واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اپریل2025ء) امریکا کی نصف سے زیادہ بالغ آبادی نے اسرائیل کےلئے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات 24 مارچ سے 30 مارچ کے درمیان کئے گئے ایک سروے کی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ معروف امریکی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے ایک نئے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کی طرف امریکی رائے عامہ میں ایک حیرت انگیز تبدیلی آئی ہے، جس میں 53 فیصدبالغ امریکی شہری اب اسرائیل بارے ناپسندیدگی کے جذبات رکھتے ہیں ، مارچ 2022 میں ایسے امریکی شہریوں کی شرح 42 فیصد تھی۔

رپورٹ کے مطابق یہ حالیہ برسوں میں ریکارڈ کی جانے والی اسرائیل کے لئےبالغ امریکی شہریوں کی ناپسندیدگی کی بلند ترین سطح ہے، جو غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں بچوں اور خواتین سمیت 50 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کے قتل اور فوجی طاقت کے بے تحاشا استعمال سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی پر امریکی شہریوں کی بے چینی کی عکاسی کرتا ہے۔

(جاری ہے)

عام طور پر اسرائیل کو طویل عرصے سے امریکا میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کی حمایت حاصل ہے لیکن اس سروے کے نئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاص طور پر نوجوان امریکی شہریوں اور ڈیموکریٹس میں اسرائیل کے حوالے سے شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔سروے کے مطابق تقریباً 70 فیصد ڈیموکریٹس اب اسرائیل کے بارے میں ناگوار خیالات رکھتے ہیں جبکہ ایسے جذبات رکھنے والے ریپبلکنز کا تناسب 37 فیصد ہے۔

50 سال سے کم عمر کے ریپبلکنز میں سے 48 فیصد اسرائیل کے لئے مثبت جبکہ 50 فیصد اسرائیل کے لئے منفی جذبات رکھتے ہیں۔ 2022 کے اعداد و شمار میں یہ تناسب اس کے برعکس تھا۔ 81 فیصد مسلمان امریکی اور خود کو نان ریلیجیئس کہنے والے 69 فیصد امریکی اسرائیل بارے منفی خیالات رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ بالغ امریکی شہری جو عالمی معاملات کو سنبھالنے کے لئے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر اعتماد کرتے ہیں کا تناسب صرف 32 فیصد رہ گیا ہے ۔

اس حوالے سے ان پر کم یا بالکل اعتماد نہ کرنے والے بالغ امریکی شہریوں کا تناسب 52 فیصد اور مسلمان امریکیوں کا تناسب 87 فیصد ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بارے یہودی امریکی کمیونٹی کے اندر بھی رائے منقسم ہے، 53فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں اسرائیلی وزیر اعظم پر اعتماد نہیں ہےجبکہ 45 فیصد ان کی قیادت کی حمایت کرتے ہیں۔70 فیصد مسلمان امریکیوں کا خیال ہے کہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی بہت زیادہ حمایت کر رہے ہیں۔ 62 فیصد امریکی غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نظریے کے مخالف ہیں۔ اس کے علاوہ اب صرف 46 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل اور مستقبل کی فلسطینی ریاست پرامن طور پر ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی شہریوں بالغ امریکی اسرائیل کے رکھتے ہیں کا تناسب بالغ ا

پڑھیں:

ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران

میری بات/روہیل اکبر

ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں اے آئی کا استعمال 15 فیصد سے بھی کم، یو اے ای اور سنگاپور سرفہرست
  • امریکا میں آنتوں کی مخصوص بیماری میں خطرناک اضافہ
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
  • صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
  • او آئی سی سی آئی سروے میں 73فیصد افراد نے پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے موزوں قراردیدیا
  • ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ
  • پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں 60 فیصد اضافہ