چراٹ میں ایس ایس جی کمانڈوز کی پروقار پاسنگ آؤٹ پریڈ
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
ایس او ایس، چراٹ میں اسپیشل سروس گروپ (ایس ایس جی) کے آفیسرز ایڈوانس کمانڈو کورس 83 اور سولجر کمانڈو کورس 102 کی پاسنگ آؤٹ پریڈ منعقد ہوئی ۔
آفیسرز ایڈوانس کمانڈو کورس کے 15 افسران پاس آوٹ ہوئے، جن میں 2 کا تعلق پاکستان نیوی سے ہے۔
سولجر کمانڈو کورس کے 121 جوانوں میں 3 کا تعلق پاکستان ائیر فورس اور 25 کا تعلق پاکستان نیوی سے ہے۔ جنہوں نے تربیت کامیابی سے مکمل کی۔
یہ بھی پڑھیں:پی ایم اے کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ جاری، وزیراعظم کی خصوصی شرکت
جنرل آفیسر کمانڈنگ ایس ایس جی، میجر جنرل جواد احمد تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ مہمان خصوصی نے ٹریننگ میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے افیسرز اور جوانوں میں انعامات تقسیم کیے۔
مہمانِ خصوصی نے تربیت مکمل کرنے والے جانبازوں کو ایس ایس جی کے ونگز بھی لگائے۔ تقریب میں تربیت مکمل کرنے والے افسروں اور جوانوں کے والدین اور اہل خانہ نے شرکت کی۔
ایس ایس جی ضرار کے چاک و چوبند دستے نے رولنگ فائر اور جوڈو و مکسڈ مارشل آرٹ کے دستوں نے عملی مظاہرے پیش کیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کمانڈو کورس ایس ایس جی
پڑھیں:
نئی دلی، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ
اجلاس میں کشمیری رہنماﺅں فاروق عبداللہ، محمد یوسف تاریگامی اور آغا روح اللہ مہدی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کا انعقاد ”فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر“ نے کیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی اور کشمیری سیاسی رہنمائوں، کارکنوں اور سابق بیوروکریٹس نے بھارتی دارالحکومت نئی دلی میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا جس میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کا انعقاد ”فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر“ نے کیا تھا۔ یہ اجلاس بھارتی پارلیمنٹ کے جاری مانسوں اجلاس کے موقع پر منعقد کیا گیا تاکہ ریاستی اور خصوصی حیثیت کی بحالی کے مطالبے کو پارلیمنٹ تک پہنچایا جا سکے۔سابق بھارتی مصالحت کار رادھا کمار نے اجلاس کے دوران کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد لائی جائے۔ اجلاس میں کشمیری رہنماﺅں فاروق عبداللہ، محمد یوسف تاریگامی اور آغا روح اللہ مہدی وغیرہ نے بھی شرکت کی۔
سابق داخلہ سکریٹری Gopal Pillai سمیت 122 سابق سرکاری افسران کی دستخط شدہ ایک عرضداشت بھی بھارتی ارکان پارلیمنٹ کو پیش کی گئی جس میں ان پر ریاستی حیثیت کی بحالی کیلئے ایوان میں قرارداد لانے پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں کانگریس اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے کچھ ارکان پارلیمنٹ بھی شریک تھے۔ فاروق عبداللہ نے اس موقع پر کہا کہ ہم یہاں بھیک مانگنے کے لیے نہیں آئے ہیں، ریاستی درجہ ہمارا آئینی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2019ء کا فیصلہ غیر قانونی تھا جسے واپس لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی حیثیت کی منسوخی سے قبل جموں و کشمیر کے منتخب نمائندوں کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی۔
آغا روح اللہ مہدی نے کہا کہ جموں و کشمیر کو مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ کشمیر آج بھی درد و تکلیف کا شکار ہے، کشمیریوں کو ان گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے جو انہوں نے کبھی نہیں کیے۔ کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) کے سجاد کرگیلی نے کہا کہ لداخ کو دھوکہ دیا گیا ہے اور حق رائے دہی سے محروم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کو تبدیل کیا جانا چاہیے، ہماری زمین خطرے میں ہے۔