سندھ طاس معاہدہ معطل، بھارت راوی، ستلج اور بیاس کے پانی پر حق کھو بیٹھا: محمد علی درانی
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
سندھ طاس معاہدہ معطل، بھارت راوی، ستلج اور بیاس کے پانی پر حق کھو بیٹھا: محمد علی درانی WhatsAppFacebookTwitter 0 27 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد : سینئر سیاستدان اور سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد بھارت اب راوی، ستلج اور بیاس دریاؤں کا پانی نہیں روک سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تینوں دریا سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو ملے تھے، اور معاہدے کی معطلی کے بعد اب ان دریاؤں کے پانی پر بھارت کا کوئی قانونی حق باقی نہیں رہا۔
محمد علی درانی نے مزید کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے ایوب خان کے مارشل لائی دور کی تاریخی غلطی کا ازالہ ہوگیا ہے، جس نے پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچایا تھا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ معاہدے کے تحت بھارت نے دریائے جہلم اور چناب سے اپنے حصے کا ماحولیاتی پانی حاصل کیا، مگر معاہدے کی روح کے منافی انداز میں پاکستان کے قانونی حصے کا پانی بھی چھین لیا۔
انہوں نے زور دیا کہ سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے راوی، ستلج اور بیاس جیسے دریا ریت کے میدان بن گئے ہیں، جو اقوام متحدہ کے واٹر کورسز کے عالمی کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ درانی نے کہا کہ دریاؤں کے خشک ہونے سے مقامی انسانی آبادیوں میں بیماریاں پھیلیں، زیر زمین پانی زہریلا ہو گیا اور آبی حیات، چرند پرند اور جنگلی حیات کا بنیادی حق بھی متاثر ہوا۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ تینوں دریاؤں کا پانی چھن جانے سے پاکستان کے تمام صوبوں کو پانی کے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا، تاہم اگر راوی، ستلج اور بیاس کے پانی کی واپسی ممکن ہو جائے تو نہ صرف نہری نظام بلکہ پانی سے جڑے دیگر تمام مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔
محمد علی درانی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ راوی، ستلج اور بیاس کا پانی واپس لینے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کرے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرلندن میں پاکستان ہائی کمیشن پر اسرائیلی اور بھارتی انتہا پسندوں کا حملہ، عمارت کے شیشے ٹوٹ گئے روڈ ٹو مکہ پروجیکٹ: انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے سعودی وفد پاکستان پہنچ گیا پہلگام حملے کی سازش رچنے والوں کو کڑا جواب دیں گے: مودی کا پیغام ٹرمپ کی حمایت یافتہ ورلڈ لبرٹی فنانشل کا پاکستان کرپٹو کونسل کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا انتہا پسند ہندوؤں کا حملہ، موہالی میں کشمیری طالبہ کو ہراساں کیا کینیڈا: اسٹریٹ فیسٹیول کے دوران ڈرائیور نے ہجوم کو کچل دیا، متعدد افراد ہلاک ایران: بندر عباس پورٹ پر دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد 25 ہوگئیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سندھ طاس معاہدے محمد علی درانی ستلج اور بیاس معاہدے کی کے پانی کا پانی
پڑھیں:
سندھ طاس کے نہلے پر شملہ معاہدے کا دہلا
جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی نازک اور پیچیدہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ماضی میں ہونے والے متعدد معاہدے دو طرفہ اعتماد اور تنازعات کے حل کی کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم معاہدوں میں “سندھ طاس معاہدہ” (Indus Waters Treaty – 1960) اور “شملہ معاہدہ” (Simla Agreement – 1972) شامل ہیں۔ بھارت نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا تو پاکستان نے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے شملہ معاہدہ معطل کر دیا، یوں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا۔ اس کے تحت دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا جبکہ راوی، بیاس اور ستلج بھارت کے حصے میں آئے۔ یہ معاہدہ دنیا کا واحد آبی معاہدہ ہے جو دو دشمن ممالک کے درمیان کئی جنگوں کے باوجود قائم و دائم رہا۔
