ٹی وی پر جو دکھایا جا رہا ہے وہ معاشرے کو سراسر بگاڑ رہا ہے ، فریال علی گوہر
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
تعارف، محترمہ فریال علی گوہر، پاکستان کی میڈیا انڈسڑی اور ڈیویلپمینٹ سیکٹرکا ایک معروف اور معتبر نام ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ ہیں، کینیڈا کی میکگل یونیورسٹی سے پولیٹیکل اکانومی میں گریجویشن کی، بعد ازاں امریکہ سے فلم میکنگ کی تعلیم بھی حاصل کی، بی بی سی کی ورلڈ سروس سے بطورانٹرن وابستگی رہیں، ریڈیو ہالینڈ کے لیے نیوز اینڈکرنٹ افئیرز کے پروگرام بھی پروڈیوس کیے، اداکاری بھی کی ، یو این کی خیر سگالی سفیر بھی رہی ہیں۔ انگلش میں تین ناول لکھ چکی ہیں۔ فریال خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے ایک توانا او ر موثر آواز ہیں۔ اپنی رائے اور موقف کے اظہار میں کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوئیں۔
سوال: آپ نے خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے بہت کام کیا ہے۔ پاکستان میں بچوں اور خواتین کو ان کے حقوق کس حد تک مل رہے ہیں؟
جواب: کچھ حد تک مل رہے ہیں، لیکن ابھی بہت کام باقی ہے۔ اس طرح کے جو دن منائے جاتے ہیں خواہ وہ خواتین کے حوالے سے ہوں ،مزدوروں کے حوالے سے ہوں، ان کی ایک اپنی اہمیت ضرور ہے کہ لوگوں کے شعور میں ایک چیز بیٹھ جاتی ہے کہ، ہاں یہ ایک مسئلہ ہے۔ ہماری جو جدوجہد ہے وہ جاری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہوں گی کہ ہمارا روزکا دن ہمارا دن ہے۔ ہرروز ہمارا دن ہے۔ ہر انسان کا دن ہے۔ہر جانور کا دن ہے۔ ہر مزدور کا ، ہر عورت کا ، بچے کا۔ وہ دن جس طرح سے گزرتا ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ جس کو ہم Nations Civilized of Comityکہتے ہیں۔
آپ خود دیکھیں کہ پاکستان کے جی ڈی پی میں خواتین کی پروڈکٹویٹی (Productivity ) یا کنٹری بیوشن کتنی گنی جاتی ہے، اور اصل میں کتنی ہوتی ہے، جس کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ آپ دیکھیے، جو دیہی علاقے کی خواتین ہیں، وہ صبح اپنے مرد سے پہلے اٹھیں گی، گھر کا سارا کام کریں گی، جانوروں کو وہ سنبھالیں گی، مردکا ناشتہ بنائیں گی، اگروہ کھیتوں میں جارہا ہے تو گیارہ بجے تک وہ کھیت میں کام کر کے کیکر کے نیچے چارپائی ڈال کر وہ سو جاتا ہے، عورت کا کا م رکتا نہیں ہے، وہ سارا دن لگی رہتی ہے۔ اگر وہ شادی شدہ ہے، تو اس کے سسرال کے لوگ ہیں، اس کو سنبھالنا ہے، اپنے بچے ہیں، اورجب کپاس کا سیزن آتا ہے تو وہ کپاس چْنتی ہے ، جب گندْم کی کٹائی ہوتی ہے توا س کا دانہ نکالنا۔ کیونکہ میرے والد زمینداری کرتے تھے تو یہ سب کچھ میں بچپن میں دیکھ چکی ہوں۔ یہ ساری Labour Unacknowledgedہے، پاکستان میں خواتین کی لیبرفورس میں شمولیت 17 سے 19 فیصد تک ہے۔
اس کو گنا جاتا ہے۔ آپ دیکھیے، کہ پاکستان کی آبادی میں اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے تو اس میں کم از کم پچاس فیصد سے کم خواتین کا ہے۔ آبادی میں خواتین کا تناسب دیکھا جائے تو لڑکیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ ایک سو چھ لڑکیوں کے مقابلے میں سو بچے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ایک قدرت کا نظام ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہمارے جیسے ممالک جو جنوبی ایشیا میں ہیں مثلاً ہندوستان ہے، ہم(پاکستان) ہیں۔ بنگلہ دیش ہے اب ان کے ہاں حالات بہتر ہوئے ہیں۔ آپ دیکھیں خواتین کا نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، بچی کا پتہ لگ جانے پر حمل کو ضائع کروا دینا۔ جو ایک Norm Biological Global تھا، ایک سو چھ بچیوں اور سو لڑکوں کا ،وہ اب الٹ (Reverse)ہو گیا ہے۔
اب ہمارے ہاں 89 لڑکیاں اور 100 لڑکے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہم وہ حمل ہی ضائع کردیتے ہیں جہاں بچی پیدا ہو رہی ہو۔ ایسا معاشرہ خونی معاشرہ ہوا نا، جس میں ہم قتل کو قبول کر رہے ہیں بلکہ لڑکوں کے لیے ہماری ترجیح اتنی زیادہ ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش پر ہی ماتم شروع ہوجاتا ہے۔
یہ چیزیں آہستہ، آہستہ اب ختم ہونا شروع ہوئی ہیں۔اب دیکھیں میرا تعلق ظاہر ہے ایک ایسے گھر سے ہے جس میں وسائل تھے اور ہیں۔ اور اس کا فائدہ میرے والدین نے ہم تک پہنچایا کہ ہم تعلیم یافتہ ہو گئے۔لیکن تعلیم کے علاوہ ایک تربیت ہوتی ہے جس میں آپ کو سوچ اور فکر کی ایک جو Sense ہوتی ہے، ایک Process Intellectualہوتا ہے، آپ Analyse کر سکتے ہیں۔ یہ پتہ چلتا ہے کہ وسطی طبقہ یا جو امیر گھرانے ہیں، ان میں بھی بر ابری نہیں ہے۔ جب تک پدرشاہی نظام برقرار رہے گا، تب تک عورت مظلوم رہے گی،تو میری جو جدوجہد ہے بطور وویمن رائٹس ایکٹوسٹ یا ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ وہ میں سمجھوں گی وہ ایک نظام کے خلاف ہے ، مرد کے خلاف نہیں ہے۔مرد ہمارے ساتھ ہیں، شانہ بشانہ ہیں۔
سوال : ہمارے پدر شاہی پر مبنی نظام میں صنفی امتیاز پر مبنی رویوں کو بہتر کیسے کیا جا سکتا ہے؟
