UrduPoint:
2025-09-18@12:02:10 GMT

صحافی کے بھائی تاحال لاپتہ، ماں کی اپیل بھی نہ سنی گئی

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

صحافی کے بھائی تاحال لاپتہ، ماں کی اپیل بھی نہ سنی گئی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اپریل 2025ء) پاکستان کی وزارتِ دفاع نے صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کی جبری گمشدگی سے متعلق درخواست پر جواب دیتے ہوئے ان کی گرفتاری یا حراست سے لاتعلقی اور کسی بھی قسم کی معلومات ہونے سے انکار کیا ہے۔ اسلام آباد پولیس نے بھی کہا ہے کہ وہ احمد نورانی کے بھائیوں کے اغوا سے متعلق کوئی تفصیلات نہیں جانتی۔

خاندان کا دعویٰ کیا ہے؟

خاندان کا دعویٰ ہے کہ احمد نورانی کے دو بھائیوں سیف الرحمٰن حیدر اور محمد علی کو انیس مارچ کی رات کو سکیورٹی اہلکاروں نے زبردستی اغوا کیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب چند روز قبل صحافی احمد نورانی نے ملک کے آرمی چیف پر ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی، جس میں اختیارات کے غلط استعمال کے حوالے سے متعلق سوال اٹھائے گئے تھے۔

(جاری ہے)

صحافتی حلقوں میں اس رپورٹ پر اس حوالے سے اعترازات بھی اٹھائے گئے کہ اس میں آرمی چیف کی فیملی کی تصاویر کیوں شائع کی گئیں۔

احمد نورانی کی والدہ نے اپنے دو لاپتہ بیٹوں کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے۔ عدالت نے پہلے اسلام آباد پولیس سے جواب طلب کیا تھا اور بعد ازاں انسپکٹر جنرل پولیس کو عدالت میں پیش ہو کر صورتحال پر وضاحت دینے کا حکم دیا۔

خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئی

اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل علی ناصر رضوی بالآخر سات اپریل کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے اور لاپتہ بھائیوں سے منسلک فون سم کی سرگرمی بائیس اور تئیس مارچ کو بہاولپور میں ٹریس کی گئی ہے۔

پاکستان کی ریاستی مشینری صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کو بازیاب کرنے میں ابھی تک ناکام ہے۔

آئی جی اسلام آباد نے کورٹ کو بتایا کہ پولیس ٹیمیں بہاولپور اور سندھ روانہ کی گئی ہیں اور وہ مختلف صوبوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطے میں ہیں۔

وزارتِ دفاع نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ صحافی احمد نورانی کے دو بھائی، جو تین ہفتے قبل اسلام آباد سے لاپتہ ہوئے، ان کی تحویل میں نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں ان کے بارے میں کوئی علم ہے۔

درخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری نے عدالت میں جبری گمشدگیوں کے مقدمات میں احتساب کے فقدان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'گمشدگی کے بعد فون کا استعمال‘ جیسے ہتھکنڈے عام ہیں، خاص طور پر جب خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کا شبہ ہو‘۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ گمشدگی سے متعلق سوال خاکی وردی والوں سے بھی پوچھا جانا چاہیے۔

ماں کی اپیل نہیں سنی گئی

صحافی احمد نورانی کی والدہ آمنہ بشیر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے یہ بیانات کہ انہیں ان کے بیٹوں کے بارے میں کچھ علم نہیں، ان کے دکھوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور عدالتی نظام پر ان کے اعتماد کو ختم کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ’’انہیں میرے بیٹوں کی موجودگی کا علم کیسے نہیں ہو سکتا جبکہ نقاب پوش سکیورٹی اہلکار انہیں ہماری آنکھوں کے سامنے لے گئے تھے؟‘‘

انہوں نے کہا کہ میرے دونوں بیٹوں کا اپنے صحافی بھائی کی صحافتی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں، پھر بھی وہ ایک ایسے ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہے ہیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔

انہوں نے کہا، ’’میں نے آرمی چیف عاصم منیر سے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے بھی اپیل کی تھی کہ میرے بیٹوں کا اُن رپورٹس سے کوئی تعلق نہیں جو میرا تیسرا بیٹا، جو امریکہ میں مقیم ہے، شائع کرتا ہے، اس لیے آرمی چیف مہربانی فرما کر میرے بیٹوں کی رہائی میں کردار ادا کریں۔ لیکن ایک ہفتے سے زائد گزر گیا ہے اور میری اپیل نے بھی کسی کا دل نرم نہیں کیا۔

‘‘ الزامات شدید ہوتے ہوئے!