حالیہ بھارتی اقدامات کے مطابق وہ اس معاہدے کو معطل کر چکا ہے، لیکن عملی طور پر بھارت ان دریائوں پر ایسا کوئی انفراسٹرکچر نہیں رکھتا جس سے وہ فوری طور پر پانی کا بہائو روک سکے۔ چناب اور جہلم پر نہ کوئی بڑا بیراج ہے اور نہ ہی کوئی بڑی نہریں بھارت کے اندر موجود ہیں جو ان دریائوں سے نکلتی ہوں کہ بھارت دریائوں کے پانی کو موڑ سکے۔ اس لیے یہ دعوی محض ایک سیاسی دبائو ڈالنے کی کوشش ہے، جس کا زمینی حقائق سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔پاکستان نے اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر کے بھارت کو قانونی اور سفارتی دبائو میں لانے کا راستہ اختیار کیا ہے، چونکہ اس معاملے میں پاکستان کی قانونی و اخلاقی پوزیشن بہتر ہے، اس لیئے پاکستان آنیوالے ہفتوں اور مہینوں میں عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر سکتا ہے۔
1972 میں ہونے والا شملہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 کی جنگ کے بعد طے پایا تھا جس میں جموں و کشمیر کی لائن آف کنٹرول (LoC) کو تسلیم کیا گیا اور اس پر دونوں ممالک نے باہمی اتفاق سے امن برقرار رکھنے کا وعدہ کیا۔ پاکستان کی طرف سے جوابی اقدام کے طور پر شملہ معاہدے کو معطل کرنا، سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے مقابلے بہت زیادہ خوفناک اور فوری اثرات کا حامل ثابت ہو گا، اور نتائج بھارت کیلئے بہت زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں، کیونکہ شملہ معاہدے کی معطلی سے لائن آف کنٹرول کی بین الاقوامی حیثیت ختم ہوجائے گی، اس معاہدے کے تحت LoC کو ایک متنازع سرحد کے طور پر بین الاقوامی سطح پرقبول کیاگیا۔ شملہ معاہدے کی معطلی بہت ہی زیادہ خطرناک معاملہ ہے کیونکہ اس بڑے فیصلے کی وجہ سےپاکستان اوربھارت سمیت پوری دنیا کیلئے کنٹرول لائن کا تقدس ختم ہو جائے گا اور جس کاجب جی چاہے گاوہ اسے پارکرلے گا، یوں ایل او سی محض ایک دفاعی لکیر بن کر رہ جائے گی جس کی کوئی بین الاقوامی حیثیت نہیں ہو گی۔ اس سے کشمیر کی آئینی و سیاسی اور عسکری حیثیت میں دھماکہ خیز تبدیلیاں رونما ہو جائیں گی اور دنیا بھر کی جہادی و عسکری تنظیموں کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے بطور ایک عالمی جہادی میدان کے نئے دروازے کھل جائیں گے۔
شملہ معاہدے کے تحت پاکستان نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ کنٹرول لائن پر کسی قسم کی دراندازی یا عسکری مداخلت کا حصہ نہیں بنے گا۔ لیکن اگر یہ معاہدہ عملاً معطل ہو جاتا ہے تو دنیا بھر کی جہادی تنظیموں کے لیے یہ موقف پیدا ہو سکتا ہے کہ اب لائن آف کنٹرول کوئی مسلمہ رکاوٹ نہیں رہی اور مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونا ایک “کھلا میدان” ہے۔ اس بہت بڑی تبدیلی کا ایک براہ راست اثر یہ ہو گا کہ کشمیریوں کی عسکری تحریک کو نئی توانائی اور بیرونی مددحاصل ہوجائےگی اور بھارتی فوج کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنا اور یہاں دریائے چناب و جہلم پر بیراج تعمیر کرکے بھارت کیلئے نہریں نکالنا ناممکن ہو جائے گا۔
اس نئی صورتحال میں پاکستان پر بین الاقوامی دبائو بھی بڑھےگاکہ وہ غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی نہ کرے لیکن پاکستان اس موقع پر یہ موقف اختیار کر سکتا ہے کہ پہل بھارت نے کی ہے، کیونکہ دریائوں کا پانی روکنا پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ اور کھلا اعلان جنگ ہے۔ شملہ معاہدے کی منسوخی یا معطلی سے بھارتی فوج کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں درپیش چیلنجز میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا۔ لائن آف کنٹرول کی قانونی حیثیت ختم ہونےسے اگر عسکری دراندازی میں اضافہ ہوا تو بھارتی فوج کو ایک وسیع اور ناقابل تصور جنگی محاذ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے نہ صرف بھارت کے فوجی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوجائےگابلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی تعداد مزید لاکھوں فوجی لا کر بہت زیادہ بڑھانی پڑے گی اور مودی سرکار کو کم و بیش ویسی ہی صورتحال درپیش ہو جائے گی جس کا جہاد افغانستان کے دوران سویت یونین کو سامنا کرنا پڑا تھا، آٹھ دس برس کنٹرول لائن معطل رہی تو اربوں ڈالر ماہانہ کے فوجی اخراجات بھارت کی معیشت کی چولیں ہلا دیں گے اور پھر ہندوستان بھی نہ صرف آخر کار جہادیوں کی گوریلا جنگ سے تنگ آ کر مقبوضہ جموں و کشمیر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو جائے گا بلکہ اپنی شمال مشرقی ، مشرقی اور وسطی ریاستوں پر کنٹرول کے قابل بھی نہیں رہے گا جہاں پہلے سے ہی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، یوں آخر کار سوویت یونین کی طرح بھارت بھی ٹوٹ کو کم و بیش ڈیڑھ درجن ممالک میں بٹ جائے گا۔ واللہ اعلم باالصواب