پاک بحریہ کی اینٹی ایکسس/ ایریا ڈینائل حکمت عملی، بھارتی ائیر کرافٹ کرئیر پسپا
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
پاک بحریہ نے اینٹی ایکسس/ ایریا ڈینائل حکمت عملی، بھارتی ائیر کرافٹ کرئیر پسپا کردیا۔
تازہ سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق بھارتی طیارہ بردار جہاز آئی این ایس وکرانت اچانک بھارتی بندرگاہ کاروار پہنچ گیا۔ آئی این ایس وکرانت محض چند روز ہی کھلے سمندر میں موجود رہا۔
بھارتی بحریہ کے مطابق آئی این ایس وکرانت کو پاکستان بھارت حالیہ کشیدگی کے پیش نظر بحیرہ عرب میں تعینات کیا گیا تھا۔
پاک بحریہ کی سمندر میں موجودگی اور مسلسل پیٹرولنگ کے باعث بھارتی بحریہ نے طیارہ بردار جہاز واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔
تازہ ترین سیٹلائٹ انٹیلی جنس 26 اپریل 2025 کو لی گئی تصاویر کے مطابق، آئی این ایس وکرانت کاروار بندرگاہ پر دوبارہ لنگر انداز ہوچکا ہے۔
23 اپریل کی سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق آئی این ایس وکرانت بحیرہ عرب کے کھلے پانیوں کی جانب روانہ ہو رہا تھا۔
آئی این ایس وکرانت کی تعیناتی پر بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا زمین آسمان ایک کر رہے تھے، طیارہ بردار جہاز کو محض چند دن کے لیے کھلے سمندر میں تعینات نہیں کیا جاتا۔
پاکستان بحریہ کے ”کیرئیر کلر“ میزائل سسٹمز سمندر میں متحرک ہوں تو پسپائی ہی واحد محفوظ راستہ رہ جاتی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ا ئی این ایس وکرانت کے مطابق
پڑھیں:
ایرانی مواصلاتی سیٹلائٹ ’’ناہید 2‘‘ کامیابی سے لانچ کردیا گیا
ایران کے خلائی پروگرام کو ایک اور سنگ میل عبور کرتے ہوئے روس نے ایک ایرانی ساختہ مواصلاتی سیٹلائٹ کامیابی سے خلا میں روانہ کر دیا ہے۔
یہ مشن روس کے ووسٹوچنی کاسمودروم سے سويوز راکٹ کے ذریعے مکمل کیا گیا، جس میں ’’ناہید-2‘‘ نامی سیٹلائٹ کو مدار میں بھیجا گیا۔
سرکاری ایرانی میڈیا کے مطابق یہ سیٹلائٹ مکمل طور پر ایرانی انجینئرز کی محنت کا نتیجہ ہے اور اس کا وزن تقریباً 110 کلوگرام ہے۔
یہ کامیابی ایران کی خلائی ٹیکنالوجی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہارت کا مظہر ہے، تاہم مغربی ممالک خاص طور پر امریکا اور یورپ میں اس پیش رفت کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ مغربی حکومتوں کو اندیشہ ہے کہ ایران کا خلائی پروگرام درحقیقت اس کی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کی ایک کوشش بھی ہو سکتی ہے، جو خطے میں عسکری توازن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ سیٹلائٹ لانچ ایسے وقت میں عمل میں آیا ہے جب ایران اور یورپی ممالک کے درمیان جوہری معاہدے کے حوالے سے مذاکرات ایک بار پھر استنبول میں شروع ہو چکے ہیں۔ تجزیہ کار اس تناظر میں ایران کی خلائی سرگرمیوں کو سفارتی دباؤ کے ایک ممکنہ حربے کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ دسمبر میں بھی ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ملکی سطح پر تیار کردہ سیٹلائٹ کیریئر کے ذریعے اپنی تاریخ کا سب سے بھاری پے لوڈ کامیابی سے خلا میں بھیجا ہے۔