پکڑی گئی منشیات اور شراب کی بھاری تلف کر دی گئی
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
اینٹی نارکوٹکس فورس سندھ کے زیر اہتمام ضبط شدہ منشیات کو تلف کرنے کی سالانہ تقریب کا انعقاد کیا گیا، تقریب کے مہمان خصوصی سندھ کے صوبائی وزیر برائے ایکسائز ،ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کنٹرول، جناب مکیش کمار چاؤلہ تھے۔
ریجنل ڈائریکٹوریٹ کمانڈر اینٹی نار کو ٹکس فورس سندھ بریگیڈیئر عمر فاروق نے ابتدائی کلمات میں حاضرین کو خوش آمدید کہا اور اینٹی نار کوٹکس فورس کی کوششوں اور کار کردگی پر روشنی ڈالی۔
یہ بھی پڑھیں:منشیات کی اسمگلنگ روکنے کے لیے مربوط حکمت عملی اپنانا ہوگی، محسن نقوی
اس سال اے این ایف سندھ کی کاوشوں سے 4.
ہر سال منشیات تلف کرنے کی اس تقریب کا مقصد عوام کے ساتھ مل کر منشیات کے استعمال اور پھیلاؤ سے بچنے کا اعادہ کرنا ہے۔ سول سوسائٹی کے اراکین حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر منشیا ت کے خلاف اس جہاد میں حصہ لیں تو جلد اس خطرے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی سندھ کے صوبائی وزیر برائے ایکسائز ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کنٹرول جناب مکیش کمار چاؤلہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اے این ایف سندھ کی کارکردگی کو خصوصاََ اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی کو عموماً سراہا۔
اپنے خطاب میں تمام صوبائی اور وفاقی اداروں کو ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر منشیات کے خلاف مشترکہ جنگ لڑنے پر زور دیا۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت منشیات فروشی کا گڑھ بن گیا، کروڑوں زندگیاں داؤ پر، امریکی انٹیلیجنس رپورٹ
انہوں نے کہا کہ جلائے جانے والی منشیات اندرونِ ملک استعمال ہونا تھی یاپھر بیرون ملک اسمگل کی جانی تھی جس کو اینٹی نارکوٹکس فورس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر پکڑا ہے۔
تقریب کے آخر میں منشیات کے خلاف جنگ میں اے این ایف کے شانہ بہ شانہ کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تعریفی اسناد بھی تقسیم کی گئیں۔
ڈائریکٹر جنرل اینٹی نارکوٹکس فورس میجر جنرل عبدالمعید، ہلال امتیاز ملٹری نے بھی اس تقریب میں خصوصی طور پر شرکت کی۔
تقریب میں سینیئر سول و ملٹری افسران، اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے افسران، کاروباری شخصیات، میڈیا کے نمائندوں، سماجی و شوبز شخصیات، یونیورسٹیز، کالجز کے سربراہان، سپورٹس شخصیات، طلباء وطالبات اور این جی اوز کے نمائندوں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے این ایف شراب مشیات منشیات نذر آتشذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے این ایف مشیات منشیات نذر ا تش اے این ایف
پڑھیں:
بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟
بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس ختم کردی گئی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیرِ صدارت جمعرات کے روز سینٹرل پولیس آفس کوئٹہ میں اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبے میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے اور پولیس نظام کو مزید فعال اور انسدادِ دہشتگردی کے لیے مؤثر بنانے کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، آئی جی پولیس محمد طاہر خان، سیکریٹری خزانہ عمران زرکون، پرنسپل سیکریٹری بابر خان اور اعلیٰ پولیس حکام شریک تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بولان میں لیویز کا آپریشن، فائرنگ کے تبادلے میں اہلکار شہید، ڈاکو زخمی
آئی جی پولیس نے اجلاس کو بلوچستان پولیس کو درپیش چیلنجز، امن و امان کی صورتحال، جرائم کے رجحانات اور آپریشنل ضروریات پر بریفنگ دی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لیویز فورس کے پولیس میں انضمام کے عمل کو منظم اور تیز کیا جائے گا، جبکہ پولیس اور سی ٹی ڈی کے درمیان رابطہ اور انٹیلی جنس بنیاد پر کارروائیوں کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی کرائم برانچ اور لیگل برانچ کے کردار کو بھی مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تحقیقات اور عدالتی کارروائیوں میں بہتری لائی جا سکے۔
وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ صوبے کے تمام ’بی ایریا‘ کو مرحلہ وار ’اے ایریا‘ میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جس کے بعد پولیس کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں 10 ارب روپے کی مالی معاونت کی منظوری دی ہے جو پولیس کی استعداد کار، تربیت، ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس نیٹ ورک اور خصوصی فورسز کی مضبوطی پر خرچ کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا لیویز فورس میں انسداد دہشتگردی ونگ بننے جارہا ہے؟
وزیرِ اعلیٰ کے مطابق پولیس کی فضائی نگرانی، ڈرون سسٹمز اور نائٹ آپریشن صلاحیت بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ حکومتی سطح پر تعاون کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لیویز اہلکاروں کو پولیس میں منتقلی کے ساتھ گولڈن ہینڈ شیک اور نئی بھرتیوں کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق صوبے میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے تاکہ دہشتگردی کے خاتمے تک علاقائی امن بحال رہ سکے۔
بلوچستان کے سینئر صحافی و تجزیہ کار سید علی شاہ نے لیویز کے پولیس میں انضمام کو صوبے کے لیے ایک تاریخی اور حساس تبدیلی قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کے تناظر میں تفصیلی خدشات، سوالات اور راہِ حل پیش کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟
ان کے مطابق لیویز کے جوان ابتدائی طور پر بے یقینی کا شکار ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ ان کی سروس اسٹرکچر، تنخواہیں، پروموشن پالیسی، اور ریٹائرمنٹ فوائد کیا رہیں گے۔ یہ عدم وضوح فورس کی کارکردگی اور مورال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس غیر یقینی صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو فوراً مفصل پالیسی دستاویز جاری کرنی چاہیے جس میں سروس ریکارڈ، پروموشن پاتھ، اور پے اسکیل میں واضح فرق نہیں آنے دیا جائے۔
ایک بار جب لیویز اہلکار شہری انتظامی ڈھانچے میں آئیں گے تو قبائلی یا دیہی اندازِ پولیسنگ سے شہری پولیسنگ پر منتقل ہونا ہوگا۔ اس کے لیے جامع تربیتی پروگرام، ڈیجیٹل ایف آئی آر اور عدالتی تعامل کی ٹریننگ، اور جدید تفتیشی مہارتوں کی فراہمی ضروری ہے۔
سید علی شاہ زور دیتے ہیں کہ محض کاغذ پر انضمام کافی نہیں، عملی تربیت اور مسلسل ایکسپوزر دینا ہوگا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ لیویز کے پاس پہلے ایف آئی آر درج کرنے، ثبوت محفوظ کرنے اور عدالتی کارروائی کے طریقہ کار کی تربیت محدود تھی۔ پولیس میں شمولیت کے بعد کرائم برانچ اور لیگل برانچ کو فوراً فعال کر کے تفتیشی معیار بلند کرنا ہوگا تاکہ مقدمات عدالت میں مضبوط ہوں اور مجرمان کو سزا دلانے کا نظام فعّال ہو۔
یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کا منصوبہ ناکام، لیویز فورس نے اسلحہ و گولہ بارود کی کھیپ پکڑی لی
بلوچستان کی جغرافیائی اور سماجی ساخت خیبرپختونخوا یا دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ سید علی شاہ نے باور کرایا کہ آئی جی اور مرکزی قیادت کو مقامی مہارت، قبائلی رواج، زبان اور ثقافتی معاملات کو سمجھتے ہوئے اپنی حکمتِ عملیاں ترتیب دینی چاہئیں، بصورتِ دیگر آپریشنل ناکامی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔
لیویز فورس 2010 کے ایک قانون کے تحت کام کر رہی ہے۔ اسے پولیس میں ضم کرنے کے لیے صوبائی کابینہ کی منظوری اور اسمبلی سے قانون سازی ضروری ہوگی۔ اس عمل میں حکومت کو اپوزیشن اور بعض حکومتی اراکین کی مخالفت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ 2003 میں پرویز مشرف کے دور میں بھی لیویز فورس کو پولیس میں شامل کیا گیا تھا لیکن 2010 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اسے دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا۔
صوبے میں امن و امان کا نظام دو حصوں میں تقسیم ہے، ’اے ایریا‘ (شہری علاقوں) میں پولیس ذمہ دار جبکہ ’بی ایریا‘ (دیہی و قبائلی علاقوں) میں لیویز فورس تعینات تھی۔
لیویز فورس کے پاس صوبے کا تقریباً 82 فیصد علاقہ تھا، جبکہ پولیس صرف 18 فیصد حصے میں کام کر رہی تھی۔ لیویز کے اہلکاروں کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اصلاحات بلوچستان پولیس سی ٹی ڈی لیویز فورس وزیراعلی سرفراز بگٹی