ملکی قرضوں میں کمی لانے کیلئے وزیرخزانہ کا اہم فیصلہ، عمر ایم خان کو وزارت خزانہ میں مشیر برائے ڈیبٹ مینجمنٹ تعینات WhatsAppFacebookTwitter 0 18 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ملک کے ذمہ واجب الادا قرضوں میں کمی لانے کے حوالے سے اہم فیصلہ کرتے ہوئے عمر ایم خان کو وزارت خزانہ میں مشیر برائے ڈیبٹ مینجمنٹ تعینات کردیا۔وزارت خزانہ نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ان کی تقرری 9 اپریل سے کی گئی ہے جو کہ فوری طور پر نافذ العمل ہے۔
وفاقی وزارت خزانہ کے مطابق عمر ایم خان بینکاری کے شعبے میں 25 سال سے زائد عرصے کا وسیع تجربہ رکھنے والے سینئر ماہر ہیں، جنہوں نے نجی شعبے کے قرضوں، اسٹریٹجک اور معاشی تجزیے کے ساتھ ساتھ آپریشنل کارکردگی میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اس ضمن میں بتایا گیا کہ تیزی سے ترقی کے حصول اور پائیدار اقتصادی بہتری کے لیے ان کی خدمات نہایت اہم رہی ہیں، وہ اسٹریٹجک اور معاشی جائزے، منصوبہ بندی، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعلقات، حکومتی رابطوں اور ریگولیٹری امور میں گہری مہارت رکھتے ہیں۔ وزارت خزانہ نے بتایا کہ اس کے علاوہ عالمی منڈیوں، اسٹریٹجک مینجمنٹ اور بارڈر پار قرضہ جات کے حوالے سے بھی ان کی معلومات قابلِ قدر ہیں جبکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: عمر ایم خان

پڑھیں:

اغوا برائے تاوان

کراچی میں عشروں سے جاری اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں، چوری و اسٹریٹ کرائم، ہر قسم کے جرائم کی سرپرستی کے لیے پولیس بدنام تھی ہی جن میں کہا جاتا تھا کہ باوردی اہلکاروں کے علاوہ ایسے جرائم پیشہ بھی شامل ہوگئے تھے جو پولیس کی جعلی وردی استعمال کرتے تھے۔ کراچی پولیس بے نظیر بھٹو دور میں ماورائے عدالت قتل میں بھی بہت مشہور ہوئی تھی جب 1991 میں کراچی آپریشن کے نام پر سیاسی بنیاد پر پولیس مقابلے ہوئے۔

الزام لگایا جاتا ہے کہ ان پولیس مقابلوں میں حقیقی مجرم برائے نام اور بے گناہ افراد زیادہ تھے ،بعدازاں آپریشن میں شریک اکثر پولیس افسروں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ کراچی کے سیاسی دہشت گردوں اور مختلف کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے بڑے دہشت گرد گرفتار بھی ہوئے تھے جن کے ساتھیوں نے اپنی دہشت گردی سے ایس ایس پی چوہدری اسلم سمیت متعدد پولیس افسروں کو شہید کیا تھا۔ چوہدری اسلم دہشت گردوں کی سرکوبی اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پولیس مقابلوں میں ملک بھر میں مشہور ہوئے تھے۔

کراچی کی پولیس مکمل سیاسی تو عشروں پہلے ہی ہو گئی تھی جس کے افسران مخصوص سیاسی پارٹیوں سے تعلق میں مشہور تھے۔ کراچی پولیس میں اندرون سندھ سے سیاسی بنیاد پر بڑے پیمانے پر بھرتیاں ہوئی تھیں۔

کراچی کے رہنے والوں کا پولیس میں داخلہ سیاسی بنیاد پر ناممکن تھا البتہ سندھ کے ایک سابق وزیر داخلہ نے اندرون سندھ کے لوگوں کو بڑی تعداد میں کراچی کے ڈومیسائل پر بھرتی کرایا تھا اور اب سندھ اسمبلی کے پی اے سی اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ دیگر صوبوں کے ڈومیسائل پر 19 اہلکاروں کی بھرتی کا انکشاف ہوا تھا مگر انھیں برطرف کرنے کی بجائے صرف شوکاز نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ جعلی ڈومیسائل پر دوسرے صوبوں کے بھرتی صرف 19 اہلکاروں کے خلاف اب مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے وہ بھرتیاں1979 سے 2015 کے دوران ہوئی تھیں جو سندھ پولیس کے مختلف دفاتر سے 170405 ملین روپے تنخواہ مسلسل وصول کر رہے ہیںاور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

سندھ پولیس میں عشروں سے مختلف ریکارڈ قائم ہوئے ہیں جہاں 1977 میں ایک مڈل پاس افسر ڈی آئی جی لاڑکانہ بھی رہا ہے۔ کراچی پولیس میں بڑی تعداد اندرون سندھ کے لوگوں کی اور کراچی و حیدرآباد جیسے شہری علاقوں کی تعداد برائے نام ہے جس پر ایم کیو ایم سالوں سے شور بھی مچا رہی ہے مگر انھوں نے بھی اپنے دور میں اپنے کارکنوں کو بھرتی کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی اور پیپلز پارٹی کے بقول ایم کیو ایم نے اپنے دہشت گرد پولیس میں بھر دیے تھے۔