یہ امر بھی اہم ہے کہ نورانی کے خاندان کے گھر کے قریب دو گھروں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، جہاں سے ان کے دونوں بیٹوں کو اغوا کیا گیا تھا۔ اہل خانہ کے مطابق ان کیمروں نے یقینی طور پر ان وردی پوش مسلح اہلکاروں کی ویڈیو ریکارڈ کی ہو گی جو گھر کے اندر داخل ہوئے اور اُن سکیورٹی اداروں کی گاڑیاں کی بھی جو گھر کے باہر موجود تھیں، لیکن واقعے کے بعد پولیس نے کیمروں کی فوٹیج پر قبضہ کر لیا۔

احمد نورانی کی بہن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پولیس واقعے کے اگلی صبح ہمارے دونوں پڑوسیوں کے گھروں میں گئی کیونکہ ان کے گھروں کے باہر کیمرے نصب تھے۔ پولیس نہ صرف دونوں پڑوسیوں کی ریکارڈنگ ڈیوائسز ساتھ لے گئی بلکہ ممکنہ طور پر انہیں دھمکایا بھی، جس کے باعث وہ ہم سے بات کرنے سے بھی ڈر رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی ادارے نہ صرف انصاف کی راہ میں ایک دیوار بنے ہوئے ہیں بلکہ وہ ظلم اور ریاستی جبر میں بھی معاونت کر رہے ہیں، ''ہر فرد کو آزاد ہونا چاہیے، ریاست کیسے کسی بے گناہ کو صرف اس لیے سزا دے سکتی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کا بھائی ہے، جس سے بدلہ لینا یا سزا دینا مقصود ہو؟

عدالت کا کردار کیسا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے کردار پر بھی خاندان اور ان کے وکیل کی جانب سے اطمینان کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔

احمد نورانی کی والدہ اور بہن کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ عدالت معاملے کو آگے بڑھانے کے بجائے وقت گزارنے کی کوشش کر رہی ہے۔

سائرہ بشیر نے کہا، ''ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت جانتی ہے کہ میرے بھائیوں کو کس نے اغوا کیا ہے اور خود کو بے بس سمجھ کر کوئی قدم اٹھانے سے گریزاں ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے عدالت بھی اغوا کار کے رحم و کرم پر ہے کہ وہ کب مہربانی کرے اور میرے بھائیوں کو چھوڑے۔

‘‘

درخواست گزاریعنی بھائیوں کی والدہ کی وکیل ایمان مزاری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے کو درست سمت میں نہیں لے جا رہی۔

انہوں نے کہا، ’’ہم بار بار درخواست دے چکے ہیں کہ وزارت دفاع کے سیکرٹری اور ملک کی خفیہ ایجنسی کے سیکٹر کمانڈر کو عدالت میں طلب کیا جائے، لیکن عدالت اس سے گریزاں ہے۔‘‘

مزید برآں انہوں نے کہا کہ عدالت اس سنگین مسئلے کو ایک فوری نوعیت کا معاملہ نہیں سمجھ رہی، ''جج بظاہر کہتے ہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کو سنیں گے لیکن پھر سماعت ایک ہفتے سے بھی زیادہ کے لیے مؤخر کر دی جاتی ہے اور ایسے معاملے میں اسے انصاف نہیں کہا جا سکتا۔‘‘

ادارت: عاطف بلوچ

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے صحافی احمد نورانی احمد نورانی کی احمد نورانی کے انہوں نے کہا اسلام آباد عدالت میں کے بھائی کہ عدالت کی والدہ رہے ہیں ہے اور کہا کہ

پڑھیں:

