بوتل والا پانی خریدنے کی سکت نہیں رکھتی، ان کے کتنا بڑا ظلم ہے؟۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی وفاقی وزیر نے کہا کہ مصدق ملک کریں گے ہے کہ ا
پڑھیں:
ایشیائی ترقیاتی بینک اور گرین کلائمٹ فنڈ پاکستان کے لیے موسمیاتی موافقت کے منصوبے کی منظوری
دنیا آج موسمیاتی بحران کے ایک نازک موڑ پر ہے، جہاں بڑھتا ہوا درجہ حرارت، غیر معمولی بارشیں اور پگھلتے گلیشیئر محض خبروں کا موضوع نہیں بلکہ بقا کا سوال بن چکے ہیں۔ ایسے میں ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) اور گرین کلائمٹ فنڈ (GCF) نے پاکستان سمیت خطے کے ممالک کے لیے 250 ملین امریکی ڈالر کے ماحولیاتی موافقتی منصوبے کی منظوری دی ہے، جو پاکستان کے لیے امید کی نئی کرن بن سکتا ہے۔
یہ منصوبہ، جسےClimate-Resilient Glacial Water Resource Managementکہا گیا ہے، پاکستان میں گلیشیئر والے علاقوں جیسے گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا، سوات اور چترال میں عمل میں آئے گا۔ اس کا مقصد گلیشیئر سے وابستہ پانی کے وسائل کا تحفظ، سیلاب کی پیشگی وارننگ، اور زرعی نظام کی مضبوطی ہے۔ اس کے ذریعے مقامی کمیونٹیز، خاص طور پر خواتین، کو موسمیاتی تحفظ اور کلائمٹ ایکشن پروگراموں میں شامل کیا جائے گا۔
پاکستان حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات دیکھ چکا ہے۔ 2022 اور 2025 کے سیلابوں سے 18 ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے اور زرعی زمین کو شدید نقصان پہنچا، جس کا مالیاتی نقصان تقریباً 12 ارب ڈالر تخمینہ لگایا گیا۔ اس منصوبے کے تحت جدید نگرانی نظام، ابتدائی وارننگ سسٹمز، پائیدار آبپاشی اور ماحولیاتی تعلیم جیسے اقدامات کیے جائیں گے، تاکہ ملک Reactive پالیسی سے Proactive موافقت کی طرف گامزن ہو سکے۔
اہم تجاویز:
1. مقامی سطح پر کلائمٹ سیل کا قیام اور فنڈز کی شفاف مانیٹرنگ۔
2. عوامی آگاہی اور ماحولیاتی تعلیم میں خواتین اور نوجوانوں کی شمولیت۔
3. ڈیجیٹل رپورٹنگ کے ذریعے منصوبوں کی شفافیت اور اثرات کا جائزہ۔
4. مقامی ماہرین اور نوجوان محققین کو شامل کر کے سائنسی صلاحیت میں اضافہ۔
5. قدرتی وسائل کی بحالی اور متاثرہ علاقوں میں ماحولیاتی انصاف کو یقینی بنانا۔
یہ منصوبہ پاکستان کے لیے بحران سے استحکام کی طرف پہلا بڑا قدم ہے۔ اگر فنڈز مؤثر اور شفاف انداز میں استعمال کیے گئے، تو نہ صرف آئندہ سیلابوں کے نقصانات کم ہوں گے بلکہ ملک سبز، پائیدار اور ماحولیاتی لحاظ سے مضبوط ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