صحافی کے بھائی تاحال لاپتہ، ماں کی اپیل بھی نہ سنی گئی
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اپریل 2025ء) پاکستان کی وزارتِ دفاع نے صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کی جبری گمشدگی سے متعلق درخواست پر جواب دیتے ہوئے ان کی گرفتاری یا حراست سے لاتعلقی اور کسی بھی قسم کی معلومات ہونے سے انکار کیا ہے۔ اسلام آباد پولیس نے بھی کہا ہے کہ وہ احمد نورانی کے بھائیوں کے اغوا سے متعلق کوئی تفصیلات نہیں جانتی۔
خاندان کا دعویٰ کیا ہے؟خاندان کا دعویٰ ہے کہ احمد نورانی کے دو بھائیوں سیف الرحمٰن حیدر اور محمد علی کو انیس مارچ کی رات کو سکیورٹی اہلکاروں نے زبردستی اغوا کیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب چند روز قبل صحافی احمد نورانی نے ملک کے آرمی چیف پر ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی، جس میں اختیارات کے غلط استعمال کے حوالے سے متعلق سوال اٹھائے گئے تھے۔
(جاری ہے)
صحافتی حلقوں میں اس رپورٹ پر اس حوالے سے اعترازات بھی اٹھائے گئے کہ اس میں آرمی چیف کی فیملی کی تصاویر کیوں شائع کی گئیں۔
احمد نورانی کی والدہ نے اپنے دو لاپتہ بیٹوں کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے۔ عدالت نے پہلے اسلام آباد پولیس سے جواب طلب کیا تھا اور بعد ازاں انسپکٹر جنرل پولیس کو عدالت میں پیش ہو کر صورتحال پر وضاحت دینے کا حکم دیا۔
خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئیاسلام آباد کے انسپکٹر جنرل علی ناصر رضوی بالآخر سات اپریل کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے اور لاپتہ بھائیوں سے منسلک فون سم کی سرگرمی بائیس اور تئیس مارچ کو بہاولپور میں ٹریس کی گئی ہے۔
پاکستان کی ریاستی مشینری صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کو بازیاب کرنے میں ابھی تک ناکام ہے۔
آئی جی اسلام آباد نے کورٹ کو بتایا کہ پولیس ٹیمیں بہاولپور اور سندھ روانہ کی گئی ہیں اور وہ مختلف صوبوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطے میں ہیں۔
وزارتِ دفاع نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ صحافی احمد نورانی کے دو بھائی، جو تین ہفتے قبل اسلام آباد سے لاپتہ ہوئے، ان کی تحویل میں نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں ان کے بارے میں کوئی علم ہے۔
درخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری نے عدالت میں جبری گمشدگیوں کے مقدمات میں احتساب کے فقدان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'گمشدگی کے بعد فون کا استعمال‘ جیسے ہتھکنڈے عام ہیں، خاص طور پر جب خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کا شبہ ہو‘۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ گمشدگی سے متعلق سوال خاکی وردی والوں سے بھی پوچھا جانا چاہیے۔
ماں کی اپیل نہیں سنی گئیصحافی احمد نورانی کی والدہ آمنہ بشیر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے یہ بیانات کہ انہیں ان کے بیٹوں کے بارے میں کچھ علم نہیں، ان کے دکھوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور عدالتی نظام پر ان کے اعتماد کو ختم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’انہیں میرے بیٹوں کی موجودگی کا علم کیسے نہیں ہو سکتا جبکہ نقاب پوش سکیورٹی اہلکار انہیں ہماری آنکھوں کے سامنے لے گئے تھے؟‘‘
انہوں نے کہا کہ میرے دونوں بیٹوں کا اپنے صحافی بھائی کی صحافتی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں، پھر بھی وہ ایک ایسے ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہے ہیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔
انہوں نے کہا، ’’میں نے آرمی چیف عاصم منیر سے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے بھی اپیل کی تھی کہ میرے بیٹوں کا اُن رپورٹس سے کوئی تعلق نہیں جو میرا تیسرا بیٹا، جو امریکہ میں مقیم ہے، شائع کرتا ہے، اس لیے آرمی چیف مہربانی فرما کر میرے بیٹوں کی رہائی میں کردار ادا کریں۔ لیکن ایک ہفتے سے زائد گزر گیا ہے اور میری اپیل نے بھی کسی کا دل نرم نہیں کیا۔
‘‘ الزامات شدید ہوتے ہوئے!یہ امر بھی اہم ہے کہ نورانی کے خاندان کے گھر کے قریب دو گھروں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، جہاں سے ان کے دونوں بیٹوں کو اغوا کیا گیا تھا۔ اہل خانہ کے مطابق ان کیمروں نے یقینی طور پر ان وردی پوش مسلح اہلکاروں کی ویڈیو ریکارڈ کی ہو گی جو گھر کے اندر داخل ہوئے اور اُن سکیورٹی اداروں کی گاڑیاں کی بھی جو گھر کے باہر موجود تھیں، لیکن واقعے کے بعد پولیس نے کیمروں کی فوٹیج پر قبضہ کر لیا۔
احمد نورانی کی بہن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پولیس واقعے کے اگلی صبح ہمارے دونوں پڑوسیوں کے گھروں میں گئی کیونکہ ان کے گھروں کے باہر کیمرے نصب تھے۔ پولیس نہ صرف دونوں پڑوسیوں کی ریکارڈنگ ڈیوائسز ساتھ لے گئی بلکہ ممکنہ طور پر انہیں دھمکایا بھی، جس کے باعث وہ ہم سے بات کرنے سے بھی ڈر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی ادارے نہ صرف انصاف کی راہ میں ایک دیوار بنے ہوئے ہیں بلکہ وہ ظلم اور ریاستی جبر میں بھی معاونت کر رہے ہیں، ''ہر فرد کو آزاد ہونا چاہیے، ریاست کیسے کسی بے گناہ کو صرف اس لیے سزا دے سکتی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کا بھائی ہے، جس سے بدلہ لینا یا سزا دینا مقصود ہو؟
