ٹیرف جنگ کی بدولت امریکہ کے معاشی نقصانات کا آغاز ، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
ٹیرف جنگ کی بدولت امریکہ کے معاشی نقصانات کا آغاز ، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 25 April, 2025 سب نیوز
واشنگٹن :امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے جاری کردہ معاشی صورت حال کے”بیج پیپر ” سے پتہ چلتا ہے کہ معاشی غیر یقینی صورتحال میں اضافے کے ساتھ ، بہت سے امریکی علاقوں کی معیشت میں گراوٹ آئی ہے۔جمعہ کے روز چینی میڈ یا نے ایک رپورٹ میں کہا کہ اس سے ایک روز قبل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ جاری کی تھی جس میں 2025 میں امریکی اقتصادی نمو کی پیش گوئی میں زیادہ کمی کی گئی تھی، جو جنوری کی پیش گوئی سے 0.
امریکی تھنک ٹینک پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے ڈائریکٹر ایڈم پوسن کا خیال ہے کہ امریکی حکومت کی ٹیرف پالیسی کی وجہ سے امریکی معیشت میں کساد بازاری کا امکان 65 فیصد تک ہے۔حال ہی میں امریکہ کے کئی علاقوں میں لوگ حکومت کے محصولات اور دیگر پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہت سے امریکی انٹرنیٹ صارفین اپنے بل میں”ٹیرف سرچارج” پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں. امریکہ کے سابق وزیر خزانہ سمرز نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ میں عائد کیے جانے والے محصولات سے 20 لاکھ افراد اپنے روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں اور فی گھرانہ پانچ ہزار ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف مشی گن کی جانب سے جاری کردہ ایک سروے رپورٹ کے مطابق، اپریل تک امریکی کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس مسلسل چار ماہ تک گرتا رہا جو جون 2022 کے بعد سے کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔امریکی کمپنیوں کو بھی مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس میں بڑھتی ہوئی لاگت اور کم منافع جیسے عوامل شامل ہیں، اور یہ صورت حال چھوٹے کاروباری اداروں کے لئے زیادہ نقصان دہ ہے . امریکہ میں بہت سے چھوٹے کاروباری مالکان کا کہنا ہے کہ انہیں ملازمین کو فارغ کرنا پڑا ، اور وہ اس ٹیرف پالیسی کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کے بارے میں اور بھی زیادہ فکرمند ہیں ۔
سی این این نے حال ہی میں ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تجارتی جنگ نے سرمایہ کاروں کو امریکہ سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بینک آف امریکہ کے تازہ ترین گلوبل فنڈ منیجر سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 2001 میں اعداد و شمار شروع ہونے کے بعد سے امریکی شیئر مارکیٹ میں اپنے حصص کو کم کرنے میں دلچسپی رکھنے والے عالمی سرمایہ کاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔امریکہ کو اعداد و شمار کی ان سیریز سے اپنے بحران کا مطالعہ کرنا چاہئے ، سبق سیکھنا چاہئے ، اور اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ مساوی مذاکرات کے ذریعے تجارتی خدشات کو حل کرنا چاہئے۔ اندھا دھند دھمکیاں اور بلیک میلنگ امریکہ کو صرف نقصان ہی پہنچائے گی اور نام نہاد “امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں” کو ایک وہم بنا دے گی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبر”مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا،“ سینیٹ میں بھارت کیخلاف قرارداد منظور چین اور کینیا کے درمیان دوستی کی ایک طویل تاریخ ہے، اہلیہ چینی صدر چین کے ایسٹرن تھیٹر کمانڈ کی آبنائے تائیوان سے امریکی جنگی جہاز کے گزرنے پر مکمل نگرانی چین اور امریکہ کے درمیان فی الحال کوئی تجارتی مذاکرات نہیں ہو رہے ،چینی وزارت تجارت چین اور کینیا کو بیلٹ اینڈ روڈ تعاون میں رہنما کردار ادا کرنا چاہئے، چینی صدر چین کا مارکیٹ تک رسائی کے لیے منفی فہرست کے نئے ورژن کا اجراء پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بڑی مندی کے ساتھ کاروبار کا آغازCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: امریکہ کے
پڑھیں:
ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول
واشنگٹن+اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان بھارت کشیدگی کے دوران جنگ بندی کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کیا، اب انہیں چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کو جامع اور بامعنی مذاکرات کی میز پر بھی لانے میں فعال کردار ادا کریں۔ فرانسیسی خبررساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے بھارتی حکومت کی ہچکچاہٹ نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ خطے میں خطرناک مثال بھی قائم کر رہی ہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن کشمیر کو ایک بنیادی تنازع کے طور پر مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے واضح کیا کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی کے باعث خطہ نیو نارمل جیسی صورتحال سے دوچار ہو رہا ہے، جہاں کسی بھی دہشت گرد حملے کے نتیجے میں کوئی بھی ملک جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ 1.7ارب افراد کی تقدیرکو غیر ریاستی کرداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس غیر یقینی اور غیر متوازن فضا کو معمول کے طور پر قبول کرنا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ دورِ صدارت میں پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کو اس بہتری کو امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری جانب پاکستانی وفد نے امریکی وزارت خارجہ کی انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور، ایلیسن ہوکر سے ایک مفید اور تعمیری ملاقات کی۔ رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو کی قیادت میں وفد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کے قیام میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو کے کردار کو سراہا۔ پاکستانی وفد نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ پیشرفت جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مکالمے کی راہ ہموار کرے گی۔ وفد نے بھارت کی بلااشتعال جارحیت، مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور سندھ طاس معاہدے کی غیر قانونی معطلی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں بلاول بھٹو نے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا میرے بچے یا بھارتی نوجوان نسل پانی‘ کشمیر یا دہشتگردی پر لڑائی لڑیں۔ پاکستان کشمیر‘ دہشتگردی‘ آبی تنازعات کے حوالے سے بات چیت پر تیار ہے۔ صدر ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی۔ اب بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ پاکستانی سفارتی کمیٹی کے سربراہ اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ثبوت ہو یا نہ ہو اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں جس میں انہوں نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور پاکستان بھارت جنگ میں امریکی کردار کو سراہا۔ امریکی وفد میں کانگریس رکن جیک برگمین، ٹام سوزی، ریان زنکے، میکسن واٹرز، ایل گرین، جوناتھن جیکسن، ہینک جانسن، اسٹیسی پلاکٹ، ہنری کیوئلار اور دیگر اراکین شامل تھے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس وفد کو امن کا مشن دیا ہے، اس مشن میں بھارت سے بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا شامل ہے، جنگ بندی خوش آئند ضرور ہے، لیکن یہ محض ایک آغاز ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت اور پاکستان، جنوبی ایشیا اور بالواسطہ طور پر پوری دنیا آج اس بحران کے آغاز کے وقت کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل جنگ کی حد آج ہماری تاریخ میں کبھی بھی اتنی کم نہیں رہی۔ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، ثبوت ہو یا نہ ہو، اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ اراکین کانگریس سے ملاقات میں بلاول زرداری نے سندھ طاس معاہدے کی بھارتی کی جانب سے یکطرفہ معطلی کے ممکنہ نتائج سے امریکی قانون سازوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا 24 کروڑ پاکستانیوں کے لیے پانی بند کرنے کا عندیہ ایک وجودی خطرہ ہے۔ اگر بھارت نے یہ اقدام کیا تو یہ جنگ کے اعلان کے مترادف ہو گا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ امریکا ہمارے اس امن کے مشن میں ہمارا ساتھ دے اور اپنی قوت امن کے پیچھے لگا ئے تو وہ بھارت کو سمجھا سکتا ہے۔ مسائل کو حل کرنا ہے تو بھارت کو ایسی پالیسیوں سے روکا جا ئے جو خطے اور دنیا کے لیے عدم استحکام کا باعث بنیں۔ بعدازاں امریکی کانگریس ارکان نے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے پا کستانی وفد کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ علاوہ ازیں امن کے مشن نے امریکی کانگریسی استقبالیہ میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ اعلامیہ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اعلیٰ سطح وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستان ہاؤس میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کی میزبانی میں عشائیہ دیا۔ پارلیمانی وفد نے عشایئے میں دو جماعتی امریکی قانون سازوں کے گروپ سے ملاقات کی۔ تقریب میں جیگ برگمین ‘ ٹام سوزی‘ ریان زنکے‘ میکسن واٹرز‘ ایل گرین‘ جارج لیٹمیر‘ کلیوفیلڈز، مائیک ٹرنر‘ رائل مور‘ جوناتھن جیکسن‘ ہینک جانسن‘ انیسٹی پلاکٹ‘ ہنری کیوئلار نے شرکت کی۔ بلاول بھٹو نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ علاوہ ازیں پاکستانی سفارتی وفد کی پریس کانفرنس کے دوران سینیٹر شیری رحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک نیا سٹرٹیجک ’’نیو ایبنارمل‘‘ ترتیب دے رہا ہے۔ یہ نیو ایبنارمل معمول کی حکمت عملی سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت علاقائی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت امن کے بجائے کشیدگی سے نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