جواب: دیکھیں یہ ذمے داری گھروں کی ہے، ریاست کی بھی ہے۔ ریاست کا ایک اور پیمانہ ہے ایک اور سطح ہے۔ لیکن ایک گھر میں ماں اور باپ کی پر ورش سے معاملہ یا تو بگڑ جاتا ہے یا حل ہو جاتا ہے۔ ماں جب بیٹے اور بیٹی میں فرق لاتی ہے تو وہیں وہ بیٹا سیکھتا ہے کہ میں بہتر ہوں۔ میرے زیادہ حقوق ہیں۔ باپ بھی اسی چیز کے پیچھے ہے۔ وہ ایک ڈگر چلی آرہی ہے کئی صدیوں سے ، ہزاروں سالوں سے۔ اب ہزاروں سالوں سے بہت سی چیزیں جو بہتر ہوئی ہیں۔ صحت کا نظام بہتر ہوا ہے۔ لیکن اگر ہم بہت سی دوسری چیزوں کو بہتر کر سکے ہیں تو ہم کیوں نہیں مساوی حقوق کی طرف چل سکے ہیں۔
یہ ذمہ داری اس ماں اور باپ کی گود کی ہے۔ وہاں سے یہ مسئلہ یا حل شروع ہو گا۔ جہاں ماں سکھاتی ہے اور بتاتی ہے۔ اکثر ہم سمجھتے ہیں کہ باپ کا کوئی رول ہی نہیں ہے بچوں کی پرورش میں۔ بھئی کیوں نہیں ہے۔ اگر نہیں ہے تو ہونا چاہیے۔ اگر باپ کا تعلق صرف باہر کی دنیا سے ہے اور ماں کا گھر کی دنیا سے۔ ایسی بھی تو فیمیلیز ہیں جہاں ماں ، باپ دونوں کام کر رہے ہیں۔آج میں بھی کہیں سڑک پر نکلوں ، دوائی لینے چلی جاؤں، ٹھیک ہے ، واک کے لیے چلی جاؤں، مجھے گھورا جائے گا ،مرد کو کوئی نہیں گھورتا۔ شاید اس لیے کہ شاید مرد اتنے خوش شکل نہیں ہوتے۔ لیکن مجھے ایک عورت یا بچی کو بطور Object کے دیکھا جاتا ہے۔
سوال: ہماری Conditioning Social ایسی ہوئی ہے کہ اس نے ہمارے رویے سیٹ کر دیے ہیں۔ اسے تبدیل کرنا ایک طویل پراسیس ہے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ دن منانے سے صدیوں پرانی Social Conditioning Social تبدیل ہو سکتی ہے؟
جواب: نہیں ، دیکھیں ، یہ علامتی ہوتا ہے۔ جب 1977 میں یوا ین نے یہ طے کیا کہ 8 مارچ کو عالمی سطح پر خواتین کا دن منایا جائے گا۔ پاکستان میں تو 12 فروری کو منایا جاتا ہے عورتوں کا دن۔ اس میں بھی، میں شامل تھی۔ بارہ فروری کا جلوس تھا۔مارشل لا ء کے خلاف ، لاٹھیاں کھائیں۔ آنسو گیس پی، نگلنے کی کوشش کی۔ اس دن ، پاکستان کی عورتوں کا دن اس لیے منایا جاتا ہے، کہ شاید پہلی بار اتنا تشدد ہوا تھا خواتین کے ساتھ ۔ اور ہم اٹھ کھڑی ہوئی تھیں ،اور ایک موومنٹ چل پڑی تھی ڈیلیو اے ایف ( Forum Action Woman ) کی۔ لیکن جہاں تک سماج میں تبدیلی کی بات ہے۔ ایک دن میں تو کچھ نہیں ہونا۔ یہ ایک روزمرہ کی مشق ہے کہ آپ ہر وقت شعوری طور پر کوشش کریں کہ ایک لڑکی کو وہی حصہ ملے چاہے وہ تعلیم کا ہے، چاہے وہ کپڑوں کا ہے ، چاہے وہ مرغی کی ٹانگ کا ہو۔
سوال : شعور کی ایک سطح ہے، انفرادی اور ایک ہے معاشرتی ۔ ہمارے ہاں خواتین کے ساتھ جو صنفی امتیاز پر مبنی سلوک کیا جاتا ہے، وہ اس کو قسمت کا لکھا سمجھتی ہیں یا انہیں اس چیز کا شعور ہی نہیں ہے کہ میرے بھی کچھ حقو ق ہیں۔ تو فرد کے اندر یہ احسا س اجاگر ہو جائے اور اس کو یہ احساس دلا دیا جائے کہ آپ بہتر سلوک کی مستحق ہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟
جواب: دیکھیں ، اس میں بھی ریاست کا بھی ایک ہاتھ ہے۔ باقی اس میں جو ہمارے کنبے، گھرانے اور خاندان ہیں اس میں ایک چیز آپ سمجھ لیں ، ایک پٹی پڑھائی گئی ہے کہ تھپڑ مار دینا ڈسپلن کا ایک حصہ ہے جگہ دکھانے کا، کہ یہ تمہاری اوقات ہے، Women Against Violence یا عورتوں پر جو تشدد ہے اس کو گھریلو تناظر میں محدود کردیا گیا ہے۔ یعنی یہ ایک گھریلو معاملہ ہے، آپ ایف آئی آر کٹوانے جائیں گے تو پولیس والا کہے گا کہ آپ گھر جائیں اور اپنا معاملہ خود ہی حل کریں۔ حقیقت میں یہ معاملہ گھریلو تناظر میں رہ ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ بطور شہری آپ کے حقوق ہیں، آپ کا قانون آپ کو تحفظ فراہم کرتا ہے آپ کی زندگی اور آپ کو جسمانی نقصان پہنچانے کے خلاف۔ لہذا یہ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے۔
اگر میں تجزیہ کروں ت تو خواتین کے خلاف ان کرائمز کی نوعیت اور شدید ہو گئی ہے۔ ٹھیک ہے، پہلے تو آپ سر ہی کاٹ دیتے تھے، اب اس کو جلانا بھی ہے، اب اس کو اس کے زندگی کے آخری وقت تک اذیت سے گزارنا ہے۔ دیکھیں یہ صرف عورت کا مسئلہ نہیں ہے، مرد کا بھی مسئلہ ہے، اس عورت کا بھی مسئلہ ہے جو دوسری عورت پر تشدد کر رہی ہے، تشدد ایک بیماری ہے جو قابل قبول نہیں۔ پہلے تو تحفظ کے لیے مقامی سطح پر جو ہمارے ہاں یونین کونسلز ہیں وہاں ایک کونسلر کا دستیاب ہونا ضروری ہے۔ ایک ہیلپ لائن کی دستیابی ضروری ہے جو ایسی خاتون، بچی یا بچے کی شکایت درج کرے۔اور پولیس کے پاس رپورٹ کا درج کروانا بہت ضروری ہے۔ یہ جو پنچایت یا جرگے ہیں ،یہ سارے مردوں پر مشتمل ہیں۔ میں نے فاٹا میں کام کیا ہے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب فاٹا کو کے پی کے میں ضم نہیں کیا گیا تھا۔ تب ہم نے کوشش کی تھی اور ہم کامیاب رہے تھے۔ آپ سمجھ لیں کہ اتنی بڑی کامیابی پنجاب میں کیوں نہیں لائی جاسکتی۔ وہاں (فاٹا) کے جرگے میں عورت کی صرف نمائندگی کی جاتی تھی۔عورت کو بٹھایا نہیں جاتا تھا، اب جہاں ہم نے کام کیا ہے، وہاں عورت کی اپنی رضا مندی یا انکار ،اس کے اپنے منہ سے سنا جاتا ہے۔
ہمارے مذہب نے یہ اجازت بھی دی ہے کہ اگر (بیوی) کو اپنے شوہر کی شکل پسند نہیں ہے یا کوئی اور چیز اس کو پسند نہیں ہے تو وہ علیحدہ ہو سکتی ہے۔ ریاستی سطح پر جو ہمارا سلیبس ہے، وہاں کیا ہو رہا ہے۔ آپ اردو کا قاعدہ اٹھا لیں، ا س میں امی جان سر پر دوپٹہ لے کر ابھی تک روٹیاں بیل رہی ہیں۔ ابوجان سوٹ پہن کر ، ٹائی لگا کر ،بریف کیس پکڑ کر دفتر جارہے ہیں۔ حالانکہ ابھرتی ہو ئی مڈل کلاس میں خواتین نوکری پیشہ ہو گئیں۔ان گھروں میں اکثر کمائی لڑکی کر رہی ہے۔
