نام نہاد ” ریسیپروکل ٹیرف” غلط  نسخے کے تحت غلط دوا لینا” ہے،چین

بیجنگ :ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے جنیوا میں اشیاء کی تجارت سے متعلق کونسل کا پہلا سالانہ اجلاس منعقد کیا۔

چین نے امریکہ کی جانب سے اٹھائے گئے ” ریسیپروکل ٹیرف” کے اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ امریکہ ڈبلیو ٹی او کے قوانین پر سختی سے عمل کرے اور عالمی معیشت اور کثیر الجہتی تجارتی نظام پر منفی اثرات سے گریز کرے۔

چینی فریق نے کہا کہ نام نہاد ” ریسیپروکل ٹیرف “غلط  نسخے  کے تحت غلط دوا لینے” کے مترادف ہے، جس سے نہ صرف تجارتی عدم توازن کا  مسئلہ  حل   نہیں ہو پائے گا  بلکہ خود امریکہ کو بھی نقصان پہنچے گا اور بین الاقوامی تجارتی نظام میں شدید خلل پڑے گا۔چین نے  ڈبلیو ٹی او کے تمام ارکان پر زور  دیا  کہ وہ تاریخ سے سیکھیں، کثیر الجہتی تجارتی قوانین کو برقرار رکھیں اور کثیر الجہتی مذاکرات اور تعاون کے ذریعے اختلافات کو حل کریں۔

یورپی یونین  کا کہنا تھا کہ  ” ریسیپروکل ٹیرف”کے اقدامات  ڈبلیو ٹی او کے بنیادی اصولوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ ٹیرفس  تجارتی عدم توازن کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد گارنہیں ہوں گے .

برطانیہ، کینیڈا، جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر رکن ممالک نے بین الاقوامی تجارتی نظام میں خلل ڈالنے اور عالمی صنعتی اور سپلائی چین کے مستحکم آپریشن کو کمزور کرنے پر امریکی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

پیرو، قازقستان اور چاڈ جیسے رکن ممالک نے امریکہ کے ” ریسیپروکل ٹیرف” کی مذمت کرتے ہوئے کہا  کہ اس سے کمزور معیشتوں والے ترقی پذیر ممالک پر شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ڈبلیو ٹی او کی ڈائریکٹر جنرل اینگوجیا  اوکونجو ویلا  نے اسی دن ایک بیان میں کہا کہ بین الاقوامی برادری کو بین الاقوامی تجارتی نظام کے کھلے پن کو برقرار رکھنے کے لئے مل کر کام کرنا چاہئے۔

Post Views: 5

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ریسیپروکل ٹیرف بین الاقوامی تجارتی نظام ڈبلیو ٹی او

پڑھیں:

کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔

بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔

صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔

طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔

ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔

یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔

متعلقہ مضامین

  • چین کے غیرملکی تجارتی حجم میں  سال بہ سال 2.5 فیصد کا اضافہ 
  • اسرائیل کا فریڈم فلوٹیلا پر حملہ، امدادی کشتی “میڈلین” کو قبضے میں لے لیا
  • امریکہ سے تجارتی کشیدگی کے باعث چینی برآمدات متاثر
  • کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
  • کمزوری کا ڈرامہ اور رونے کی اداکاری”: بحیرہ جنوبی چین میں فلپائن کی بلیک میلنگ کی حکمت عملی ۔ سی ایم جی کا تبصرہ
  • “ہوسٹنگ کی ذمہ داریاں بھی بورڈ نے پلئیرز کو سونپ دیں”
  • چین اور یورپی یونین کے درمیان  تین ” اہم معاملات ” میں پیش رفت
  • امام خمینی نے اپنی حکمت و بصیرت اور کمال دانشمندی سے اسلام مخالف قوتوں کو زیر کیا، علامہ قاضی نادر حسین علوی
  • آئی سی سی ججوں پر امریکی پابندیاں نظام انصاف کے لیے نقصان دہ، وولکر ترک
  • تعلیمی اداروں میں امتحانات ختم کر دینا چاہییں؟