اچھی بھلی چلتی حکومت کو ہمارے حکمراں خود خطرے میں ڈال دیا کرتے ہیں۔گزشتہ برس فروری میں جب ہمارے یہاں قومی انتخابات ہوئے تو ہم سب کو معلوم ہے وہ کن حالات میں ہوئے اورکس طرح کرائے گئے۔ اُن دنوں ملک ایک بہت ہی بڑے اورخطرناک معاشی بحران سے گزر رہا تھا۔
عوام سخت مہنگائی کی وجہ سے انتہائی مایوسی کاشکار تھے اور ایسے میںانتخابات کا جو نتیجہ آیا وہ توقع کے خلاف ہرگز نہیں تھا۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت میں زبردست مہنگائی کے سبب مسلم لیگ نون کا ووٹ بینک بڑی حد تک متاثر ہوچکا تھا، معاشی اور اقتصادی زبوں حالی کے سبب ملک میں دوبارہ الیکشن کروائے نہیں جاسکتے تھے۔ پھر مجبورا میاں شہباز شریف کو حکومتی ذمے داریاں سنبھالنی پڑیں۔
پارلیمنٹ میں عددی کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کو ساتھ ملایا گیا۔ مگر پیپلزپارٹی اِن حالات میں کابینہ کا حصہ بننے پررضا مند نہ ہوئی اورصرف آئینی عہدوں کے عوض اس نے شہباز شریف کاساتھ نبھانے کے عہدوپیمان کرلیے۔ اُسے خراب معیشت کی وجہ سے خدشات لاحق تھے کہ کابینہ میں شامل ہونے کا مطلب تمام ناکامیوں کا بوجھ اتحادی پارٹی کو بھی اُٹھانا پڑے گا۔ ساتھ ہی ساتھ اُسے اپنی سیاسی ساکھ کو بھی برقرار رکھنا مقصود تھا۔
پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ایک دوسرے کے بڑے حریف رہے ہیں اورعوام کے ووٹ بھی اِن ہی دوپارٹیوں میں تقسیم چلے آرہے تھے ، مگر 2011 سے تحریک انصاف نے اِ ن دونوں کے ووٹ بینک میںدراڑڈال کر اچھے خاصے ووٹ اپنے پلڑے میں ڈال لیے۔ اب یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کو کمزور کرنے اورنیچا دکھانے کی بجائے مل جل کر تیسرے حریف سے نبرد آزما ہوگئیں۔ یہ وقت اور حالات کاتقاضہ بھی تھا۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی اِن دونوں نے مل کرایک دوسرے کا ساتھ نبھایا اور بلاول بھٹو زرداری نے اس عبوری دور میں اپنے لیے وزارت خارجہ کا قلم دان پسند فرمایا۔ صدر آصف زرداری صاحب کی ذہانت کے متعلق جب ہم یہ کہا کرتے ہیں کہ وہ بہت دور کی سوچ رکھتے ہیں توکچھ غلط بھی نہیں کہتے ہیں۔
پرویز مشرف کو ہٹا کرجس طرح اُنھوں نے اپنے آپ کواس ملک کا صدر بنانے کے لیے منصوبہ بندی شروع کی ویسی شاید ہی کوئی کرسکتا تھا۔ مخدوم امین فہیم وزارت عظمیٰ کی حسرت لیے اس دارفانی سے ہی گزرگئے اورزرداری صاحب نے 2008 میں وزیراعظم کے عہدے کے لیے یوسف رضا گیلانی کو نامزد کردیا۔ اس وقت اُن کے ذہن میں اپنے لیے صدر مملکت کا عہدہ چل رہا تھا اورایک صوبے سے دو بڑے عہدوں پر شخصیات کا نامزد ہونا سیاسی اعتبار سے اچھا تصور نہیں کیاجاتا ہے اس لیے مخدوم امین فہیم کی حسرتوں پر پانی پھیردیا گیا۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی اچھی بھلی چلتی حکومت کی غلطیوں پر۔ میاں شہبازشریف نے اپنا ایک سال بخیروخوبی گزار لیا اور حکومت کے نامہ اعمال میں کچھ کامیابیاں بھی حاصل کر لیں۔ اس طرح اُنھوں نے اپنے سولہ ماہ کی حکومت کی ناکامیوں کا کچھ بوجھ بھی ہلکا کر لیا۔ اِن کامیابیوں کے پیچھے ہماری اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہاتھ ہے جس نے اُنہیں ایسا وزیرخزانہ دیا جس کے تعلقات عالمی مالیاتی اداروں سے بھی بہت مضبوط رہے ہیں اورجن کی کاوشوں سے ہمیں IMFسے قرضہ حاصل کرنے میں بہت مدد ملی۔