لڑکا کرائے کی موٹر سائیکل لے کر دوسری لڑکیوں کو تنگ کرنے نکلا ہوا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ آپ دیکھیں لوئر مڈل کلاس محنت کر کے اپنے آپ کو اوپر کی سطح پر لے کر آئی ہے، وہاں ا کثر لڑکے، مرد نشے کا شکار ہیں۔ اور لڑکیاں اپنے پورے خاندان کو سنبھال رہی ہوتی ہیں لیکن ان کی Acknowledgement کہیں بھی نہیں ہے۔ ریڈیو ایک ایساادارہ ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر یا ساحل سمندر کے کنارے بھی آپ سن سکتے ہیں۔ اس کو استعمال کریں۔ خدارا، اس وقت جو ٹیلی ویڑن پر ہو رہا ہے ، یہ سراسر اس معاشرے کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ کیونکہ ہم عام لوگوں کی کہانیاں نہیں سن رہے۔ ہم نے اپنے کان اور آنکھیں وہاں نہیں لگائیں جہاں ہماری اکثریت رہ رہی ہے۔ کیا دکھا رہے ہیں ، بڑ ے بڑے بنگلے دکھا رہے ہیں۔ ہم بڑی بڑی گاڑیا ں دکھاتے ہیں ، اور جو ہماری فیشن ایبل ادا کارائیں ہیں ان کا جدید ترین میک اپ اور ہئیر سٹائل ہوتا ہے۔ آپ اس عورت کی کہانی بتائیں جو بھٹہ مزدور ہے، اس کی جدوجہد دکھائیں، تا کہ لوگوں میں یہ شعور بیدار ہو۔
سوال: آپ میڈیا سے بھی منسلک رہی ہیں اور ڈیویلپمینٹ سے بھی آپ کا تعلق ہے ، آپ کے خیال میں کیا میڈیا کو ہیومن ڈیویلپمینٹ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟
جواب: بالکل بھی نہیں، یہ میرا اصل Passion ہے میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانا،۔ مجھے ابھی بھی 65 سال کی عمر میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیوں نہیں کر رہی ، چینلز سے آفر زبھی آتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں دو، تین آفرز آئی ہیں۔ دو کو میں نے انکار کردیا، ایک کو بڑی خوشی سے ہاں کی۔ اور پتہ نہیں کتنے طویل عرصے بعد میں ٹی وی پر واپس آ رہی ہوں۔ اور وہ ایک میں نے اس لیے ہاں کی ، وہ چھوٹا سا رول ہے۔ ایک عورت کا، وہ ایک بچے کو پالتی ہے جو اس کا بھانجا ہوتا ہے۔جو ٹیکسی ڈرائیور بن جاتا ہے اور وہ عام لوگوں کا ہیرو ہوتا ہے اور یہ ایک عام بستی میں رہتے ہیں۔ اس عورت نے اس لڑکے کو اتنا پختہ بنایا ہوتا ہے۔
اس کی جو بھی اقدار ہیں، جس چیز کے لیے وہ کوشش کرنا چاہتا ہے، انصاف کے لیے ، سچ کے لیے ،وہ (اقدار) اس عورت کے ذریعے اس میں آئی ہیں۔ اب وہ ہیرو بنا ہے۔ اس کردار کو کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ شاید دیکھنے والوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ عام لوگوں میں جو ہیروازم ہیاور بہادری ہے اس کی قدر کی جائے۔ زیادہ تر جودولت اس ملک میں ہے ، وہ ناجائز ہے۔ میرا چونکہ اکنامکس کا پس منظر ہے ، تو آپ اس کو دیکھ لیں کہ یہ دولت کہاں سے آئی ہے۔ تو جتنی دولت اکٹھی ہوئی ہے، ہم ناجائز دولت کی کہانیاں لوگوں کو بتا رہے ہیں۔ حالانکہ کہ اُن لوگوں کو نمایاں کرنا ضروری ہے جو جائز ہیں، جو اصل لوگ ہیں۔ جو مستند ہیں۔ جو اس دھرتی کے بیٹے بیٹیاں ہیں۔
سوال: آپ جہاں بھی ہوتی ہیں ، وہاں اپنی موجودگی سے مثبت اثر ڈالتی ہیں۔ آپ نے جامعہ بلوچستان میں فائن آرٹ کا شعبہ قائم کیا، بلوچستان میں تھیٹر کا آغاز کیا، آپ بڑے ڈیمز کی تعمیر کے معاملے میں حکومتی مشیر ہیں۔ آپ اپنی رائے کے اظہار میں کبھی متامل نہیں ہوئیں۔ یہ قدرتی صلاحیت ہے یا آپ نے اس کو سیکھا ہے؟۔
جواب: یہ سب کچھ ہے، یہ بیوقوفی بھی ہے، حماقت بھی ہے، جس معاشرے میں منافقت کوٹ کوٹ کر بھری ہو، وہاں سچائی کو اچھی نظرسے نہیں دیکھا جاتا۔ سچائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ سچائی تلخ ہوتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایک ایسی با ت ہے جو منہ پر لانا اتنا آسان نہیں ہے۔ جس گھر میں ، میں پیدا ہوئی۔ظاہر ہے میرے والدین کا بہت بڑا اثر ہے۔ جو خون میری رگوں میں بہہ رہا ہے، وہ سید زادوں کا ہے۔ حقیقی معنوں میں جو سید زادہ ہے یا سید زادی ہے ،اس کا کام ہی یہی ہے کہ وہ سچ بولے۔وہ اور کچھ بھی نہ کرے۔ وہ سچ بولے اور معاشرے کے سامنے آئینہ لے کر کھڑا ہو جائے۔ کیونکہ آپ کو سچ میں جو طاقت ملتی ہے۔
مرنا ہم سب نے ہے، اگر نصیب میں ہوا تو قبرمیں دفن ہو جائیں گے۔ بہت سے نہیں بھی ہوتے۔ ، ہمارے سامنے مثالیں ہیں۔ جو وقت آپ کے بنانے والے نے دیا ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک، یہ مختصر بھی ہو سکتا ہے ، طویل بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت میں ، آپ نے اپنے ایمان کو کس طرح سے واضح کیا۔ آپ نے اپنے ارد گرد کے لوگوں میں تھوڑی بہت بہتری لانے کی کوشش کی، نہیں کی۔ آپ نے اپنے اصولوں پر چلنے کی کوشش کی کہ نہیں، وہ چیزیں سب سے اہم ہیں۔ ابھی بھی میری ہم عمر جو ہیں ،وہ بیوٹی پارلر میں پائی جاتی ہیں، میں انہیں کہتی ہوں کہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ سارا اندر کا معاملہ ہے۔ آپ جو ہیں وہ اندر سے ہیں،جو چہرے پر آتا ہے وہ سب اندر سے آتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے چہرے روحانی ہوتے ہیں۔ دِکھ رہا ہوتا ہے، اور کچھ لوگ پگ باندھ کر، سرمہ ڈال کر ، عطرلگا کر بھی روحانی نہیں لگ رہے ہوتے۔