آج سے تیس سال قبل ضلع جنوبی کے ایک تھانے پر میرے آبائی شہر شکارپور کے دوست ایس ایچ او تعینات ہوئے تھے جنھوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے بعض ایس ایچ اوز اتنے بااثر ہیں کہ وہ ایس پیز کے تبادلے اپنی مرضی سے کراتے ہیں۔

سندھ میں 2008کے بعد سے سندھ میں حکومت پیپلز پارٹی کی ہے جسے سترہواں سال شروع ہو گیا ہے جس کے دور میں ملیر پولیس کا ایک ایسا کانسٹیبل بھی سامنے آیا ہے جس نے ملیر پولیس کے تین سپاہیوں اور علاقے کے جرائم پیشہ عناصر پر مشتمل گروپ بنا رکھا ہے جو سنگین جرائم کے ساتھ شارٹ کڈنیپنگ کی وارداتیں کراتا آ رہا تھا جو علاقے کے تھانوں کے ایس ایچ اوز اپنی مرضی سے تعینات کراتا تھا جس کے خلاف اندرون سندھ میں بھی مختلف مقدمات درج ہیں مگر کارروائی سے محفوظ رہتا ہے۔

حال ہی میں اس انتہائی بااثر سپاہی کے سیاسی اثر و رسوخ کی یہ حالت ہے کہ اس نے 28 مارچ کو کراچی کے ٹرانسپورٹر سمیت دو تاجروں کو اغوا کیا تھا اور ان سے رہائی کے لیے بڑے افسروں کے نام پر تین کروڑ تاوان مانگا تھا جو انھوں نے دینے سے انکار کیا تو انھیں گھنٹوں گاڑی میں گھمایا اور تشدد کا نشانہ ان کی اپنی مہنگی گاڑی میں بنایا گیا اورگاڑی میں لگے ٹریکر کی تلاش میں گاڑی کی سیٹیں ادھیڑ دی گئیں اور ساڑھے پانچ لاکھ روپے انھیں ضرور مل گئے۔

بااثر ٹرانسپورٹر کے عزیزوں کی پہنچ اور آئی جی پولیس اور اعلیٰ پولیس افسروں کی مداخلت پر رات گئے رہائی ملی تھی جس کے بعد ڈیڑھ ماہ کی سخت کوشش کے بعد ملزم کے خلاف ملیر میں اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کے الزامات میں مقدمہ تو درج ہوا۔ تین پولیس اہلکار معطل بھی ہوئے مقدمہ اے وی وی سی گارڈن منتقل ہونے کے بعد جے آئی ٹی بھی تین پولیس افسروں پر مشتمل بنی مگر ملزمان گرفتار نہیں کیے گئے اور انھوں نے دہشت گردی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری بھی حاصل کرلی، بااثر پولیس اہلکار نے پہلے ضمانت کرائی جو بعد میں کنفرم بھی ہوگئی۔

 درجنوں بے گناہ لوگ مارنے والے پولیس افسران کا سالوں میں کچھ ہوا نہ اب کچھ ہو گا۔ مدعی صلح پر مجبور کرا دیا جائے گا اور بااثر ملزم بھی بچ ہی جائے گا۔ عام لوگوں کے ساتھ سندھ میں جو ہو رہا ہے وہ تو وہی جانتا ہے جب کہ اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ بھی پولیس گردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ سندھ پولیس میں اتنا مال، طاقت اور پولیس اثر و رسوخ ہے جب ہی تو ملک بھر سے جعلی ڈومیسائلوں پر کراچی پولیس میں بھرتی ہوا جاتا ہے اور 54 سال بعد حقائق منظر عام پر آتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اغوا برائے تاوان
  • بمبار بمقابلہ فائٹر جیٹ؛ اسٹریٹجک اور ٹیکٹیکل بمبار میں کیا فرق ہے؟
  • روز ویلٹ ہوٹل نجکاری، شہریت یافتہ کمپنی کا مشیر کی ذمہ داری سے دستبرداری کا فیصلہ
  • وزیرِ اعظم نے سول سروسز اسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے کمیٹی قائم کردی
  • صیہونی پارلیمنٹ میں مغربی کنارے کو ضم کرنے کیلئے ووٹنگ کا عمل باطل ہے، انقرہ
  • غریب بجلی صارفین کو سبسڈی کی مد میں نقد رقم دینے کا فیصلہ
  • پبلک اکاؤنٹس کمیٹی: چینی کی درآمد کیلئے ٹیکسز کو 18 فیصد سے کم کرکے 0.2 فیصد کرنے کا انکشاف
  • مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کی سربراہی میں 12 رکنی وفد چین روانہ
  • پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا 200 یونٹ کے بعد سلیب بڑھنے پر اہم فیصلہ 
  • سوات، مدرسے کے اساتذہ کا کم عمر طالب علم پر5 گھنٹے تک شدید تشدد، طالب علم جاں بحق