پہلگام فالس فلیگ واقعہ،بھارتی ایف آئی آر نے مودی حکومت کے بڑے جھوٹ سے پردہ اٹھا دیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
پہلگام میں ہونے والے مبینہ فالس فلیگ حملے کی ابتدائی ایف آئی آر نے بھارتی حکومت کے بیانیے کو مشکوک بنا دیا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، پہلگام پولیس اسٹیشن جائے وقوعہ سے 6 کلومیٹر دور واقع ہے، مگر ایف آئی آر کے مطابق حملہ 13:50 سے 14:20 تک جاری رہا، جبکہ حیران کن طور پر صرف 10 منٹ بعد، 14:30 پر ایف آئی آر درج کر لی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اتنی جلدی ایف آئی آر درج ہونا پہلے سے تیار شدہ منصوبے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایف آئی آر میں نہ صرف “نامعلوم سرحد پار دہشت گردوں” کو فوری طور پر نامزد کر دیا گیا بلکہ “بیرونی آقاؤں کی ایماء پر” جیسے الفاظ بھی شامل کر لیے گئے، جس سے مودی سرکار کی جلد بازی اور ممکنہ فریب کاری کا پتہ چلتا ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ کی، مگر بھارتی حکومت اور میڈیا اسے مسلسل ٹارگیٹڈ کلنگ قرار دیتے رہے، جو بیانیے میں واضح تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر کے مندرجات سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ واقعہ محض ایک فالس فلیگ آپریشن تھا، جس کے ذریعے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ مودی حکومت کی یہ حکمتِ عملی اب عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بن رہی ہے، اور واقعے کا ڈرامائی انداز بے نقاب ہو چکا ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایف ا ئی ا ر
پڑھیں:
پہلگام حملہ: بھارت کے فالس فلیگ بیانیے کا پردہ چاک
پہلگام میں نہتے سیاحوں پر حالیہ حملہ جس میں 27 ہلاکتیں ہو چکی ہیں بھارت کی فالس فلیگ آپریشنز کی تاریخ میں ایک اور باب کا اضافہ ہے، جہاں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان پر الزام دھر دینا معمول بن چکا ہے۔ یہ عمل دراصل بھارت کی ہائبرڈ جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے .جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا، داخلی عوامی توجہ ہٹانا اور سیاسی مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے، بھارت کی تاریخ اس طرح کےجھوٹے پراپیگنڈے سے بھری پڑی ہے۔
2007 کا سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ، جس میں 68 افراد جاں بحق ہوئے اور بعد میں ہندو انتہا پسند، حتیٰ کہ بھارتی فوج کا میجر رمیش بھی اس میں ملوث پایا گیا، 2008 کے ممبئی حملے، جنہیں انسدادِ دہشتگردی قوانین کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا اور 2013 میں سی بی آئی کے سابق افسر کے انکشافات نے کئی پردے ہٹا دیے، اسی طرح 2018 میں انتخابات سے پہلے سیاحوں پر حملے، پلوامہ 2019 کا واقعہ، جہاں بغیر کسی تحقیق کے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا گیا اور بعد میں خود بھارت کے سابق گورنر نے حقائق سے پردہ اٹھایا. 2023 میں راجوری کا واقعہ، جو بی جے پی کے انتہا پسندانہ بیانیے کے عین مطابق سامنے آیااور اب 2025 کا پہلگام حملہ کسی ڈرامے سے کم نہیں۔یہ سب واقعات اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ بھارت کی ریاستی مشینری فالس فلیگ آپریشنز کے ذریعے ایک مربوط بیانیہ تشکیل دیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر جیسے مکمل سیکیورٹی لاک ڈاؤن والے علاقے میں. جہاں ہر ساتویں شہری پر ایک بھارتی سپاہی تعینات ہے، ایسے حملے کیسے ممکن ہیں؟ بھارت کا بیانیہ نہ صرف کمزور ہے بلکہ حقائق کے سامنے مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔
بھارت نے ہمیشہ ایسے جعلی حملے اہم غیر ملکی معززین کے دوروں کے دوران رچائے اور اس بار بھی امریکی نائب صدر کے دورہ بھارت کے موقع پر پاکستان کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ بھارت کی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ادارے اس طرح کی کارروائیوں میں مہارت رکھتے ہیں، جبکہ بھارتی میڈیا اس ریاستی بیانیے کو تقویت دینے والا اہم پروپگینڈا ہتھیار ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حالیہ حملے کا الزام پاکستان پر عائد بے بنیاد اور اپنی سکیورٹی کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے مترداف ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق حملے کی ذمہ داری ایک کشمیری مزاحمتی گروپ نے قبول کی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ واقعہ مقامی سطح پر پیش آیا۔ بھارت کو اس بات پر شرم آنی چاہیے کہ مقبوضہ وادی میں سات سے آٹھ لاکھ فوجی تعینات ہونے کے باوجود وہ نہتے سیاحوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان نے فتنہ الخوراج اور بی ایل اے جیسے دہشتگرد گروہوں کو منظم اور عسکری حکمت عملی سے زیر کرلیا ہے اور پاکستان کے افغانستان کے ساتھ بھی تعمیری تعلقات قائم ہو رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی جانب سے بھی معاملات ٹھیک روش پر چل رہے ہیں ملک میں بھی سیاسی استحکام آرہا ہے تو یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنے ناکام مگر طے شدہ عسکری آپشن آزمانے کی کوشش کررہا ہے .تاکہ پاکستان کو اپنے پراکسی گروہوں کے ذریعے غیر مستحکم کرے اور فوجی محاذ پر الجھائے مگر بھارت یہ بات بھول جاتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج شہادت کو عزیز رکھتی ہے اور ہندوتوا کے فاشزم کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دینا اس کیلئے باعث فخر ہے۔پہلگام واقعہ کے حوالے سے کچھ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جن سے یہ دعویٰ جھوٹ، بے بنیاد اور منفی پروپیگنڈا نظر آتا ہے، دیکھا جائے تو یہ واقعہ مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر ہوا ہے. اگر نقشہ کو دیکھا جائے تو حیران کن بات سامنے آئے گی کہ یہ علاقے پاکستانی سرحد سے کافی دور واقع ہے۔ یہ علاقے کسی طرح بھی پاکستان کا سرحدی شہر نہیں بنتا جہاں باآسانی سرحد پار کرکے یہ سب کچھ کر جائے۔ پہگام پاکستانی سرحد سے تقریباً 400 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے اور سری نگر کے مغرب میں تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ درمیان بھارت کی فوج بڑی تعداد میں موجود ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دہشتگرد باآسانی وہاں پہنچ کر یہ سب کچھ کر جائیں۔ اس لیے یہ واقعہ یقینی طور پر مقامی سطح پر ہوا ہے. چاہے وہ کشمیری عسکریت پسندوں کے ذریعے ہو یا بی جے پی کے حامیوں کی کسی کارروائی کا نتیجہ ہو۔