سوال: یہ تو عرفانِ نفس کی بات ہو گئی۔ وہ جیسے کہتے ہیں کہ ’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘ ، جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا ، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ یہ شعور یا عرفان آپ کو کیسے نصیب ہو ا؟
جواب: دیکھیں، میں یہ نہیں کہتی، کہ مجھ میں یہ سب صلاحیتیں ہیں۔ لیکن اگر آپ مجھے سوچنے پر مجبور کریں تو میں اتنا کہہ سکتی ہوں کہ میں تنہائی پسند ہوں۔ مجھے لوگ بھی بہت پسند ہیں۔ میں لوگوں کے ساتھ بیٹھتی بھی ہوں، میں ہر کسی کیساتھ مذاق بھی کرتی ہوں، میرا تو بچپن سے یہ SOP تھا کہ جتنے دکاندار تھے ،وہ میرے دوست تھے اور میں بہت چھوٹی سی ہوا کرتی تھی۔ اس حد تک جہاں سے ہم سبزی لیا کرتے تھے۔ لاہور کینٹ میں پیدا ہوئی ، جم سیٹھ جی کی ایک دکان ہوا کرتی تھی۔ پارسی فیملی تھی۔ بہت سال ہو گئے۔اب تو وہ سارے لوگ چلے بھی گئے ہیں۔وہاں سبزی والا تھا اور اس کا گھوڑا تھا۔
وہ گھوڑے پر سبزی لاتا تھا۔ گھوڑے تک کے لیے ہمیشہ میرے ہاتھ میں گڑ، گاجر یا کوئی سیب ہوتا تھا۔ تو میں اسی سبزی والے کے پاس اسی لیے جاتی تھی کہ ایک تو وہ گھوڑا اور دوسرا اب تو ہر چیز پلاسٹک کی اور مصنوعی ہو گئی ، پرانے زمانے میں ٹوکریا ں ہوتی تھیں اور اس میں سبزی رکھتے تھے۔ دکانوں میں تہہ در تہہ چیزیں رکھی ہوتی تھیں۔ ایک بلی تھی جو اپنے بلونگڑے وہیں جا کر پیدا کرتی تھی، وہ اس لیے پیدا کرتی تھی کہ سبزی والا اس کے ساتھ نیکی کرتا تھا کیونکہ ساتھ ہی ایک دودھ والی دکان تھی اور دودھ والا اس بلی کے لیے دودھ وہاں رکھتا تھا۔ میرے بچپن میں دیواریں نہیں ہوتی تھیں حالانکہ جس گھر میں ، میں پیدا ہوئی تھی وہ پینتیس کنال کاگھر تھا۔ اس کی دیواریں نہیں تھیں، واڑیں(Hedges) ہوتی تھیں۔تو ادھر ہی میری ایک چھوٹی سے دنیا تھی۔
وہ گھوڑا، ایک واڑ میں ایک کتی جس نے سات بچے دیے ہوئے تھے، اور اس سبزی والے کی ٹوکری کے پیچھے ایک بلی ،جس کے اپنے بلونگڑے تھے۔ تو یہ میری دنیا تھی۔ میرے والد کو بہت شوق تھا۔ 300 پرندے تھے ہرطرح کے ، گھوڑے بھی تھے۔ بھینسوں کو چارہ دینا، ان کو گتاوہ دینا، میں ابھی بھی آپ کو بتا سکتی ہوں کہ توْڑی کتنی ڈالنی ہے، بنولہ کتنا ڈالنا ہے، جو حاملہ بھینس ہے، اس کی پنجیری کیسے بنتی ہے، یہاں تک کہ بھینسیں جب بچہ جنتی تھیں تو ان کا ڈلیوری پراسیس میری نگرانی میں ہوا ہے۔ جب آپ دنیا کا وہ حصہ دیکھتے ہیں ، جس کو ہم نظرانداز کرتے ہیں یعنی جانور، تو آپ کو پتہ لگتا ہے کہ آپ بہت بڑی کائنات کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ میرا جو تیسرا ناول ہے، اس میں ہر چیپٹر سے پہلے ایک چھوٹا چیپٹر آتا ہے، جو جانوروں کی آواز میں ہے ،جو اپنی کہانی بتا رہے ہوتے ہیں، مختلف جانور ،وہ شمالی علاقہ جات کی کہانی ہے، وہاں کے جوآئبیکس ہے ، مارخور ہے، جو برفیلا شیر ہے ، وہ اپنی آپ بیتی سنا رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ اگلا چیپڑ جو انسانوں کی کہانی ہوتی ہے ، اس کی پیشن گوئی کرتا ہے۔ وہ جو کہانی ہے نا، تو وہ اس کو Foresee کرتا ہے، میرا جو مطالعہ ہے انسانوں کے بارے میں وہ جانوروں کے ذریعے ہے۔ وہ اعتماد تب کریں گے جب آپ ان سے نیکی سے پیش آئیں گے۔میری سوچ تنہائی میں ابھی بھی بن رہی ہے۔میں بہت سال اکیلی رہی ، اس تنہائی سے جب میری دوستی ہو گئی، تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہم خود، خود ساختہ ولنز ہیں ، اور خود ساختہ ہیروز ہیں۔ ہم خود اپنے آپ کو بہتر بھی کر سکتے ہیں اور برا بھی کر سکتے ہیں۔ یہ ہمارے اندر طاقت ہے، اس چیز کو کسی طریقے سے ہم ہربندے تک پہنچانا ہے۔
یہ جو ہم اللہ کی مرضی کہتے ہیں، وہ ایک بڑے پیمانے پر ہے۔ لیکن میں جس طریقے سے آپ سے یا کسی دوسرے سے پیش آؤں گی ، وہ میری مرضی ہے۔ ا س مرضی کو ہم نے اس طریقے سے کرافٹ کرنا ہے، آپ کے ساتھ پیش آنا ایسا ہونا چاہیے کہ آپ ہمیشہ مجھ سے ملنا چاہیں اور میں بھی آپ سے ملنا چاہوں۔ ایک دوسرے کی انسانیت کو آپ پہچانیں گے تو ایسا ہو گا۔ ہم ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھتے نہیں ہیں۔ خاص طور سے ان گھروں میں جہاں ہم نے ملازم رکھے ہوں۔ آپ کو پتہ ہے ہم ان کوکبھی اس طرح سے دیکھتے ہی نہیں ہیں کہ ان کی بھی ایک زندگی ہے۔ میرے گھر میں ہم (ملازمین سمیت )اکٹھے روٹی(کھانا) کھاتے ہیں اور اکثر جو آلو ، انڈہ ، سبزی وغیرہ بنا ہوتا ہے ، وہ ہم سب مل کر کھاتے ہیں۔
سوال: آپ نے اپنے ناولز کا ذکر کیا، آپ نے تین ناولز لکھے ہیں۔
The scent of Wet Earth, An Abundance of Wild Roses, No Space for Further Burials
آپ ایک بھرپور زندگی گزار رہی ہیں، آپ کی میڈیا کی ذمہ داریاں ہیں، آپ کی گھر کی ذمے داریاں ہیں، پھر آپ کے جانور اور پرندے ہیں، ان کی دیکھ بھال ہے، تو یہ لکھنے پڑھنے کا کام ہے ، یہ بڑا سنجیدہ نوعیت کا ہے ، اس کے لیے آپ وقت کیسے نکال پاتی ہیں؟