کیا آئی سی سی غزہ پر کسی کپتان کا بیان برداشت کرپائے گا؟ بھارتی صحافی پہلگام کے ذکر پر برس پڑے

روش کمار نے سوال اٹھایا کہ بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو کا بیان کیا بی سی سی آئی یا آئی سی سی کی منظوری کے بغیر دیا جاسکتا تھا، اگر کسی میچ میں پاکستانی یا کوئی اور کپتان غزہ یا فلسطین پر بیان دے تو کیا آئی سی سی اسے برداشت کر پائے گی۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز۔ ایوارڈ یافتہ بھارتی صحافی روش کمار نے ایشیا کپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کے دوران مصافحے کے تنازع پر سخت ردعمل دیا ہے۔ اپنے یوٹیوب چینل پر، جس کے 90 لاکھ سے زائد سبسکرائبرز ہیں، گفتگو کرتے ہوئے روش کمار نے کہا کہ پہلے کہا گیا کہ کھیل ہمیشہ اسپورٹس مین اسپرٹ کے تحت ہوتا ہے، لیکن اگر بھارتی کپتان پاکستانی کپتان سے ہاتھ ہی نہیں ملاتے تو یہ کیسی اسپورٹس مین اسپرٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میچ کھیلا جا رہا ہے، ٹکٹیں بک رہی ہیں، اس سے آمدنی بھی ہو رہی ہے اور پھر عوام کو یہ کہہ کر بہلایا جا رہا ہے کہ کپتان نے ہاتھ نہیں ملایا۔ میچ سے قبل پہلگام دہشت گرد حملے میں مارے گئے افراد کی یاد کا حوالہ بھی دیا گیا تھا، ایسا لگتا ہے جیسے عوام کو ایک ٹوکن تھما دیا گیا ہو تاکہ وہ اسی کو حب الوطنی سمجھ کر خوش رہیں۔

روش کمار نے سوال اٹھایا کہ بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو کا بیان کیا بی سی سی آئی یا آئی سی سی کی منظوری کے بغیر دیا جاسکتا تھا، اگر کسی میچ میں پاکستانی یا کوئی اور کپتان غزہ یا فلسطین پر بیان دے تو کیا آئی سی سی اسے برداشت کر پائے گی۔ ان کے بقول سوریا کمار یادیو کا بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسپورٹس مین اسپرٹ میں سیاست کس حد تک شامل ہوچکی ہے۔ روش کمار نے مزید کہا کہ جس طرح بھارتی میڈیا کو ’گودی میڈیا‘ کہا جاتا ہے، ویسا ہی حال اب کرکٹ کا بھی دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دہشت گردی سے نمٹنے کے عزم پر بھارت کوئی اعتراض نہ جتا سکا، تو کیا اس پر بھی بھارتی کپتان کوئی بیان دینا پسند کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیر داخلہ کے نوٹس کے باوجود ڈیٹا تاحال بیچا جا رہا
  • سینئر اداکار محمد احمد بھائی کے انتقال کے لمحے کو یاد کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے
  • چیئرمین پی ٹی اے کی  اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ  میں اپیل دائر
  • کیا آئی سی سی غزہ پر کسی کپتان کا بیان برداشت کرپائے گا؟ بھارتی صحافی پہلگام کے ذکر پر برس پڑے
  • عمرشاہ کی انتقال سے پہلے اپنے بھائی احمد کے ہمراہ چاچو سے فرمائش کی آخری ویڈیو وائرل
  • کراچی: شادی والے دن لاپتہ ہونیوالا دلہا واپس لوٹ آیا، پولیس
  • کراچی: شادی کے روز پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والا دلہا 5 دن بعد گھر واپس پہنچ گیا
  • کراچی، شادی کے دن پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والا دلہا 5 دن بعد گھر واپس پہنچ گیا
  • مولانا ثناء اللہ جماعت اسلامی ضلع سائٹ غربی حاجی بشیر احمد کے بھائی ڈاکٹر عبدالرشید کے انتقال پرتعزیت کررہے ہیں
  • مالی تنازع پر عدالت آنے والے بھائیوں پر فائرنگ، 1 جاں بحق