عدالت کا کردار کیسا ہے؟اسلام آباد ہائی کورٹ کے کردار پر بھی خاندان اور ان کے وکیل کی جانب سے اطمینان کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔
احمد نورانی کی والدہ اور بہن کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ عدالت معاملے کو آگے بڑھانے کے بجائے وقت گزارنے کی کوشش کر رہی ہے۔سائرہ بشیر نے کہا، ''ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت جانتی ہے کہ میرے بھائیوں کو کس نے اغوا کیا ہے اور خود کو بے بس سمجھ کر کوئی قدم اٹھانے سے گریزاں ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے عدالت بھی اغوا کار کے رحم و کرم پر ہے کہ وہ کب مہربانی کرے اور میرے بھائیوں کو چھوڑے۔
‘‘درخواست گزاریعنی بھائیوں کی والدہ کی وکیل ایمان مزاری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے کو درست سمت میں نہیں لے جا رہی۔
انہوں نے کہا، ’’ہم بار بار درخواست دے چکے ہیں کہ وزارت دفاع کے سیکرٹری اور ملک کی خفیہ ایجنسی کے سیکٹر کمانڈر کو عدالت میں طلب کیا جائے، لیکن عدالت اس سے گریزاں ہے۔‘‘
مزید برآں انہوں نے کہا کہ عدالت اس سنگین مسئلے کو ایک فوری نوعیت کا معاملہ نہیں سمجھ رہی، ''جج بظاہر کہتے ہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کو سنیں گے لیکن پھر سماعت ایک ہفتے سے بھی زیادہ کے لیے مؤخر کر دی جاتی ہے اور ایسے معاملے میں اسے انصاف نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
ادارت: عاطف بلوچ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے صحافی احمد نورانی احمد نورانی کی احمد نورانی کے انہوں نے کہا اسلام آباد عدالت میں کے بھائی کہ عدالت کی والدہ رہے ہیں ہے اور کہا کہ
پڑھیں:
کسی اپیل کے زیر التوا ہونے سے چیلنج شدہ فیصلے پر عملدرآمد رک نہیں جاتا، سپریم کورٹ
اسلام آباد:چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے تحریر کردہ ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کے زیر التوا ہونے کے سبب ازخود چیلنج شدہ فیصلے پر عمل درآمد رک نہیں جاتا۔
اصول سپریم کورٹ کے رولز 1980 سے بھی واضح ہے کہ اپیل دائر کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جائے، البتہ اگر عدالت چاہے تو کچھ شرائط کیساتھ یا حکم امتناع کے ذریعے چیلنج شدہ فیصلے پر عمل درآمد روکا جاسکتا ہے۔
یہ فیصلہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شکیل احمد اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل تین رکنی بنیچ نے چیف لینڈ کمشنر پنجاب بنام ایڈمنسٹریٹو اوقاف ڈیپارٹمنٹ بہاولپور کیس میں دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت یہ درخواستیں ان ریویژن آرڈرز سے متعلق ہیں جو لاہور ہائیکورٹ نے ایک دہائی قبل جاری کیے تھے، جن میں ریونیو حکام کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اس معاملے پر قانون کے مطابق دوبارہ فیصلہ کریں، ان واضح ہدایات کے باوجود، ڈپٹی لینڈ کمشنر بہاولپور نے کوئی کارروائی نہیں کی، جس کے نتیجے میں بلا جواز اور بلاوجہ کیس میں تاخیر ہوئی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس بات کی تصدیق کی کہ کسی بھی عدالت کی جانب سے کوئی حکم امتناع جاری نہیں کیا گیا تھا۔ اس اعتراف سے واضح ہوتا ہے کہ عملدرآمد میں ناکامی کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں تھا۔
سپریم کورٹ یہ ضروری سمجھتی ہے کہ اس تشویشناک طرزعمل کو اجاگر کیا جائے جس میں ریمانڈ آرڈرز کو اختیاری سمجھا جاتا ہے یا انہیں غیر معینہ مدت تک معطل رکھا جاتا ہے،ریمانڈ کا مطلب تاخیر کا جواز فراہم کرنا نہیں ہوتا، جب اعلیٰ عدالتیں ریمانڈ کی ہدایات جاری کرتی ہیں تو ان پر مخلصانہ اور فوری عملدرآمد لازم ہوتا ہے، اس میں ناکامی تمام حکام پر آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
یہ صرف انفرادی غفلت نہیں بلکہ لازمی عدالتی احکامات سے مستقل انتظامی لاپرواہی کی علامت ہے، جو ایک نظامی ناکامی ہے اور جسے فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس معاملے پر غور کرنے کے لیے عدالت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کی ذاتی پیشی طلب کی تو انھوں نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ صوبائی سطح پر واضح اور جامع پالیسی ہدایات جاری کی جائیں گی، جن کے ذریعے تمام متعلقہ حکام کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ ریمانڈ آرڈرز پر فوری اور بلا تاخیر عملدرآمد کریں۔
عملدرآمد کی نگرانی کی جائیگی اور ان کے دائرہ اختیار میں موجود تمام زیر التوا ریویژن مقدمات کی موجودہ صورتحال کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔ عدالت نے حکم دیا کہ صوبے میں تمام زیر التوا ریویژن مقدمات کی تازہ ترین صورتحال، اس حکم کے اجرا کے تین ماہ کے اندر اندر، اس عدالت کے رجسٹرار کو جمع کروائی جائے۔