جواب: تنہائی سے دوستی۔۔۔۔۔، تنہائی سے دوستی بڑی ضروری ہے، اگر آپ نے کوئی بھی مثبت کام کرنا ہے۔ سوچ اور غور و فکر والا۔کتابیں، مجھے لگتا ہے کہ جیسے آپ کسی کے لیے وسیلہ بنتے ہیں نا، کسی کے لیے بہتری لانے کے لیے، اسی طرح میں شاید اس کہانی کا وسیلہ بنتی ہوں، مجھے نہیں پتہ وہ کیسے لکھی جاتی ہے، میری جو دوسری کہانی تھی ، وہ افغانستان کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ حالانکہ اس ملک کا ذکر نہیں ہوتا۔ جب امریکی فوجیں وہاں آئیں، اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تین ہفتوں میں لکھی گئی تھی، وہ ایک پاگل پن کی کیفیت تھی۔ میں امریکہ میں رہ رہی تھی اس وقت، اور مجھے بالکل پسند نہیں تھا وہاں رہنا، مجھے لگ رہا تھا کہ میری روح کا سانس بند ہو ر ہا ہے، کیونکہ وہ ایک کنزیومر سوسائٹی ہے، ایک ignorant سوسائٹی ہے، انہیں باہر کی دنیا کا کوئی ہوش نہیں ہے، اور مجھے اپنی دنیا جوتھی وہ یاد آتی تھی۔ان تین ہفتوں میں ، میں نے وہ دنیا بسا لی جو میرے اندر تھی، اور یہ کہانی خود بخود ہی لکھی گئی، مجھے نہیں پتہ میرے پاس یہ کہانی کہاں سے آئی۔ لیکن وہ آئی، وہ خود ہی بتاتی تھی اور میں لکھتی جاتی تھی۔تیسرا ناول Roses Wild of abundance An ہے۔ بلتی زبان میں لفظ ہے اس کو " سیاچن" کہتے ہیں، سیاچن کو ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا کا سب سے بلند جنگی محاذ ہے، جس پر ہماریفورسز کے جوان اور بھارت کے جوان سے نہیں بلکہ وہاںکی کنڈیشنز کی وجہ سے مر رہے ہیں۔
کیونکہ وہاں کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا،۔ خدارا! ہم وہاں کیوں ہیں۔ یہ جیو پالیٹیکس ہے، مجھے جنگ سے سخت تکلیف ہے، 65 کی جنگ میں جو میں نے پہلی لاشیں دیکھیں، تب میں پانچ سال کی تھی۔ میرے والد زمینداری کرتے تھے بارڈر پر اور ہمارے اکثر مزارعوں کو مار دیا گیا تھا اور کنووں میں ان کی لاشیں پھینکی گئی تھیں۔ وہ پھولی ہوئی لاشیں میں نے دیکھی تھیں۔ یہ چیزیں آ پ کے ذہن میں سما جاتی ہیں۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ کہانیوں کے ذریعے ان حالات کو سامنے لایا جائے۔ تیسرا جو ناول ہے، وہ باقاعدہ مجھے بلاوہ آیا تھا ، چیف منسٹر گللگت بلتستان سے دوہزار چودہ میں ، کہ ہمارے ہاں ایک سنگین معاملہ ہے، س کا ہم حل ڈھونڈنا چارہے ہیں۔ لیکن پہلے اس کو سمجھنا ضروری ہے کہ وہ ہو کیوں رہا ہے، وہ کیا تھا خواتین کی خود کشیاں سب سے زیادہ اس علاقے میں ہوتی ہیں،گلگت بلتستان، چترال، شمالی علاقہ جات، ان کو Region Mountain کہتے ہیں۔
اس کی تحقیق کے لیے میں گئی اور میں وہاں گاؤں میں رہی، اور لوگوں کے ساتھ رہی اور وہ بھی رمضان کے دن تھے۔ میرے کمرے کے باہر بھوکے کتے آتے تھے، وہاں اتنی شدید غربت تھی کہ وہ جو جوتی میں باہر اتارتی تھی اندر جانے کے لیے وہ کتے اس کو چبا رہے ہوتے تھے کیونکہ ان کو کچھ ملا نہیں ہوتا تھا۔ ان حالات میں مجھے یہ خیال آیا کہ ان لوگوں کی اور ان جانوروں کی کہانی مجھے بیان کرنی ہے، وہ لفظ کہاں سے آتے ہیں، مجھے نہیں پتہ، یہ کہیں سے آ جاتے ہیں اور مجھے کہا جاتا ہے کہ اس کو لکھو۔ میری اپنی کوئی اس میں سکل نہیں ہے
سوال: آپ یو این کی خیر سگالی سفیر بھی رہی ہیں۔ ہمارے ہاں تو جس کے ساتھ یو این کا ٹیگ لگ جاتا ہے، وہ تو پھولے نہیں سماتا، آپ نے اس کو چھوڑ دیا۔ یہ بتائیں کہ یہ سیلیکشن کیسے ہوئی اور آپ نے اس کو چھوڑا کیوں؟
جواب: جی ، میں سمجھتی ہوں بہت اہم سوال ہے۔ واقعی لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ یو این میں گھس گئے تو ا ن کو ایک تمغہ مل جاتا ہے۔ حقیقت بہت مختلف ہے۔ میں اکیس یا بائیس سال کی تھی جب میں میکگل یونیورسٹی میں تھی۔ اور میرا ا یک تھیسس تھا ، ایک تو فلسطین پر تھا ، ویسٹ بینک کی پولیٹیکل اکانومی پر تھا اور اس کا میں نے تقابل کیا تھا ساؤتھ افریقہ سے، کیونکہ ساؤتھ افریقہ میں بھی Apartheid تھا اور فلسطین میں ویسٹ بینک میں تھا۔ فلسطینیوں کو کہیں نقل و حرکت کے لیے ایک پاس بک رکھنا پڑتی تھی۔ تو اس وقت جب میں نے اپنی انویسٹی گیشن کی تو مجھے پتہ چلا ساؤتھ افریقہ ( میری والدہ کا تعلق ساؤتھ افریقہ سے تھا، ان کی پیدائش وہاں کی تھی) وہاں یو این نے سرمایہ کاری کی ہوئی تھی ان کی سونے کی کانوں میں۔ گولڈ مائینز میں سیاہ فام افریقنز کا استحصال ہوتا تھا جن کا وہ ملک تھا۔
اس زمانے میں 18 ملین سیاہ فام باشندے تھے اور 3 ملین سفید فام۔اور کون کس پر حکمرانی کر رہا تھا وہ ہمیں پتہ ہی ہے۔ جب مجھے پتہ چلا کہ یو این کی پینشنز (Pensions) افریقہ کی گولڈ مائینز میں سرمایہ کاری سے دی جاتی ہیں۔ تو مجھے جو نیویارک سے پیشکش آئی تھی یو این میں انٹرن شپ کی ، اس وقت میں اکیس برس کی تھی۔وہ پیشکش اس لیے آئی تھی کہ میرا جو فلسطین کے حوالے سے پیپر تھا ،اس حوالے سے میری یونیورسٹی میں کوئی تھا ہی نہیں جس کے پاس یہ expertise ہو، تو میرا وہ تھیسس یو این بھیجا گیا تھا۔ جہاں ڈاکٹر زْہدی تھے ، فلسطینی تھے جنہوں نے اس کو پڑھا۔ اس کے بعد انہوں نے آفر کہ آپ یو این میں انٹرن شپ کریں۔ تو میں نے انہیں یہ جواب دیا۔ اس وقت تو ای میل بھی نہیں ہوتی تھی۔ میں 1982 کی بات کررہی ہوں۔ میں نے کہا کہ
I am sorry, i cannot join an organization which has invested in gold mines of the most racist country in the world.
