ملکی قرضوں میں کمی لانے کیلئے وزیرخزانہ کا اہم فیصلہ، عمر ایم خان کو وزارت خزانہ میں مشیر برائے ڈیبٹ مینجمنٹ تعینات
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
ملکی قرضوں میں کمی لانے کیلئے وزیرخزانہ کا اہم فیصلہ، عمر ایم خان کو وزارت خزانہ میں مشیر برائے ڈیبٹ مینجمنٹ تعینات WhatsAppFacebookTwitter 0 18 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ملک کے ذمہ واجب الادا قرضوں میں کمی لانے کے حوالے سے اہم فیصلہ کرتے ہوئے عمر ایم خان کو وزارت خزانہ میں مشیر برائے ڈیبٹ مینجمنٹ تعینات کردیا۔وزارت خزانہ نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ان کی تقرری 9 اپریل سے کی گئی ہے جو کہ فوری طور پر نافذ العمل ہے۔
وفاقی وزارت خزانہ کے مطابق عمر ایم خان بینکاری کے شعبے میں 25 سال سے زائد عرصے کا وسیع تجربہ رکھنے والے سینئر ماہر ہیں، جنہوں نے نجی شعبے کے قرضوں، اسٹریٹجک اور معاشی تجزیے کے ساتھ ساتھ آپریشنل کارکردگی میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اس ضمن میں بتایا گیا کہ تیزی سے ترقی کے حصول اور پائیدار اقتصادی بہتری کے لیے ان کی خدمات نہایت اہم رہی ہیں، وہ اسٹریٹجک اور معاشی جائزے، منصوبہ بندی، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعلقات، حکومتی رابطوں اور ریگولیٹری امور میں گہری مہارت رکھتے ہیں۔ وزارت خزانہ نے بتایا کہ اس کے علاوہ عالمی منڈیوں، اسٹریٹجک مینجمنٹ اور بارڈر پار قرضہ جات کے حوالے سے بھی ان کی معلومات قابلِ قدر ہیں جبکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: عمر ایم خان
پڑھیں:
مہنگائی پر قابو پا چکے ہیں، ملکی معیشت درست سمت میں ہے، وزیر خزانہ
اسلام آباد:وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب قومی اقتصادی سروے برائے 25-2024 پیش کر رہے ہیں۔
قومی اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ عالمی سطح پر مجموعی پیداوار کی شرح کم ہوئی ہے اور گلوبل جی ڈی پی کا نمو 2.8 فی صد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ پاکستان کی معاشی ترقی کا نشان ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشی بحالی کو عالمی منظر نامے کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ دو سال قبل (2023ء میں) ہماری مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) گروتھ منفی تھی اور مہنگائی کی شرح 29 فی صد سے بلند ہو چکی تھی، جس کے بعد حکومت نے بڑے فیصلے کیے، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت اب بتدریج بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ افراط زر میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے اور مہنگائی کی شرح کم ہوکر اب 4.6 فی صد پر آ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم معیشت کا ڈی این اے بدلنا چاہ رہے ہیں، جس کے لیے کچھ اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں۔ ٹیکس اصلاحات سب کے سامنے ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے معاشی اصلاحات کا پروگرام شروع کیا ہے، میں ان کی تعریف کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ انرجی اصلاحات کو اویس لغاری اور علی پرویز ملک تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ڈیسکوز کے بورڈ نجی شعبے سے لائے ہیں، اس سے کارکردگی بہتر ہو رہی ہے۔ 1.27ٹریلن روپے کے گردشی قرضے کے حل کے لیے بینکوں سے معاہدہ بھی ہوا ہے۔ نگران حکومت میں ہونے والے اچھے اقدامات کو سراہتا ہوں۔
حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر 11 فیصد پر آگیا ہے۔ 24 ایس او ایزکو پرائیویٹائزیشن کے حوالے کیا ہے۔ پچھلے سال پالیسی ریٹ نیچے آنے سے ڈیبٹ سروسنگ کی مد میں کافی بچت ہوئی۔ پنشن ریفارمز کے تحت ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم کی طرف جاچکے ہیں ۔ لیکیج کا روکنا بہت ضروری ہے، اس سلسلے میں رائٹ سائزنگ کی جارہی ہیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 43 وزارتیں اور 400 اٹیچ ڈیپارٹمنٹس کی رائٹ سائرنگ کی جارہی ہے۔ بجٹ میں بتاؤں گا کہ اسے آگے کیسے لے کر جائیں گے۔ اسے مرحلہ وار آگے لے کر جارہے ہیں۔ ہم وزارتوں اور محکموں کو ضم کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مشینری اور ٹرانسپورٹ کی گروتھ بڑھی ہے، ترسیلات زر میں اصافہ ہوا ہے
37 سے38 ارب ڈالر اس سال ترسیلات زر رہنے کا امکان ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ گلوبل جی ڈی پی گروتھ مسلسل گروٹ کا شکار رہی ہے، ہماری جی ڈی پی دو ہزار تیس میں منفی میں تھی، رواں سال جی ڈی پی کی گروتھ 2.7 فیصد ہے، عالمی مہنگائی میں اضافے کے باوجود ہماری مہنگائی میں کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہماری ملک میں مہنگائی 4.6 فیصد تک گرچکی ہے، رواں سال تک شرح سود میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے نگران سے پہلے ایس بی اے کے ذریعے اچھے فیصلے کیے۔
انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے معاشی میدان میں اچھے اقدامات لیے گئے، جولائی سے مئی کے دوران چھبیس فیصد ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے، چوہتر فیصد ریٹیلرز رجسٹریشن مزید ہوئی ہے، ہم اب قرضے مزید نہیں لینے چاہتے اگر لیں گے تو اپنی شرائط پر لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں میں جتنا بھی بچے گا اس کو دیگر سیکٹر میں لے جائیں گے، صنعتوں کی گروتھ میں چھ فیصد تک اضافہ ہوا ہے، خدمات کے شعبے میں دو فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا، رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تین فیصد تک اضافہ ہوا ہے، زرعی شعبے محض 0.6 فیصد تک بڑا ہے۔