وہ قرضہ اگر نہ ملتا تو لاکھ کوششوں کے باوجود موجودہ حکومت آج اپنی کامیابیوں کا یہ جشن منا نہیںرہی ہوتی ۔ البتہ موجودہ حکومت نے چولستان کے صحراؤں کو زرخیز بنانے کے لیے چھ نہریں نکالنے کااعلان کردیا۔ حالانکہ پالیسی سازوں کو اچھی طرح پتا ہونا چاہیے تھا کہ سندھ یہ منصوبہ قبول نہیں کرے گا، مگر پھربھی اس کی تشہیر زورشور کے ساتھ شروع کردی گئی۔ جس کانتیجہ کیا ہوا کہ اپنی اتحادی پارٹی سے ناراضی اورتلخی بھی مول لی اوریہ منصوبہ بھی ترک کرنا پڑا ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں جب کالاباغ ڈیم نہیں بن سکا تو چھ نہروں کا منصوبہ بھلا کیسے کامیاب ہوسکتا ہے۔ حکومت اپنے اس مجوزہ منصوبے پرڈٹی رہی اور وہاں پیپلزپارٹی بھی اس کی مخالفت میں جتی رہی۔ سندھ میں احتجاج شروع ہوگیا، سندھ حکومت کے مطالبے پر بھی مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے سے مسلسل گریز بھی کیا جاتا رہا ۔ حکومت کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ جہاں ایک صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اوربلوچستان میں شورش بپا ہے ایسے میں وہ تیسرے صوبے سے لڑائی بھلا کیسے مول سکتی ہے۔
اس معاملے میں سندھ حکومت کا مؤقف درست معلوم ہو رہا ہے ۔ خود پنجاب صوبے کو بھی اپنی ضرورت سے کم پانی مل رہا ہے تو یہ اس میں مزید کمی کر کے اوراپنی پہلے سے زرخیز زمینوں کو بنجرکر کے چولستان کی بنجر زمینوں کا زرخیز بنانا کون سی عقلمندی ہے۔ حکومت بات چیت کی ذریعے بھی یہ ثابت نہیں کرسکتی تھی کہ صوبے پنجاب میں اس وقت وافر مقدار میں پانی موجود ہے اور وہ اپنا اضافی پانی چولستان کو دے رہی ہے۔ لہذا ایک ماہ کی گرما گرم بحث اور بیانات کے بعد بلآخر وفاقی حکومت ہی کو سرینڈر کرنا پڑا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پاکستان پیپلزپارٹی اپنی حمایت واپس لے لیتی تو وفاقی حکومت دھڑام سے زمین بوس ہوجاتی اور یہ ملک ایک بھی انتشار اور غیریقینی کاشکار ہوجاتا۔ معاشی بحران سے نکل جانے کی ساری اُمیدیں بھی خاک میں مل جاتیں۔
سمجھ داری کا تقاضا بھی یہی تھا کہ حکومت یہ منصوبہ فوری طور پرترک کردے۔ حکومت نے اب 2 مئی 2025 کو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کرلیا ہے اوراس طرح اس منصوبے کو ترک کرنے کے لیے قانونی جواز پیدا کرلیا ہے ۔ بلاول بھٹو ابھی سے اس اجلاس کی کامیابی کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنے عوام کو نوید سنا رہے ہیں کہ فیصلہ کیا ہوگا۔ اس اجلاس میں اس منصوبے کے خلاف فیصلہ نوشتہ دیوار ہے۔ صرف کاغذی کارروائی کرنا باقی ہے ۔ حکومت کو چاہیے ایسی غلطیاں کرنے سے پہلے غوروفکر کرلیاکرے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی حکومت ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
سیلابی ریلے وسطی و جنوبی پنجاب میں تباہی مچا کر سندھ میں داخل ہونے پر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کو بھی خیال آگیا کہ انھیں اور کچھ نہیں تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا خالی ہاتھ دورہ ہی کر لینا چاہیے۔
اس لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے ملتان، شجاع آباد اور جلال پور پیروالا کا دورہ کیا اور حکومتی امدادی سرگرمیوں پر عدم اطمینان کا اظہارکیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ سیاست کا وقت تو نہیں، اس لیے عوام کو اپنے سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔
انھوں نے ایک ریلیف کیمپ کے دورے پر کہا کہ پی ٹی آئی اس مشکل گھڑی میں متاثرین کے ساتھ ہے مگر انھوں نے متاثرین میں سلمان اکرم راجہ کی طرح کوئی امدادی سامان تقسیم نہیں کیا اور زبانی ہمدردی جتا کر چلتے بنے۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دورے میں کہا کہ اس وقت جنوبی پنجاب سیلاب کی زد میں ہے اور سرکاری امداد محدود ہے، اس لیے میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔
سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہیں آئے ، موصوف نے کہا کہ ٹک ٹاکر حکومتیں سیلاب زدگان کی مدد کرنے والے والنٹیئرز پر امدای سامان پر فوٹو نہ لگانے کی پاداش میں ایف آئی آر کاٹ رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کے حامی اینکرز اور وی لاگرز نے بھی اس موقع پر سیاست ضروری سمجھی اور انھوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اپنے وی لاگ اور انٹرویوز میں بٹھا کر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ (ن) لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے سیلاب متاثرین کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے اور صرف دکھاوے کی امداد شروع کر رکھی ہے اور سیلاب متاثرین کو بچانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور متاثرین کو بروقت محفوظ مقامات پر پہنچانے کی کوشش نہیں کی اور جب سیلابی پانی ان کے گھروں اور کھیتوں میں داخل ہوا تو ریلیف کا کام شروع کیا گیا۔
متاثرہ علاقوں میں ضرورت کے مطابق کشتیاں موجود تھیں نہ ریلیف کا سامان اور نہ ضرورت کے مطابق حفاظتی کیمپ قائم کیے گئے۔ یہ رہنما اس موقعے پر بھی سیاست کرتے رہے اور کسی نے بھی حکومتی کارکردگی کو نہیں سراہا بلکہ حکومت پر ہی تنقید کی۔ جب کہ وہ خود کوئی ریلیف ورک نہیں کرتے۔
پنجاب کے ریلیف کمشنر نے قائم مقام امریکی ناظم الامور کو پنجاب ہیڈ آفس کے دورے میں بتایا کہ پنجاب کو تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا ہے جس سے ساڑھے چار ہزار موضع جات متاثر 97 شہری جاں بحق اور تقریباً 45 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن کے لیے متاثرہ اضلاع میں 396 ریلیف کیمپس، 490 میڈیکل کیمپس اور 405 وزیٹری کیمپس قائم کیے گئے جہاں سیلاب متاثرین کو ٹھہرا کر ہر ممکن امداد فراہم کی جا رہی ہے اور شمالی پنجاب کے متاثرہ اضلاع کے بعد جنوبی پنجاب کی سیلابی صورتحال پر حکومتی توجہ مرکوز ہے اور سیلاب متاثرین کے لیے تمام سرکاری وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے قدرتی آفت پر صوبائی حکومتوں کی امدادی کارروائیوں کو قابل ستائش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے کسانوں، مزدوروں، خواتین اور بچوں نے غیر معمولی ہمت دکھائی ہے اس قدرتی آفت سے بے پناہ مسائل و چیلنجز نے جنم لیا ہے مگر حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکوتوں سے کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خیبر پختونخوا کے برعکس پنجاب و سندھ کی حکومتوں نے سیلابی صورت حال دیکھتے ہوئے تیاریاں شروع کردی تھیں اور حفاظتی انتظامات کے تحت متاثرہ علاقوں میں سیلاب آنے سے قبل خالی کرنے کی اپیلیں کی تھیں مگر اپنے گھر فوری طور خالی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
غریب اپنے غیر محفوظ گھر خالی کرنے سے قبل بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں، انھیں حکومت اور انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ واپس اپنے گھروں کو آ بھی سکیں گے یا نہیں اور انھیں سرکاری کیمپوں میں نہ جانے کب تک رہنا پڑے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر قدرتی آفت پر حکومتی اور اپوزیشن دونوں طرف سے سیاست ضرور کی جاتی ہے اور غیر حقیقی دعوے کیے جاتے ہیں اور عوام کو حقائق نہیں بتائے جاتے۔ حکومت نے بلند و بانگ دعوے اور اپوزیشن نے غیر ضروری تنقید کرکے اپنی سیاست بھی چمکانا ہوتی ہے اور دونوں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ وقت سیاست کا ہے یا نہیں۔