ان کی بیگم ایک معروف گائنا کالوجسٹ تھیں۔ بہت امیر گھرانے کے تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹی سامعہ سرور کو مروا دیا تھا۔ گن مین گئے تھے حنا جیلانی کے دفتر میں، حنا جیلانی بچ گئی تھیں عین وقت پر وہ جھک گئی تھیں الارم بیل بجانے کے لیے۔ اس شخص کو یواین ڈیویلپمینٹ پروگرام نے Consultation Gender کے لیے اس شخص یعنی غلام محمد سرور کو بلایا تھا۔ اس وقت میں نے خط لکھا تھا اس وقت کے یو این سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو۔ میں نے لکھا کہ یہ کیاحماقت ہے۔اور میں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو پہلے ایک عورت اورپھر ایک پاکستانی سمجھتی ہوں، یو این کا سفیر ہونا میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ انہی دنوں کولن پاول نے یو این میں ایک بڑی پریزنٹینشن دی کہ ہم Destruction Mass of Weapon کے پیچھے جار ہے ہیں۔ جو بالکل برآمد نہیں ہوئیا۔ لیکن لاکھوں لوگ مروائے گئے۔ امریکی اور نیٹو فورسز کے ہاتھوں،انہوں نے افغانستان پر بھی حملہ کردیا۔ تب میں نے سوچا کہ اگر میں افغانستان کے حالات پر کتاب لکھ رہی ہوں تو میں ،یو این کا حصہ نہیں رہ سکتی۔ میں پابند ہو جاؤں گی، میں پابند نہیں ہو سکتی، سچ پابند نہیں ہو سکتا، تو میں نے خدا حافظ کہہ دیا۔
سوال: آپ نے خود بتا یا کہ آپ کی عمر اس وقت 66 سال ہے لیکن آپ کے اندر ابھی تک کام کرنیکاجذبہ برقرار ہے۔ تو کام کرنیکے لیے یہ انرجی کہاں سے آتی ہے۔
جواب: پتہ نہیں کیوں، مجھے کبھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ جو عمر ہے کیوں انسان کو تبدیل کر دیتی ہے۔ ہا ں! اب میر ے گھٹنوں میں وہ طاقت نہیں رہی۔ اب میں جب دوڑ لگانے کی کوشش کرتی ہوں تو اس طرح سے دوڑ نہیں لگا پاتی۔ایک زمانے میں ، میں Sprinter تھی۔ میں اور میرے بھائی ابھی بھی ہم ٹریک اینڈ فیلڈ میں امریکن سکول کے ریکارڈ ہولڈرز ہیں۔ لیکن اب ظاہر ہے کہ میں اس طریقے سے تو نہیں دوڑ سکتی۔ لیکن یہ تو ایک جسمانی سرگر می ہے۔ لیکن آپ کی سوچ کیوں بدلے۔ مطلب میرے اندر کا بچہ بہت زندہ ہے۔ اور آئس کریم کا پورا لٹر مجھے دے دیں ، میں ابھی بھی پورا کھا جاؤں گی۔ جس خاتون نے ہمیں پالا، وہ گاؤں کی ایک سکھ خاتون تھیں، ہماری امی کی ساتھی تھیں۔ 65 کی جنگ میں وہ اُجڑکر آئی تھیں، تیج کور نام تھا ان کا۔ ہم انہیں ماسی تیجو کہتے تھے۔ وہ پنجابی میں ایک بات کہا کتی تھیں جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ’بس بندے کو چلتے پھرتے چلے جانا چاہیے‘۔ تو چلتے پھرتے اپنی سو چ بھی برقرار رکھیں، اپنے گوڈے گٹے بھی برقرار رکھیں۔ اور چلتے جائیں۔
سوال: آپ کا انٹرنیشنل تجربہ ہے، یورپین اور امریکی معاشرے میں آپ رہی ہیں اوران کو قریب سے دیکھا ہے۔ ہمارے ملک میں بوجوہ ہر شخص ایک خوف کا شکار ہے۔ ہم اپنے معاشرے کو پرامن کیسے بنا سکتے ہیں؟
جواب: مشکل سوال ہے۔ یہ کوئی فارمولا نہیں ہے کہ اس کو کیسے پرامن بنایا جائے۔ سب سے پہلے تو تشدد کی جڑ دیکھنا ہوتی ہے۔ تجزیہ تبھی کامیاب رہتا ہے جب آپ اپنی ریسرچ کرتے ہیں کہ یہ آیا کہاں سے ہے تو یہ بہت پرانی کہانی ہے۔ ا س خطے میں رہنے والے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں،لیکن اس سے پہلے ہندوستان میں جولوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے ، پہلے تو وہ ذات پات کے نظام کا حصہ تھے۔ ذات پات کا نظام ہی ایک تشدد ہے۔ سنسکرت میں کاسٹ کا جو لفظ ہے ، "ورنہ" اس کا مطلب ہے " رنگ" ۔ یعنی رنگت کی بنیاد پر آپ کا نظام تشکیل پایا۔ اور کہا گیا کہ " منو" کا جو سر ہے ، وہ برہمن ہے، " منو" جو ہے وہ God of Origin ہے۔پھراس کے بازو جو ہیں وہ شاید جنگجو ہیں۔ پاؤں جو ہیں وہ شودر ہیں۔
یعنی وہاں کی جو ہزاروں سال پرانی آبادیاں ہیں یعنی دراوڑ ، ان کو شودر بنا دیا گیا۔ جو بنانے والے تھے وہ صاف رنگت والے لوگ تھے جو نہ جانے کہاں سے آ ئے۔ ہندوستان جو اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے، یہ تو مضحکہ خیز بات ہے کہ ابھی بھی وہاں ذات پات کے نظام کے تحت آپ کا داخلہ ہوتا ہے ، یا نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے آپ کو اپنے دل کی میل کو صاف کرنا ہے، کیونکہ میں بھی ، آپ بھی، سب کسی نہ کسی پر تشدد کرتے ہیں، چاہے وہ انسان ہو یا جانور ، ہم انفراد ی حیثیت میں ایک معاشرے کا حصہ ہیں۔ معاشرہ ہم سے ہی بنتا ہے، معاشرہ کیسے بہتر ہو گاجب ہم اپنے آپ کو بہتر نہیں کر رہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ساو تھ افریقہ اپنے ا پ کو میں خواتین ا پ نے اپنے یو این میں ہوتی تھیں کیوں نہیں ہمارے ہاں خواتین کا خواتین کے نے اپنے ا کہاں سے ا یو این کی کی کہانی ابھی بھی رہے ہوتے کرتی تھی کہتے ہیں لوگوں کے حوالے سے ہوتی تھی ہوتے ہیں ہوتی ہیں سکتے ہیں ضروری ہے نے اس کو کے لیے ا بہتر ہو نہیں کی گئی تھی تھا اور نے اپنی وہاں کی نہیں ہو ئی تھیں رہی ہیں پہلے تو پیدا ہو کا نظام شروع ہو گھر میں ہی نہیں ہوتا ہے کی کوشش کو بہتر تھے اور کے ساتھ عورت کا رہے ہیں ہوتی ہے اور میں سے پہلے نہیں ہے جاتا ہے کے حقوق کوشش کی میں ایک ہیں اور میں بھی ہے کہ ا ا تا ہے بھی ا پ میں یہ میں وہ وہاں ا لیکن ا بھی ہے کہ میں بھی ہو کام کر ئی ہیں ہیں کہ کیا جا ہو گئی کی طرف ہے ہیں وہ ایک تو میں سال کی ہیں وہ ئی تھی رہی ہو یہ ایک کی تھی گیا ہے پہلے ا کی ایک تی تھی کی بات ہوں کہ تی ہیں اس لیے ہے اور رہا ہے تھی کہ اور اس کو بہت ں ہوتی رہی ہے جو ہیں ہاں کی
پڑھیں:
’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
’’ فرصت ہی نہیں ملتی‘‘ آج کل جیسے دیکھو ، یہی رونا ہے۔ فرصت ہی نہیں، دو گھڑی آرام کی بھی۔ عدیمی الفرصتی کا ایسا بہانہ، کہ نہ ملنے کا شکوہ کیا، تو سننے کو ملا ’’کہ یہاں تو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں اور آپ ملنے کی بات کرتے ہیں۔‘‘ ہمیں تو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے گویا یہ سب کا تکیہ کلام ہی بن گیا ہے کہ ہر زبان پر ایک ہی جملہ سننے کو مل رہا ہے کہ ’’ہمیں فرصت ہی نہیں ملتی۔‘‘
ارے بھئی یہ فرصت کس چڑیا کا نام ہے جو آپ کے ہاتھ نہیں آرہی۔کبھی تو یہ ہر گھرمیں بڑے آرام سے اڑتی، چہچہاتی نظر آتی تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا¡ سادگی نے دامن چھوڑا، تکلفات نے جگہ لی، بناوٹ و تصنع نے گھر کیا۔ اسٹیٹس کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں دن کا چین گیا، راتوں کی نیندیں حرام ہوئیں۔ ایک ہی دھن سوار ہے کہ فلاں کے پاس وہ سب کچھ، میرے پاس نہیں۔ بس اسی غم میں دن رات کُڑھتے ہوئے ایسے گَھن چکر بنے کہ کولہو کے بیل بنے ہوئے نہ ہی بچوں کے لیے وقت، نہ ہی اپنے سے ملاقات کا سمے۔ وہ ملاقات جو ہماری ذات کا سُکھ چین کا باعث تھی۔
آسائشوں کی لمبی دوڑ اور کچھ پانے نہیں، بلکہ سب کچھ پانے کی ہوِس نے ہم سے زندگی کا حُسن ہی چھین لیا۔ خود اپنی ہی ذات سے بے گانہ کر کے وہ خوشیاں ہی چھین لی ہیں، جو زندگی کا محور و مرکز تھیں۔ لمبی عمروں کا باعث تھیں۔ نہ وہ بے ساختہ قہقہے و محفلیں رہیں۔ نہ بیتی باتوں کی وہ پھلجڑیاں، جو وقت بے وقت گزرے زمانوں کو یاد کر کے، کہ کیسے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے کتنے بیتے زمانے تصور ہی تصور میں ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ نہ ہی وہ فرصت کے لمحات رہے جب ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹتے ہوئے خود کو فکروں سے آزاد کرلیتے تھے۔ ذہنی پریشانیوں کے جال میں الجھنے کے بہ جائے۔ انھیں مل کر سلجھاتے ہوئے اون کے ان پریشانیوں کے بکھیڑوں کو آسانی سے لپیٹ لیتے تھے۔ مل بیٹھنا ہی اس کا سب سے بڑا حل تھا۔ اپنوں کی سنگت میں، سادگی سے گزرے لمحے کیا کچھ یاد دلاتے ہیں۔ کہاں تو یہ عالم کوئی آگیا سو بسمہ اﷲ دلوں کی طرح دسترخواں بھی کھلا، جو بھی گھر میں بنا، چاہے دال روٹی یا چٹنی روٹی آنے والا اس میں خوشی خوشی شریک ہوگیا۔ اﷲ اﷲ خیر صلا۔ نہ کوئی شکایت، نہ بناوٹ، نہ آنے والا پریشان کہ معاف کیجیے بنا بتائے، یا بے وقت آگیا اور نہ میزبان کے ماتھے پر کوئی شکن، نہ بھاگم بھاگ پیزا، چکن بروسٹ لانے کا جھنجھٹ۔ کیسی سادگی تھی، نہ آنے والا نہ کھلانے والا تذبذب کا شکار کہ تھوڑے سے وقت میں مہمان کی خاطر داری کیسے کریں۔ مزے سے گپ شپ لگائی، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ہوئے۔ ایک دوسرے کو پیار اور خلوص بانٹتے ہوئے ایسے رخصت ہوئے کہ وہی لمحے یاد گار بن کر زندگی کو بڑھا دیتے اور اب حال یہ ہے کوئی بے وقت آگیا تو فوری بچھا ہوا دسترخوان لپیٹ ، میاں کو بازار کی دوڑ لگوائی، چکن رول سے لے کر آئس کریم تک کہ سب کچھ لے کر آئیے۔ انھوں نے ہمارے جانے پر کیسے میز بھری تھی۔ کوئی کمی نہ رہ جائے، ناک ہی نہ کٹ جائے، اور بیگم گپ شپ کے بہ جائے۔ آپ ذرا بیٹھیے، میں ابھی آئی کہتے ہوئے یوں باورچی خانے بھاگیں کہ رہے سہے لوازمات، وہ کباب، سموسے بھی لگے ہاتھوں تل لیں کہ دسترخوان خالی نہ رہ جائے اور یوں جو دو گھڑی ملنے کے میسر بھی آئے وہ بھی ہم نے تکلفات کی بھاگ دوڑ میں اور مہمان داری میں گنوادیے۔ اوپر سے یہ شکایت، اف ڈھنگ سے بات بھی نہ ہو سکی۔ بتاکر آتے تو کم از کم آرام سے سب بندوبست ہو جاتا۔
گزرے زمانوں و فی زمانہ یہی تو فرق ہے، جو ہمیں مار گیا ہے۔ یہ نام نہاد کے ڈھکوسلے اور خواہ مخواہ کے دکھاوے نے ہماری زندگی ہی اجیرن کر دی ہے۔ قصور سارا اپنا کہ بے جا لوازمات میں خود کو ایسا الجھایا ہے کہ ان سے نکل ہی نہیں پاتے اور الزام دیتے ہیں کہ ہمیں فرصت نہیں ملتی، ایک اسٹیٹس اور اپنی ناک اونچا کرنے کی فکر نے ہماری ذہنی آسودگی کو عرش سے فرش پر لاپٹخا ہے۔ اب تو ملنے پر بھی، ’’بتاؤ ماشاء اﷲ بچے اچھی ملازمت پر لگ گئے۔ تم لوگوں کی محنت نے بچوں کو کیا سے کیا بنا دیا۔‘‘ پہلے اب یہ باتیں کہاں سننے کو ملتی ہیں اور اب بچوں کو کچھ بنانے کے بہ جائے ان کے لیے کچھ بنانے کے خیال نے بات چیت کا انداز ہی بدل دیا ہے۔ ’’ارے تم نے بیٹے کے لیے کون سی گاڑی خرید لی۔ میں نے تو اپنے بیٹے کے لیے نئی ماڈل کی گاڑی خریدی ہے اور موبائل بھی وہ والاجو آج کل مارکیٹ میں نیا آیا ہے۔ اس کے دوست کے پاس وہی تھا۔ سو اس کی فرمائش تو پوری کرنی تھی اور پھر چل سو چل، قصہ گاڑی، موبائل سے ہوتا ہوا ختم ہوتا ہے کہ تم نے ڈیفنس میں کوئی پلاٹ وغیرہ لیا اور سننے والا صدمے میں ایسے جاتا ہے کہ میاں کے کان کھاتا ہے کہ دیکھ لیں ان کے پاس ہر چیز نئی سے نئی اور ایک ہم ہیں بیوی کا رونا دیکھ کرمیاں قرضوں کا بوجھ اٹھائے راہ عدم سدھار جاتے ہیں۔
آج کل کے زمانے کی سو فی صد ہو بہو تصویر ہے۔ خواہشوں کے اِزدحام نے انسان کو ایسے نگلا ہے کہ یہ بھی حاصل کرنا، وہ بھی حاصل کرنا، کوٹھی، بنگلا آگیا، تو مہنگے سے مہنگا فرنیچر و پردے بھی درکار، رکھ رکھاؤ کے لیے لباس بھی قیمتی، ہاتھوں میں نئی گھڑی اور موبائل اور اس بھیڑ چال میں کچھ وقت اپنے لیے نکالنے کا سوچتے بھی ہیں، تو پھر خیال آتا ہے۔ بہتر ہے وہ کام بھی کر ہی لوں، اچھا موقع ہے، منافع ہی منافع ہے اور اس منافع کو حاصل کرنے کے لیے ہم جو اپنی لاکھوں سی قیمتی جان کا منافع داؤ پر لگارہے ہیں، جو صرف اور صرف فراغت و فرصت کے لمحات میں پوشیدہ و انھی کی مرہون منت ہے۔ یعنی اپنی صحت، قیمتی ان مول دولت کو یوں ضائع کرتے ہوئے، ہمیں تھوڑا سا بھی دکھ و ملال نہیں ہوتا۔ وہ دولت جو کسی قیمت پر ہمیں دوبارہ نہیں مل سکتی۔ ذرا غور سے اپنے آپ کو کبھی آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنا جائزہ لیجیے۔
لاکھوں سی جان کو ہم نے مصروفیت کے تانوں بانوں میں الجھاکر ایسا توڑا مروڑا ہے کہ ہماری اصلی صورت ہی بگڑ کر رہ گئی ہے۔ یہ وقت سے پہلے آتا ہوا بڑھاپا، یہ بالوں میں سفیدی، ماتھے پر شکنیں، نظر میں دھندلاہٹ، ٹانگوں میں درد، سب شکستہ عمارت کی وہ نشانیاں، جو حاصل کو چھوڑ کر لاحاصل کے پیچھے ہم نے پائی ہیں۔ سب کچھ حاصل کرنے کی تمنا میں آج عمر کی اس منزل پر آئینہ کیسے آپ کے حالت زار کی چغلی کھا رہا ہے۔ جن چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے تم نے زندگی بتادی۔ خوار ہوتے رہے ، ریشم و اطلس کے خواب دیکھتے رہے۔آج تمہاری دسترس سے دور تمہارے لیے بے معنی ہوگئی ہیں کیونکہ تم میں اب نہ وہ جان ہے نہ وہ ہمت ہے کہ ان سے لطف اندوز ہو سکو ۔
آنکھوں میں وہ دم نہیں، ٹانگوں میں بھاگنے کی جان نہیں، دوائیوں اور گولیوں سے فرار ناممکن، وہ ہی اب آپ کی ہم دَم و ساتھی۔ اگر نہ ملیں تو کیسے کیسے مرض حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ دواؤں کا ایسا عادی بنایا، جس کے بغیر جینا محال ہوگیا۔ سوچو تو بہت کچھ، نہ سمجھو تو کچھ بھی نہیں۔ اب بھی وقت ہے ، زندگی کی گاڑی کی رفتار کچھ کم کر کے اپنی عمر کو صحت مند بنائیں۔ فرصت نہ ملنے کا رونا روکر اسے داؤ پر مت لگائیں، سُکھ، چین، شانتی، سکون سے بیٹھ کر ہر مسئلے کا حل نکالیں۔ ہر چیز کو ذہن پر سوار مت کریں کہ یہ نہ ہوا تو وہ ہو جائے گا، ایسے نہ ہوا تو یہ ہو جائے گا۔ کچھ نہیں ہوگا۔ آپ صحت مند ہوں گے تو سب کچھ ہوجائے گا۔ ہر کام پایۂ تکمیل تک پہنچ ہی جاتا ہے۔
عمر کی وہ نقدی، یوں بے دریغ انتھک لٹاتے خرچ کرتے ہوئے ہم اس احساس سے ہی عاری ہوگئے کہ جانے زندگی کے کتنے پل باقی ہیں، جو باقی رہ گئے ہیں۔ کاش ہم کبھی فرصت کے چند لمحوں میں کبھی اپنے لیے بھی تو جیتے۔‘‘ اپنی زندگی تو جیتے، اپنے آپ کو آئینے کے سامنے سنوارتے ہوئے کبھی اپنے اندر تو جھانکتے کہ ہمیں کیا چاہیے۔ وہ قیمتی لمحات زندگی کے جو بیت گئے واپس نہیں آئیں گے۔ آسائش آپ خرید سکتے ہیں، لیکن زندگی نہیں خرید سکتے۔ زندگی کے آخری اوور کو پورا کرنے کے لیے زندگی کی خالی کشکول میں کوئی چند سکے بھی زندگی کے، آپ کو ادھار نہیں دے سکتا۔
اس لیے فرصت کا رونا روکر اپنی زندگی کو گہن مت لگائیے، جو آپ کے پاس ہے اسے غنمت جانیے کہ اﷲ کا دیا سب کچھ ہے۔ اسی میں آپ کے آج کا سکھ و چین ہے اور کل کی طویل العمری کی نوید ہے۔ اپنے آج کو کل کے لیے قربان مت کریں جیب میں جتنی بھی فرصت کے پل ملیں، انھیں استعمال کیجیے کیوں کہ کل یہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کھوٹے سکے بن کر آپ کے کسی کام نہ آئیں گے۔ کسی سے ملنا ہے، کسی کا حال پوچھنا ہے، کسی کی تیمار داری کرنی ہے تو اپنی مصروفیت کا دامن جھٹک کر ’’وقت‘‘ نکالیے۔ زندگی اتنی ارزاں شے نہیں کہ اسے یوں توڑ مروڑ دیا جائے۔ قدرت کے اس ان مول عطیے سے فیض اٹھاتے ہوئے، پل پل زندگی اپنے لیے جیتے ہوئے، یہ مت کہیے کہ فرصت نہیں ملتی بلکہ یوں کہیے کہ وقت نکالنا پڑتا ہے تو پھرآج ہی سے اپنے لیے وقت نکالیے۔ یہ نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور آپ کے بنگلے، کوٹھیاں، گاڑیں گویا کہ آہیں بھرتے ہی رہ جائیں کہ ہمیں حاصل کرنے کے لیے ہمارے کارن تم نے اپنی زندگی کے بے بہا فرصت کے لمحات گنوادیے۔ آج ہم تو وہیں کھڑے ہیں، لیکن تم نے اس اپنی تمام عمر کی تگ و دو میں کیا حاصل کیا ’’صرف دو گز زمین کا ٹکڑا‘‘ اب تو سمجھ جائیں، زندگی آپ سے کیا مانگتی ہے۔ چلتی کا نام گاڑی ہے۔ رک جائے، کھڑی ہو جائے تو بے کار، دوسروں کے لیے بوجھ ،جینا مشکل و دوبھر ، اس لیے اسے چلتا رکھنے کے لیے فراغت و فرصت کا تیل ضرور دیجیے ورنہ زنگ آلود گاڑی تو دھکا دینے سے بھی نہیں چلتی اور دنیا کیا اپنے بچوں پر بھی بوجھ بنی نظر آتی ہے۔